بدرالحسن القاسمی
افسوس ہے کہ وہ خبر جس کے سنے کیلئے دل کسی طرح آمادہ نہیں تھا اب ایک واقعہ اور حادثہ فاجعہ بن کر نظروں کے سامنے ہے کہ ملت کے رہنما بانی ندوة العلماء كے نبیرہ اور حضرت امیرشریعت رابع مولانا سید منت اللہ رحمانی کی آرزوؤں اور تمناؤں کا مظہرخا نقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں جا معہ رحمانی کے نگران اعلیٰ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور امیر شریعت نے3 اپریل 2021 کو جان جان آفریں کے سپرد کر دی انا للہ وانا الیہ راجعون جس کے نتیجہ میں ملت کے کئی اہم ادارے اپنے رہنما سے محروم ہو گئے ہیں اور قائدین کی صف میں زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے ۔
ماکان قیس ھلكه هلک واحد
ولكنه بنيان، قوم، تهدما
مولانا محمد ولي رحمانی صاحب کے انتقال كا صدمه مجھے اس لئے اور زیادہ ہے میں نے اپنی طالب علمی زمانہ سے دیکھا ہے کہ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی ان کو اپنے بعد اپنی جانشینی کیلئے تیار کر رہے تھے اور وہ ان کے لخت جگر ہو نے کے ساتھ ان کی توجہات کا مرکز بھی تھے اور اس لئے بھی کہ ان میں واقعی قیادت کی صلاحیت بھی تھی خاص طور پر موجود ہ پر فتن دور میں جن صلاحیتوں اور جس طرح کی زیر کی اور دانشمندی کی ضرورت ہے وہ ا ن میں پورے طور پر موجود تھی ان میں معاملہ فہمی جرآت و شجا عت شخصی وجاہت اور زبان وبیان پر قدرت سبھی چیزیں جمع تھیں۔
جامعہ رحمانی کی ترقی ہو یاخانقاہ کا نظم و ضبط یا امارت شرعیہ کو پھلواری کی تنگ وتاریک گلیوں سے نکال کر آل انڈیا پیمانہ کا ادارہ بنانا اور پرسنل لا ءبورڈ تشکیل سے لےکر پوری ملت کا سب سے معتمد ادارہ بنا نا ان کے والد بزگوار کا ایسا کارنامہ تھا جس کی مثال نہیں ملتی اوریہ سب کچھ ان کی نظروں کے سامنے ہوا۔ ان تمام اداروں کا نظم جب ان کےہاتھو ں میں آیا تو خود ان کا وقت موعود آ پہنچا اور مولانا ولی ہی نہیں رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مولانا محمد ولی رحما نی کے انتقال سے ملت ایک حوصلہ مند بیباک اور جری قائد سے محروم ہوگئی ہے۔
مولانا محمد ولی رحمانی ایک اچھے عالم بہترین انشاءپردازاچھے خطیب نہایت ذہین اور بر وقت تدبیر کرنے والے زیرک قائد تھے سیاسی نشیب و فراز کو خوب سمجھتے تھے ۔
ملک کی نئی صورت حال حکومت کے مسلمانوں کے بارے خطرناک منصوبے اور کرونا کے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ولی رحمانی صاحب کے دماغ اور شخصی وجاہت کی ضرورت اور بڑھ گئی تھی ایسے وقت میں انکی وفات یقینا ایک زبردست سا نحہ ہے جبکہ ملت میں ہر طرف سناٹا اور ہو کا عالم ہے، خطرات روز افزوں ہیں اور ملت کی یتیمی کا احساس عام ہے ۔
مولانا ولی رحمانی نے برسوں اپنے عظیم والد کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ان کے مزاج وانداز کو سمجھا اور جب ذمہ دا ریاں ان کے سر آئیں تو ان کے سامنے رستہ کھلا ہوا تھا اور انہوں نے بڑے پر اعتماد انداز پر کام کا آغاز کیا۔
خوش درخشید ولے دولت مستعجل بود
مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نے جب تحفظ فلسطین کانفرنس منعقد کی تو مولاولی رحمانی بھی ان کے دست و بازو کی حیثیت سے شریک تھے انہوں نے ایک کتابچہ
’ صبح ایک زندہ حقیقت ہے یقیناً ہوگی‘ کے نام سے لکھا تھا
اور بھی کئی کتابیں ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہیں۔
گوگہ اس وقت حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور مولانا نظام الدین صاحبان ہراول دستہ میں شامل تھے۔
2002 میں مدارس اسلامیہ کنونشن کی کامیابی کا سہرا بھی ان کے سر تھا ۔
پورے ملک میں ہونے والے ہر فقہی فکری دینی سیاسی اجلاس میں مولانا اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہتے اور بڑ ی سعادت مندی سے اور انتہائی سلیقہ کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریاں پوری کرتے رہے۔
1975میں ایمرجنسی کے ہولناک ماحول میں اور خوفناک کار روائیوں کے دوران مولانا ولی رحمانی ہی کا حوصلہ تھا کہ جبری نسبندی کے خلاف پرسنل لا ءبورڈ کی قرار دادوں کو نہایت ہوشیاری کے ساتھ پوسٹ کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
بعد کے زمانہ میں’ایثار‘کے نام سے ایک روزنامہ اخبار شائع کر نے کا تجربہ بھی کامیابی کے ساتھ کیا۔
صحیفہ کے نام سے ایک میگزین بھی نکالا جو بے حد مقبول رہا۔
رحمانی 30 کے پرو گرام میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی۔
پرسنل لاءبورڈ کے اسٹیج سے طلاق ثلاثہ سے متعلق ظالما نہ قانون کے خلاف دستخطوں کی مہم کامیابی سے چلائی یہ الگ بات ہے کہ
بگڑتی ہے جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی، دلیل اور حجت
الغرض مولانا محمد ولی رحمانی جیسی عظیم شخصیت کے اچانک نظروں سےاوجھل ہو جانے سے متعدد اداروں میں زبردست خلا پیدا ہوگیا ہے اور ان کی بدیل شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی عظیم قدرت اور لطیف حکمت سے اس کی تلافی کا سامان کرسکتاہے ۔
مولانا ولی رحمانی کی وفات کا ہمیں شدید غم ہے اور ان کے عظیم دادا اور صاحب عزیمت والدبزگوار سے منتقل ہو نے والے علمی ودینی ورثہ کے حفاظت اور ترقی کے بارے میں تشویش بھی لا حق ہے۔ وہ اس خانوادہ کے فرد تھے جس کی تاریخ سر فروشی اور دین کی حفاظت کیلئے بے مثال قربانی کی رہی ہے اور جس کی زندہ یادگاریں ندوة العلماء جامعه رحماني مونگیر ،امارت شرعیہ پٹنہ تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ انکی خدمات کا دائرہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، دار العلوم دیوبند اور ملک کے چپہ چپہ تک پھیلا ہوا ہے ۔
دعا یہی ہے کہ ان کی حفاظت کا نظم اللہ تعالیٰ غیب سے فر مائے اور اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو فردوس بریں میں جگہ دے ۔
آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے