سراج نقوی
چند روز سے میڈیا میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے جاری ایک اشتہار لوگوں کو متوجہ کر رہا ہے۔
اس اشتہار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریاستی حکومت نے گنّا کسانوں کو 1.40لاکھ کروڑروپئے کی رقم ادا کی جو ایک ریکارڈ ہے۔حکومت کے اس دعوے کی سچّائی پر ریاست کے کسان یا کسان تنظیمیں ہی بہتر طریقے سے روشنی ڈال سکتی ہیں۔لیکن زیادہ قابل ذکر اس اشتہار میں دیا گیا وہ نعرہ ہے جس میں کہا گیا ہے،’’خوشحال کسان یوپی کی پہچان‘‘۔
ریاستی سرکار کے اشتہار میںدیے گئے اس نعرے یا دعوے کی صداقت پر بغیر کوئی تبصرہ کیے یہ بتانا کافی ہے کہ گذشتہ 7ماہ سے زیادہ عرصے سے دلّی اور اتر پردیش کی سرحد پر جو کسان زرعی قوانین کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں ان میں بڑا حصّہ اتر پردیش کے کسانوں کا ہی ہے۔یعنی جن کسانوں کو ریاستی حکومت اتر پردیش کی پہچان بتا کر انھیں اپنا بلکہ بی جے پی کا ہمنوا بنانے کی حکمت عملی پر چل رہی ہے وہ کسان کئی ماہ سے ریاستی حکومت اور مرکز کی کی مودی سرکار کی زرعی پالیسیوں کے خلاف اپنے زرعی مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ اتر پردیش حکومت ہو یا مودی حکومت دونوں ہی مجوزہ زرعی قوانین کو کسانوں کے مفاد میں بتا رہے ہیں لیکن کسان ان قوانین کو اپنے مفادات کے خلاف ماننے کے موقف سے زرا بھی پیچھے ہٹنے پر آمادہ نظر نہیں آتا۔یہ کسان اگر واقعی اتر پردیش کی پہچان ہیں تو سوال یہ ہے کہ ریاستی اور مرکزی حکومت ان کے مطالبات کے تعلق سے اس قدر بے نیاز اور غفلت کی شکارکیوں نظر آتی ہے؟اگر حکومت واقعی یہ مانتی ہے کہ خوشحال کسان اتر پردیش کی پہچان ہے تو پھر کئی مرتبہ دلّی یوپی سرحدپر احتجاج اور مظاہرے میں شامل کسانوں کے حوصلے پست کرنے کے حربے انتظامیہ نے کیوں اپنائے؟کیوں یہ مبینہ خوشحال کسان اتر پردیش ودلّی کی سرحد پر گرمی،سردی اور برسات کی مار جھیلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے؟ کیاحکومت کے رویے کا یہ تضاد ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔کیا کسانوں کی محنت کوچند سرمایہ داروں کے مفادات کا غلام بنانے والے اس طرح کا پروپگنڈہ ریاستی اسمبلی کا الیکشن قریب دیکھ کر کرنے کے لیے مجبور ہوئے ہیں؟
آئندہ برس ریاست میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ان انتخابات میں کسانوں کا بھی اہم رول ہونا یقینی ہے،جبکہ زرعی قوانین کے تعلق سے حکومت کے رویے کے سبب کسان مرکزکی مودی حکومت ہی نہیں اتر پردیش کی یوگی حکومت سے بھی ناراض ہیں۔اس ناراضگی کا اظہار انھوں نے مغربی بنگال اسمبلی الیکشن کے موقع پر وہاں جاکر اور بی جے پی کے خلاف مہم میں حصّہ لیکر کیا۔صرف یہی نہیں بلکہ تقریباً دو ہفتے قبل ہی کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے بی جے پی حکومتوں کے خلاف اپنی ناراضگی کا کھل کر اظہار کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ اتر پردیش میں بھی بی جے پی کا وہی حشر کیا جائیگا جو مغربی بنگال میں کیا گیا۔ٹکیت صاف کہہ چکے ہیں کہ اتر پردیش میں بی جے پی کو ہرانے کے لیے کسان اہم رول ادا کریں گے۔
دراصل گذشتہ اسمبلی الیکشن کے موقع پر کسانوں کی بڑی آبادی نے بی جے پی کی حمایت کی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی اتر پردیش کے کسانوں کی بڑی آبادی کا تعلق جاٹ برادری سے ہے،جو ضلع مظفرنگر اور اس کے قرب و جوار میںرہتی ہے۔خاص بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک یہاںجاٹوں اور مسلمانوںکے آپسی رشتے بہت خوشگوار اور مخلصانہ رہے ہیں لیکن سن2013میں فرقہ پرست طاقتوں نے یہاں منظم طریقے سے فساد کراکے مذہبی بنیادوں پر ووٹوں کی صف بندی کی جو کوشش کی اس کے اثرات آج تک کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں۔البتہ کسان تحریک شروع ہونے کے بعد ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ کسان یونین کے بینر تلے تمام کسان متحد ہوئے،جن میں مسلم کسان بھی شامل ہیں۔اسی لیے مغربی اتر پردیش کا یہ علاقہ اب بی جے پی کی جیت کی راہ کو مشکل بنا سکتا ہے۔بی جے پی کو بھی اس بات کا کسی نہ کسی حدتک احسا س ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک طرف کسانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھیں اتر پردیش کی پہچان بتایا جا رہا ہے تو دوسری طرف زرعی قوانین بنا کر ان کے مفادات کو مبینہ طور پر نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف کسانوں کی اس ناراضگی کا فائدہ مغربی اتر پردیش کی ایک اہم سیاسی پارٹی ’راشٹریہ جنتا دل ‘کو ملنے کا امکان بھی بڑھ گیا ہے۔واضح رہے کہ ماضی میں اس پارٹی کا علاقے کی جاٹ سیاست میں بڑا رول رہا ہے،لیکن 2014کے پارلیمانی انتخابات میں ’ہندوتو‘ کی آندھی میں ایسی کئی علاقائی اور کسی ایک برادری کے غلبے والی پارٹیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یادو مسلم اتحاد کے سہارے اقتدار حاصل کرنے والی سماجوادی پارٹی،دلت مسلم ووٹوں کے اتحاد کے بل پر ریاست میں کئی مرتبہ حکومت بنانے والی بہوجن سماج پارٹی اور مغربی اتر پردیش کے کچھ علاقوں میں جاٹ اور مسلم ووٹ کے سہارے اپنی سیاست چلانے والی راشٹریہ لوک دل ایسی ہی پارٹیاں ہیں کہ جن کے غیر مسلم حامیوں کے بڑے حصّے نے گذشتہ پارلیمانی الیکشن میں اپنے روائتی اتحاد کو چھوڑ کر’ہندوتو‘ کے نام پر بی جے پی کا دامن تھاما ۔جس کا نتیجہ مرکز اور ریاست میں بی جے پی حکومتوں کا قیام ہے۔ اب یہ الگ بات کہ ان برادریوں کو بھی حکومت سے ’ہندوتو‘ کے ٹانک کے علاوہ کچھ نہیں ملا اور مالی وسائل کو چند سرمایہ دار گھرانوں کے لیے مخصوص کرنے کا عمل گزشتہ کئی سال سے جاری ہے۔کسان بھی بی جے پی کی اسی پالیسی کے شکار ہیں۔زرعی قوانین کے خلاف طویل عرصے سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے کسانوں کا الزام ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں نہ ہو کر ملک کے ان چند سرمایہ داروں کے مفاد میں ہیں جن پر ہندوتو کی مدعی حکومت روز اول سے مہربان ہے۔زرعی قوانین کے نفاذ کی حکومت کی ضد بھی اس معاملے میں شک پیدا کرتی ہے۔
بہرحال معاملہ یہ ہے کہ اتر پردیش اور خصوصاً مغربی اتر پردیش کا کسان بی جے پی سے کم از کم آج کی تاریخ تک تو ناراض ہی نظر آتا ہے۔کسانوں کی اس ناراضگی سے اس خطے میں راشٹریہ لوک دل کو دوبارہ کھڑے ہونے کا موقع مل سکتاہے۔کسانوں کو غالباً یہ احساس ہے کہ بی جے پی کے دام فریب میں آکر انھوں اپنے مفادات کی حامی ایک پارٹی کو کمزور کیا ہے ۔اسی لیے راشٹریہ لوک دل کے جینت چودھری کی سرگرمیاں بھی کسان تحریک کے تعلق سے کافی بڑھی ہوئی ہیں۔یہ الگ بات کہ اس کا انتخابی فائدہ ان کی پارٹی کو مل پائیگا یا نہیں۔لیکن ضلع پنچایت کے الیکشن میں پارٹی کی بہتر کارکردگی سے کچھ مثبت اشارے بہرحال ملتے ہیں۔اس معاملے کا ایک پہلو مسلم ووٹ بھی ہے جو مظفر نگر فساد کے بعد راشٹریہ لوک دل سے دور چلا گیا تھا۔تازہ حالات میں اگر یہ ووٹ دوبارہ راشٹریہ لوک دل کی طرف واپس آتا ہے تو بی جے کے لیے بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔اسی لیے زرعی قوانین پر کسانوں کی ناراضگی کے باوجود بی جے پی نے مختلف طریقوں سے کسانوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
یوگی حکومت کی طرف سے جاری اشتہار ان کوششوں کا ہی ایک حصہ ہے۔یہ الگ بات کہ جن کسانوں کو حکومت یو پی کی پہچان بتا رہی ہے اور ان کے خوشحال ہونے کی بھی مدعی ہے وہ کئی ماہ سے حکومت کی عدم توجہی کے سبب احتجاج کی راہ پر ہیں اور دلّی و اتر پردیش کی غازی پور سرحد پر ریاست و مرکز کی حکومت کے خلاف اپنے حق اور اپنی خوشحالی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ اگر ان کسانوں کی ناراضگی دور کرنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی سمت میںبی جے پی حکومتوں نے کوئی قدم نہیں اٹھایا تو ’یو پی کی پہچان‘یہ کسان اتر پردیش میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے ہندوتو کی دھار کو کم کرکے اس کی فتح کے منصوبوں پر پانی پھیر سکتے ہیں۔
[email protected]
Mob:-09811602330