متھرا،کاشی ،سنبھل کے بعد اب بدایوں کی آٹھ سو سال قدیم تاریخی جامع مسجد تنازع کے سایہ میں ہے ۔ اس معاملے کی سماعت 8 اگست 2022 سے ہو رہی ہے۔ اس میں بھی نیل کنٹھ مہادیو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی کے بیان کے بعد معاملہ گرم ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ مسجد اور مندر کے حوالے سے دونوں فریقوں کے اپنے اپنے دعوے ہیں۔ اب عدالت ‘شواہد’ کی بنیاد پر فیصلہ کرے گی کہ کون صحیح ہے کون غلط۔ واضح رہے 8 اگست 2022 کو وشو ہندو پریشد کے صوبائی صدر مکیش پٹیل نے عدالت میں ایک مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جہاں شہر کی جامع مسجد واقع ہے، وہاں ماضی میں نیل کنٹھ مہادیو کا مندر ہوا کرتا تھا۔تب سے عدالت میں اس معاملے کی سماعت شروع ہو گئی۔ سماعت شروع ہوئی تو سرکاری فریق نے اپنا رخ پیش کیا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے اسے قومی ورثہ قرار دیا تھا.
اس کے بعد وقف بورڈ اور انتظامات کمیٹی کی طرف سے بحث چل رہی ہے۔ اس سلسلے میں اگلی سماعت 3 دسمبر کو (کل ) ہوگی۔ دریں اثناء اسد الدین اویسی نے ہفتہ کو ٹویٹ کرکے اس معاملے کو گرمایا۔ اس پر لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں ردعمل کا اظہار کیا۔ کوئی اسے جامع مسجد کہہ رہا ہے اور کوئی اسے مندر کہہ رہا ہے۔ وہیں سنبھل واقعہ کے بعد پولیس اہلکار چوکس ہو گئے ہیں۔ ایسے میں انہوں نے متنازعہ جگہ کے ارد گرد پولیس بھی تعینات کر دی ہے۔
••مندر وجود کے ثبوت: پٹیل
ہندو مہاسبھا کے ریاستی صدر مکیش پٹیل نے کہا کہ ان کے پاس اس بات کے مکمل ثبوت ہیں کہ پہلے یہاں نیل کنٹھ مہادیو کا مندر تھا۔ نیچے آج بھی مجسمے، پرانے ستون اور سرنگ موجود ہیں۔ ماضی میں قریب ہی ایک تالاب ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کہ یہاں قطب الدین ایبک کے زمانے میں ایک مندر تھا۔ پھر اسے گرا کر مسجد بنائی گئی۔ 1875 سے 1978 تک کے گزٹوں میں اس کا ثبوت موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی انتظامی کمیٹی سے بحث چل رہی ہے۔ اس کے ختم ہونے کے بعد، وکیل اپنی طرف سے اپنا کیس پیش کرے گا۔
••850 سال سے مسجد: ایڈوکیٹ صدیقی
جامع مسجد کا مقدمہ لڑ رہے ایڈووکیٹ اسرار احمد صدیقی نے کہا کہ یہ 850 سال پرانی جامع مسجد ہے۔ یہاں کبھی مندر نہیں تھا۔ ہندو مہاسبھا کو مندر پر دعویٰ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ان کے مطابق مندر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جس چیز کا وجود نہ ہو اس کی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں ہو سکتا۔ اس دعوے کے مسترد ہونے پر عدالت میں بحث جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ہم پرانے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو بھی جامع مسجد سرکاری ریکارڈ میں درج ہے۔