تحریر : مسعود جاوید
عرب حکماء کا ایک مشہور مقولہ ہے ’ لکل حدث حدیث‘یعنی جس وقت جو موضوع اور موقع ہو بات اسی کی کرنی چاہیے۔ موضوع بحث ہے تبلیغی جماعت پر سعودی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کرنے کا اور اس کی وجہ یہ بیان کرنے کا کہ ’یہ جماعت قبر پرستی کو فروغ دیتی ہے شرک اور بدعات کی تائید کرتی ہے اور دہشت گردی کا دروازہ کھولتی ہے۔‘
اس موضوع اور موقع کا تقاضا ہے کہ مسلمانان عالم بلا تفریق مسلک اس کے خلاف آواز اٹھائیں اس لئے کہ تبلیغی جماعت کے بارے میں مذکورہ بالا باتیں نہ صرف گمراہ کن اور بے بنیاد ہیں بلکہ دوسرے ممالک میں اسلام اور مسلم مخالف عناصر کو بے ضرر مسلم جماعتوں پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کے لئے جواز فراہم کرنے والی ہیں۔
ملی مفاد کا تقاضا ہے کہ ہم ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہو کر ملت واحدہ کا ثبوت پیش کریں۔ جب ایک ناہنجار اینکر نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں گستاخی کی تو دیوبندی مکتبہ فکر کے لوگوں نے بیک زبان اس کی مذمت کی تھی اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی بعض باتیں گرچہ جمہور علماء کی آراء کے خلاف ہوتی ہیں لیکن ہم اپنے تعصب کے حصار سے باہر نکل کر ان کے حق میں آواز بلند نہیں کئے! بعض دیوبندیوں کو ان کی دیگر خامیوں میں ایک خامی یہ نظر آتی ہے کہ وہ روایتی مدرسے کے فارغ التحصیل عالم دین نہیں ہیں۔ کیا یہ ایک ’خامی‘ ان کی دینی دعوتی خدمات کو نظر انداز کرنے کی وجہ بن سکتی ہے ! مزارات کو وسیلہ بنانا توحید مخالف ہے ان کا یہ قول بریلویوں کو ان سے متنفر ہونے کے لئے کافی سمجھا گیا اور شیعوں کو ان کا یزید کو ’ رحمۃ اللہ علیہ‘ کہنا از حد ناگوار گزرا۔ لیکن جزئی اختلافات اس درجہ بھی حاوی نہ ہو کہ ملی انتشار عیاں ہو اور مسلم دشمن عناصر کو موقع ملے۔
مگر افسوس ایک فلاحی صاحب نے موضوع اور موقع کے خلاف جلی حروف میں خوش خط کتابت اور فریم میں کچھ یوں لکھا :
عنوان ہے : ’تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘
اس عنوان کے تحت موصوف متحمس نے دارالعلوم دیوبند کے بارے میں غلط بیانی کرتے ہوئے لکھا کہ ’دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت دی‘ جانے کے لئے شرط ہے کہ فارغ التحصیل طلبہ پہلے تبلیغی جماعت میں چلہ چالیس دن لگائیں‘‘…..
لکھنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے لکھنے سے پہلے معلومات درست کر لیا کریں۔ دارالعلوم دیوبند میں کسی بھی زمانے میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی اور نہ ہے۔ لیکن موصوف نے نہ جانے کس پرخاش یا عصبیت کی وجہ سے ایسی گمراہ کن بات جلی حروف میں اپنی وال کی زینت بنانے کی کوشش کی ہے !
دوسری بات موصوف نے لکھی کہ دارالعلوم دیوبند میں اعلان کیا گیا ہے جو طالب علم تبلیغی جماعت سے وابستگی رکھے گا اس کا اخراج ہوگا۔ کاش موصوف اس اعلان کے پس منظر اور سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کرتے! جب تبلیغی جماعت امارت اور شوری دو گروہ میں منقسم ہوئی اور تبلیغی جماعت سے وابستہ مسلمانوں کی طرح طلباء دارالعلوم بھی دو گروہوں میں منقسم ہو گئے اکثر طلباء شوری والوں کو حق بجانب سمجھتے تھے لیکن بعض طلباء امارت اور مولوی سعد صاحب کی امارت کی تائید کرتے تھے اور رفتہ رفتہ دونوں رجحان والوں میں تقریر و تحریر سے اختلافات ظاہر کرنے کی بجائے قریب تھا کہ گروہ بندی غیر مہذب تصادم ہاتھا پائی تک پہنچتی دارالعلوم انتظامیہ نے تبلیغی جماعت پر گروہ بندی اور دو میں سے کسی بھی گروپ سے وابستگی پر پابندی لگا دی۔
یہ پابندی تبلیغی جماعت کے عقائد، اعمال ،نظریات رجحانات اور جمہور علماء کی آراء سے مولوی سعد صاحب کے بعض انحرافات کی بناء پر نہیں تھی بلکہ تصادم سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر کے طور پر ہے۔
تبلیغی جماعت سے علماء دیوبند کا بحیثیت جماعت اور عقیدہ کوئی اختلاف نہیں ہے سوائے پچھلے چند سالوں میں مولوی سعد صاحب وغیرہ کے بعض انحرافات کے۔ تاہم علماء دیوبند اس بات کے قائل ہیں کہ تبلیغی جماعت مسلمانوں کو مسلمان بنانے کے لئے ایک محدود نوعیت کی دعوت دین کا کام کر رہی ہے اور بلاشبہ اس سے بڑی تعداد دین کی بنیادی تعلیمات کلمہ ،نماز ،روزہ ،حج وزکوٰۃ سے واقف ہو رہی ہے۔
اختلاف اور انتشار کی صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بعض تبلیغی متعصب اس جماعت کی چھ باتوں کو ہی مکمل دین کا درجہ دے کر علماء پر لعن طعن کرتے ہیں کہ وہ چلہ میں نہیں نکلتے وغیرہ وغیرہ۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مولانا ابرار الحق صاحب کی ایک تقریر بہت مشہور ہے کہ "تبلیغی جماعت مفید ہے مگر کافی نہیں ہے”۔ غالباََ امیر جماعت مولانا انعام الحق صاحب کے دور کی بات ہے کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ جماعت والوں نے ایک مدرسہ کے مہتمم اور استاذ حدیث و فقہ کو تشکیل کر کے چالیس دنوں کے لئے لے آئے ہیں تو انہوں نے مہتمم صاحب سے کہا کہ آپ کے لئے تعلیم دینا اس تبلیغی چلہ سے زیادہ اہم ہے آپ لوگ بس ہماری اجتماعات میں شریک ہو جایا کریں تاکہ عوام میں یہ پیغام جائے کہ ہم سلسلہ دیوبند سے مختلف نہیں ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)