عبدالسلام عاصم
منقسم ہندستان، باقیماندہ پاکستان اور جبر سے آزاد بنگلہ دیش کی کہانیاں آپس میں اتنی الجھی ہوئی ہیں کہ جب تک انہیں ملا کر اور تضادات کی علمی تفہیم کے ساتھ نہ پڑھا جائے، ایک حقیقت جو اور تجسس پسند قاری کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
جد و جہد آزادی کے مختلف کرداروں کے نقطہ ہائے نظر، 1947 میں تقسیم ہند کے صدمے کے ساتھ ملنے والی آزادی، برطانیہ داد پاکستان کا قیام اور 1971 میں اُس کے دو لخت ہونے کے ساتھ بنگلہ دیش کا ظہور؛ ان تینوں واقعات کے بظاہر الگ الگ کچھ بھی اسباب گنوائے جائیں بباطن سلسلہ وار سچ یہ ہے کہ ہندستان کی تقسیم نفرت کی بنیاد پر ہوئی تھی جس کی عریانی کو مسلم لیگ نے دوقومی نظریے کا لباس پہنا دیا تھا۔ بنگلہ دیش کا قیام پاکستان بنانے والوں کی مجموعی رعونت اورفوجی حکمرانوں کی سنگین چیرہ دستی کا نتیجہ تھا اورہندستان نے بلا شبہ تھوپی ہوئی جنگ کا مقابلہ بنگلہ دیش کی آزادی کو یقینی بنانے کی حد تک کیا۔
مادروطن کوغیرصحتمند سوچ کی بنیاد پر باہمی اشتراک سے دو ٹکڑے کرنے اور پاکستان بنانے کی تحریک بہ کثرت اردو زبان میں چلی تھی۔ اس لئے بٹوارے کے بعد بھی فہم و دانش سے کام نہ لینے والوں نے کچھ سوچے سمجھے بغیر مہاجروں کی اکثریت کی زبان کو پاکستان میں سرکاری زبان بنا دیا۔ اس غلطی کا ادراک اب وہاں کے پنجابی، پختون اور سندھی غرض سبھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی نصابی کتابوں میں بنگلہ دیش کے قیام کی کہانی دنیا کے پاس موجود واقعات و سانحات کی آن ریکارڈ دستاویزات سے بری طرح متصادم ہے۔
متحدہ ہندستان میں ”تعظیم“ کی زبان سمجھی جانے والی اردو کو پاکستان کے بے ہنگم نقشے میں ایسا فٹ کیا گیا کہ وہ ”تقسیم“ کی زبان بن گئی۔ اِسی کا نتیجہ تھا کہ مشرقی پاکستان جو ابتدا میں زبان اور دوسرے اسباب کے حوالے سے بس داخلی خود مختاری چاہتا تھا مجبوراً علاحدگی پسندی کی راہ پر چل پڑا۔ خود مختاری ایک ایسا انسانی جذبہ ہے جس کی تکمیل وفاق کے حسن کو نکھارتی ہے، لیکن جب اس جذبے کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے تو نوبت طلاق یعنی علاحدگی تک پہنچتی ہے۔ بنگلہ دیش اسی کھلواڑ کا نتیجہ ہے۔ اِس رخ پر بر صغیر کی کہانیاں تینوں ملکوں میں موضوعات، ابواب اور واقعات کے تسلسل کے حساب سے مختلف نظر آتی ہیں۔ ہندستانی مورخین کا دامن بھی بے داغ نہیں لیکن یہاں حقائق کو یکسر نہیں جھٹلایا گیا۔
دراصل تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کا جذبہ علمی نہیں مبنی بر عقیدہ ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اُن شعبہ جاتی طالب علموں کو پہنچتا ہے جو اپنی تعلیم آزادانہ تقابلی مطالعے کی حد تک آگے نہیں بڑھ پاتے۔ نتیجے میں کسی تحقیق کے بغیر جو پڑھا اُسی پر یقین کر لیا کا روایتی فارمولا ان بے چاروں کو تعلیم یافتہ کم اور تعلیم زدہ زیادہ بنا کر رکھ دیتا ہے۔کم و بیش تینوں ملکوں کا یہی حال ہے۔
عالمی اور علاقائی سیاست کے ایک غیر مستحکم موڑ پر استعماری طاقتوں نے جب وقت اور حالات کے دباو میں آ کر کہیں انتہائی خونریزی اور کہیں تشدد اور عدم تشدد کے ملے جلے ماحول میں اسیر ملکوں کو آزاد کیا تو اُن کے یہاں وہ انتقاماً یا سازشاً وہ نفرت کا ایسا بیج بونے میں وہ کامیاب رہیں جس کی فصل کاٹنے سے نو آزاد ملکوں کو کبھی فرصت نہ ملے اور وہ اپنے سابق جباروں کے خلاف کسی صورت متحد نہ ہو پائیں۔ حالات کے موجودہ موڑ تک کا منظرنامہ سابق آقاوں کے بنائے ہوئے اِسی خاکے کی ترجمانی کرتا ہے۔ سبھی اس خاکے میں اپنی اپنی پسند کا رنگ بھرنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی مجلس اقوام سے اقوام متحدہ تک دنیا کے عالمی سفر، ناوابستہ تحریک سے کچھ ملکوں کی خیالی وابستگی اور ماضی گزیدگان پر مشتمل دولت مشترکہ کی نمائشی بزم آرائی میں الجھ کر رہ جانے والے نوآزاد اقوام کی زائد از نصف صدی پر محیط تاریخ پر آزادانہ نظر ڈالی جائے تو صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سائنس کے فروغ نے اگر چہ پوری دنیا کو ایک گاوں میں تبدیل کر دیا ہے لیکن کوئی دو سو ملکوں کے اِس گاوں میں آج بھی حکومتیں لکیریں کھینچ کر ہی جی رہی ہیں اور مکھیاوں نے مفروضہ دشمنوں کے خلاف بھانت بھانت کی گروہ بندی کر رکھی ہے۔ ان میں چند نام حسب ذیل ہیں:آسیان، برکس،یورپی کونسل،اقتصادی تعاون تنظیم،فائیو آئیز،فور ایشین ٹائیگرس، جی فور، جی 20، گریٹر چائنا، مذاکراتی مجلس اِبسا، لیوینٹ،مِکتا، مینا، نیٹو،نافٹا، نیکسٹ الیوین، او آئی سی، عرب لیگ، اوپیک،پی فائیو، پِگس، ریو گروپ، سارک، شنگھائی تعاون تنظیم، ترکِک کونسل، ویسٹا وغیرہ۔
برصغیر کے تینوں ممالک کا سفر بھی اسی کا حصہ ہے۔ اس میں ہندستان واحد ملک ہے جو سیکولرزم کی ناقدری سے مذاہب کے سیاسی استحصال تک خوش قسمتی سے کسی خارجی نقصان سے دوچار نہیں ہوا۔ اب اس کی عمر 75برس ہونے کو ہے۔ ان سات دہائیوں میں کیا کچھ ہوا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور جو نہیں ہوا اُس کے اسباب پر اختلاف رائے کی گنجائش بدستور موجود ہے۔بظاہر تینوں ممالک اپنے یہاں ابتدائی طور پر مرتب کردہ آئینوں کے پابند ہیں جنہیں مرتبین نے عین انسانی رخ پر تیار کئے تھے۔ بعد ازاں ہندستان، پاکستان اور بنگلہ دیش تینوں کے یہاں آئین کے ایک سے زیادہ ضابطے بدلے گئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کے باوجود ہندستان آج بھی سیکولر جمہوریہ ہے، پاکستان اور بنگلہ دیش کی پہچان بدل چکی ہے۔
ہندستان کی ہندو اکثریت اور پاکستان و بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت دونوں کو ابھی تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اُس نظم سے اپنا پیچھا چھڑائیں جن کی وجہ سے انہیں غلام بنایا گیا تھا اور آزاد کرتے وقت ”دماغ“ کو چھوڑ کر سب کچھ اُن کے حوالے کر دیا گیا تھا۔اکثریت اور اقلیت کا تصور در اصل طبقاتی نظام اور رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کی تقسیم والی ذہنیت کی پیداوار ہے۔ کسی صحتمند سماج کو ایسے کسی نظم کی مطلق ضرورت نہیں۔ اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔بر صغیر کے ان تینوں ممالک کو ابتک اس تقسیم کی منفیات کا علم کیوں نہیں ہوا؟ یہ بات حیرت انگیز کم اور افسوسناک زیادہ ہے۔
بر صغیر کے تینوں ممالک اکیسویں صدی کی آئندہ دہائیوں میں بھی اگر استعماری طاقتوں کے قبضے سے اپنے ذہن کو آزاد کرنے میں ناکام رہے تو اُن کی کوئی بھی ترقی اُنہیں ذہنی خوشحالی عطا نہیں کر پائے گی۔ صرف مادی ترقی کسی قوم کیلئے ترقی کی وہ راہ نہیں ہموار کر سکتی جو کاشی، کعبہ، یروشلم اور ویٹی کن رُخی منزلوں سے الگ معرفت سے ہمکنار کردے۔ اس لئے تینوں کوچاہئے کہ وہ اپنی اپنی محدود ترجیحات کو سامنے رکھ کر کسی مجلس کا حصہ بننے کے بجائے وسیع النظری سے کام لیں اور اپنے منقسم گھرانوں کا ایک ایسا نیم وفاق قائم کریں کہ انہیں کسی جامد نظریہ کا پابند نہ ہونا پڑے اور ان کے اختلافات اتنے متحرک ہوں کہ اُن سے ان کی زندگیاں فعال رہنے کی توانائی حاصل کر سکیں۔