عبدالسلام عاصم
سیکولرزم اور اقلیتی ووٹ بینک کے نام پر موقع پرست حکومتوں کے ہاتھوں ہندوستانی مسلمانوں کا ملی رہنماوں کے اشتراک سے جو حشر ہوا ہے، آگے چل کر بڑے بھائی کو بھی دینداری اور اکثریت کے ووٹ بینک کے نام پر جاری موجودہ موقع پرستی کے نتیجے میں وہی تجربہ ہو سکتا ہے۔ ایسے خساروں کو ترتیب دینے میں بہر حال دہائیاں لگتی ہیں۔ہندستان کی سب سے بڑی اقلیت کے موجودہ حالات بھی محض ایک دہائی کی حکومتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں۔
فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات تو وقفے وقفے سے رونما ہوتے ہی رہتے ہیں اور اُس میں آبادی کے تناسب سے کم اور زیادہ جانی و مالی نقصان باحیثیت امیروں کا نہیں صرف بے حیثیت غریبوں کا ہوتا ہے ۔ خوشحالوں کی موت تو کسی حادثے یادشمن کے بے چوک منظم منصوبہ بندی سے ہوتی ہے۔ وطن عزیز میں ایسی اموات میںسنجے گاندھی، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی، شیاما پرشاد مکرجی، للت نارائن مشرا، پرمود مہاجن، راجیش پائلٹ، وجے راجے سندھیا می اموات نمایاں ہے۔
بہر حال بات ہورہی تھی بھائیوں کی۔ دونوں بھائیوں کی قسمت خراب کرنے میں کسی اور کا نہیں ان کے ہی بظاہردینی اور بباطن دنیا پرست رہنماؤں کا عملاً عمل دخل ہے۔بدقسمتی سے دونوں فرقوں کے یہاں پڑھنے لکھنے کا رواج ’’آبادی کے تناسب سے‘‘ ایک جیسا ہے۔ سو میں دس اُن کے یہاں تعلیمی اور مالی طور پر خوشحال ہیں تو دس میں ایک دو اِدھر بھی موج اور مستی کے ساتھ جی رہے ہیں۔
خسارے میں صرف دیش یعنی مادر وطن ہے، جہاں اکثریت اور اقلیت کے نام سے پہچانے جانے والے دونوں گھرانوں کی غالب مشترکہ اکثریت اپنے اپنے حلقوں میں بھگت یعنی آمنا و صدقنا کی حد تک ہی خواندہ ہے۔ ان بیچاروں یا جہل کے ماروں کو اپنے حلقوں کے اُن خوشحالوں سے کوئی بیر نہیں جو بیر ہی کا کاروبار کرتے ہیں۔ اِن غریبوں کو تو بس باہمی نفرت میں اُلجھا رکھا گیاہے۔ باہمی نفرت کا یہ ا کھیل جو پہلے ٹیسٹ میچ کی طرح کئی کئی دنوں تک جاری رہتا تھا ، اب اِس کے ون ڈے میں بس ایک دھماکے میں کئی لاشیں وکٹ کی طرح گر جاتی ہیں یا ٹی 20 کی طرح ایک دو گھنٹے میں ماپ لنچنگ کے ذریعہ یکطرفہ مقابلہ نمٹا دیا جاتا ہے۔یہ کھیل جب ختم ہوتا ہے تو اِس کا باہمی اشتراک سے اہتمام کرنے والے نفع نقصان کے حساب کا کھیل شروع کر دیتے ہیں، وہ بھی کم دلچسپ نہیں ہوتا۔ اصل میںدونوں طرف کے مٹھی بھرنظریاتی شعبدہ بازوں نے دونوں گھرانوں کی مشترکہ اکثریت کا ایسا برین واش کر رکھا ہے کہ اُن سے سمجھداری کی بات کرنے والے متوفی وحیدالدین خاں اور باحیات موہن بھاگوت جی جیسے لوگوں کو اپنے ہی حلقے میں صلواتیں سننا پڑتی ہیں۔
پچھلے دنوں بھاگوت جی نے ملک کی اکثریت اور اقلیت دونوں کو کچھ کھری کھری کیا سنا دی، دونوں طرف کے ملی تاجرین ناراض ہو گئے۔ کچھ تو اتنے ناراض ہوئے کہ بیمار پڑ گئے۔ جیسے کورونا نے تقریر بن کر انہیں ڈس لیا ہو۔ جواب میں معترضین کی جانب سے جو نامے شائع ہوئے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ناچیز نے ایک بزرگ کو جو ہیں تو میرے ہم عمر لیکن سوچ کی وجہ سے بڑے بھائی لگتے ہیں، بس اتنا لکھ دیا کہ بھاگوت جی کی تقریر کا جو تحریری حصہ اخباری دستاویز کی شکل میں موجود ہے اُس میں اُن کے نام کی جگہ کسی مولانا کا نام، ’’ہندووں‘‘ کی جگہ’’ مسلمانوں‘‘ اور ’’ماب لنچر‘‘ کی جگہ ’’تشدد پسند‘‘ لکھ دیا جائے تو عجب نہیں کہ روئے سخن ہی یکسر بدل جائے۔ موصوف کو یہ بات مبینہ طور پر بہت بُری لگی اتنی بری لگی ۔بزرگ صحیح فرما گئے ہیں کہ غیر منظقی ذہن رکھنے والوں سے منطقی باتیں بالکل نہ کی جائیں کیونکہ وہ معقول جواب کی کمی مغلظات سے پوری کرنے پر اتر آتے ہیں ۔ یہ بھی خطرہ رہتا کہ کہیں وہ اپنے روبوٹوں کو تشدد پرنہ اُکسا دیں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ سب انتخابی سیاست کا حصہ ہے۔ ویسے بھی ملک کو اگلے سال ہی یوپی سمیت کئی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا سامنا ہے۔ اترپردیش ملک کی ایک بڑی ریاست ہی نہیں سیاسی طور پر بھی ایک فعال خطہ بھی ہے۔ ماضی میں اسی خطے نے ملک کو خارجی تقسیم سے گزارنے میں سرگرم کردار ادا کیا تھا اور آج بھی قوم کی غیر صحتمند داخلی تقسیم کا کھیل اسی ریاست سے کھیلا جارہا ہے۔خاطی کوئی ایک فرقہ نہیں۔ویسے بھی کسی کے جارحانہ موقف کا غیر عاقلانہ مقابلہ ظلم اور تشدد کے واقعات کو باہمی اشتراک سے مرتب کرتا ہے۔ اسے سمجھنے کیلئے جس جذبے کی ضرورت ہے وہ نظریاتی سوچ رکھنے والوں کے یہاں پیدا نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لئے دونوں حلقوں کے صحتمند سوچ رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور انتہائی ضبط سے کام لیتے ہوئے دونوں فرقوں کی اکثریت کو نام نہاد دینی رہنماوں کے دام فریب سے نکالنا ہو گا۔بصورت دیگر تشدد کے کسی بھی واقعے میں انصاف سے زیادہ سیاسی نفع نقصان سے کام لینے کا سلسلہ جاری رہے گا جس کی ایک کمان آج کل سوشل میڈیا کے ہاتھ میں ہے۔ بین فرقہ ہم آہنگی کوئی رٹنے یا ورد کرنے کی چیز نہیں۔ اس کا تعلق شعور سے ہے اور شعور کی دولت انسانی وسائل کی بہبود کے رُخ پر حقیقی تعلیم سے ملتی ہے۔ اسی تعلیم نے مسیحیوں اور یہودیوں کو، جو صدیوں نظریاتی طور پر بر سر پیکار رہے، بین انحصار دوست بنا دیا۔ آج وہ دنیا کی ہر بد نگاہی سے محفوظ ہیں اور انسانی وسائل کا بہترین عقلی استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم دونوں کو بدستور بلیم گیم سے فرصت نہیں ہے۔
الیکشن پارٹیاں ضرور جیتتی ہیں لیکن انہیں کامیابی از خود نہیں بلکہ انہی ووٹروں سے ملتی ہے جنہیں وہ سماجی، سیاسی اور مذہبی ٹھیکیداروں کے ذریعہ کہیں معلنہ تو کہیں غیر معلنہ طور پر ووٹ بینک کی طرح استعمال کرتی ہیں۔اقلیتی ووٹ بینک اور اکثریت کا ووٹ بینک دونوں اپنے ساتھ ملک کو بھی دیوالیہ کر دیں گے۔ اب تک جتنا خسارہ ہو گیا ہے وہی بہت ہے ہوش کے ناخن لینے کیلئے۔کورونا کے بریک نے سوچنے کی جو فرصت دی ہے اُسے عملاً کام میں لایا جائے۔ دونوں گھرانوں کے باشعور حلقے، ادارے اور صائب الرائے لوگوں کی مجالس پوری طرح فعال ہو جائیں اور گھر گھر جا کر ووٹروں کے اندرحقیقی سیکولرزم کے تئیں احساس ذمہ داری پیدا کریں ۔ انہیں سوشل میڈیا کی شرارتوں سے بھی آگاہ کریں اور بتائیں کہ ہرتشدد والا ویڈیو فرقہ وارانہ نہیں ہوتا، ہمارے سماج میں ناموس کیلئے بھی قتل کئے جاتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ کانگریس کو سیکولر اور بی جے پی کو مذہبی سیاست کرنے والی پارٹی مان کر ایسی محاذ آرائی کا ما حول تیار نہ کیا جائے جائے جس سے سیاسی دھندے کرنے والے تو فائدہ اٹھا لیں ، دیش کا نقصان ہو جائے۔ محتاط طور پر دیکھا جائے تو موجودہ سیاسی منظر نامے میں بی جے پی نے کانگریس کی اُس آمریت کو اپنے انداز میں اپنا لیا ہے جس کی بنیاد اندرا گاندھی نے رکھی تھی۔محترمہ نے مضبوط اپوزیشن کی غیر موجودگی میں اکثریت کے ووٹوں کے انتشار کی کمی اقلیتی ووٹ بینک سے پوری کرنے کی وقتی چال کی کامیابیوں پر اتنا انحصار کیا کہ درون جماعت جمہوریت پسندوں کو گھٹن نے بیزار کر دیا اور باہر اپوزیشن جماعتیں صف بند ہوگئیں۔نتائج نے سیاسی عدم استحکام کا سفر اتنا لمبا کیا کہ بی جے پی اکثریت کے ووٹ بینک کے رُخ پر ماحول سازی کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
محدود مفادات کا کھیل نہ اکثریت کے لئے فائدہ مند ہے نہ اقلیت کیلئے۔اس تفہیم کیلئے فوری طور پر ایک غیر جذباتی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔یہ ضرورت کیسے پوری ہوگی اس پر دونوں گھرانوں کے سماجی ذمہ داروں کو غور کرنا ہے۔ پی کی سیاست کا محور آج بھی رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے دم گھٹا کر رکھ دینے والے حصار میں ہے۔ایسے میں یہ ادراک ناگزیر ہے کہ بی جے پی سیکولرزم کی جن کمزوریوںکو کیش کرنے کا سلسلہ دراز سے دراز تر کرتی آئی ہے وہ دراصل سیکولرزم کی خامیاں نہیں بلکہ اس کے موقع پرستانہ استحصال کا نتیجہ ر ہیں۔فرقہ پرستی کے حوالے سے اکثر لوگ گھبراکر یا تنگ آکر کانگریس کا موازنہ بی جے پی سے کرنے لگتے تھے۔یہ معاملہ بالکل تنگ آمد بہ جنگ آمد جیسا ہوتا ہے۔ جذباتی ووٹروں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ماضی میں جرمنی کے کمیونسٹوں نے بھی ایسی ہی غلطی کی تھی اور نازیوں سے لاحق خطرے کو اہمیت نہ دیتے ہوئے سوشل ڈیموکرٹس کو نشانے پر لے رکھا تھا ۔ انجام کیا ہوا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔