میانمار :(ایجنسی)
میانمار میں سال کی شروعات میں تختہ پلٹ کرنے کے بعد سے ابھی تک فوج کا خونی کھیل جاری ہے۔ وہ لگاتار بے رحمی سے لوگوں کی جان لے رہی ہے۔ اس دوران بچے، بزرگوں اور خواتین بھی فوج کے قہر سے نہیں بچ پا رہے ہیں۔ یہاں سرکاری فوج نے ایک گاؤں کے لوگوں کو پہلے گرفتار کیا، پھر قریب 30 لوگوں کا گولی مار کر قتل کردیا اورلاشوں کو آگ لگادی۔ مانا جارہا ہے کہ مارے گئے لوگوں میں کچھ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
ایک چشم دید اور دیگر رپورٹوں سے ہفتہ کو اس سلسلے میں جانکاری ملی ہے۔ میانمار کے کایا ریاست کے ہپروسو شہر کے باہر علاقے میں واقع مو سو گاؤں میں ہوئے، اس قتل عام کی مبینہ تصویریں سوشل میڈیاپر وائرل ہورہی ہیں، جس کے بعد اقتدار پر قابض فوج کے خلاف لوگوں میں غصہ پھیل گیا ہے۔ مو سو گاؤں میں یہ پناہ گزین فوج کے حملے سے بچنے کے لئے پناہ لے کر رہ رہے تھے۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو آزادانہ طور سے تصدیق نہیں کیا جاسکا ہے۔
وائرل تصویروں میں تین گاڑیوں میں 30 سے زیادہ جلی لاشوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر اتنی بھیانک ہے کہ ہم واضح طور سے خود اُنہیں دکھا نہیں سکتے۔ موقع پر جانے کا دعویٰ کرنے والے ایک گاؤں والے نے بتایا کہ لوگ مو سو کے پاس واقع کوئی ناگن گاؤں کے قریب باغیوں اور میانمار کی فوج کے درمیان جاری لڑائی سے بچنے کے لئے جمعہ کو بھاگ گئے تھے۔ گاؤں والوں نے بتایا کہ فوج کے جوانوں نے اُنہیں گرفتار کرلیا اور اس کے کچھ دیر بعد اُن کا قتل کردیا گیا۔ اُن کی گرفتاری اُس وقت ہوئی جب وہ پناہ گزین کیمپ کی جانب جارہے تھے۔