تحریر : مسعود جاوید
آر ایس ایس چیف نے یہ موضوع بارہا اٹھایا ہے جو بادی النظر میں ہندو مسلم بقاء باہمی کا پیغام ہو سکتا ہے۔ تاہم لسانی اور تاریخی حقائق اور ان کے خیالات میں بعض اوقات تضاد نظر انداز آتا ہے۔
ہندوستان ( ھند) کے باشندوں کے لئے جو اصطلاح زمانہ قدیم سے رائج ہے وہ ہے #ہندی اور آج بھی عرب ممالک میں ہندوستانیوں کو خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلم، سکھ ہوں یا عیسائی، پارسی ہوں یا جین ، بودھ ہو یا ملحد، #ہندی کہا اور لکھا جاتا ہے جس طرح بنگلہ دیش والوں کو بنگالی، امریکہ والوں کو امریکی اور برطانیہ والوں کو برطانوی۔
ہندو گرچہ کسی مذہب کا نام نہیں ہے تاہم سناتن دھرم والوں کے لئے #ہندو اتنی کثرت سے استعمال کیا جانے لگا کہ اب سناتن دھرمی معدوم اور ہندو معروف ہو گیا۔ اس لئے ہندوستان کے غیر سناتنی باشندوں کو #ہندی تو کہا جاسکتا ہے #ہندو نہیں ۔
اسلام ایک ہے اور مسلمان بھی ایک اس لئے اس کی تفریق ؛ بنیاد پرست مسلمان ،کٹر مسلمان، انتہا پسند مسلمان، لبرل مسلمان، آزاد خیال مسلمان اور اس جیسی اصطلاحات چسپاں کرنا درست نہیں ہیں۔ ہر نظریہ کی مکمل پابندی بنیاد پرستی ہے۔ اور ہر دین میں مکمل اتباع مطلوب ہے۔
مذہبی امور میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کبھی تصادم نہیں ہوا۔ صدیوں سے یہاں کے لوگ رواداری کا مظاہرہ کرتے آئے ہیں۔ دوسروں کے مذہبی معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی، کسی فرقہ کے لوگ دوسرے فرقہ کے لوگوں کی رسم و رواج، تقالید و عادات اور عقائد پر تنقید نہیں کئے ، ایک دوسرے کے معبودوں، کتابوں، دھارمک گرنتھوں ، دھارمک پیشواؤں کے لئے کبھی ہتک آمیز الفاظ استعمال نہیں کئے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں بے شمار ایسے مقامات ہیں جہاں مندر اور مسجد آمنے سامنے یا برابر میں واقع ہیں۔کبھی ان عبادت گاہوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی۔ مسجد کے امام صاحب اور مندر کے پجاری جی کو ہمیشہ احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔ کبھی یہ خطرہ محسوس نہیں کیا گیا کہ لاؤڈ اسپیکر پر مندر میں پڑھے جانے والے بھجن اور کیرتن سے مسلمانوں کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا مسجد سے لاؤڈ اسپیکر سے پکاری جانے والی اذان سے ہندوؤں کا دھرم بھرشٹ ہو سکتا ہے۔
ہندوستان میں اسلام غیر ملکی حملہ آوروں کی آمد سے رائج ہوا؟….. یہ تاریخ کا موضوع ہے …… لیکن ہندوستان میں اسلام ابتداء دور نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام میں آیا اس کی شہادت گجرات کی وہ مسجد ہے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف ہے۔ یہ اس دور کی طرف دلالت کرتی ہے کہ جن دنوں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی جاتی تھی ، یعنی ابتداء اسلام، ان ہی دنوں عرب سے تاجر یا مبلغ اسلام یہاں آکر اس مسجد کی تعمیر کی تھی۔
ہندوستان میں اسلام کی آمد عرب تاجروں اور مبلغین کے ذریعے آیا اس کی شہادت کیرلا کی چیرامن مسجد دے رہی ہے۔
آج اگر اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ مسلم قیادت کی ساری توانائی دفاعی سرگرمیوں میں صرف کرنا رہا۔ مسلم رہنماؤں نے ہندوستان میں اسلام کی آمد اور مسلمانوں کے عظیم کارناموں کو خود مسلمانوں کو پڑھانے کا نظم نہیں کیا۔ اگر ملت اسلامیہ کی حصول یابیاں اسکول و کالج کے نصاب میں شامل نہیں ہیں تو کیوں نہ ہم نے نسل بعد نسل اپنے نونہالوں کو صحیح تاریخ اور عظیم کارناموں کو پڑھانے اور بتانے کا کوئی منظم طریقہ اختیار کیا۔
ہندوستان کا مسلمان بنیاد پرست ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتا ہے۔ بلا تفریق مذہب ذات برادری وہ عدل و انصاف قائم کرنے میں ملک و قوم کا معاون ہے۔ وہ برادران وطن ، خواہ ان کا مذہب کوئی بھی ہو، کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرتا ہے خوش اخلاقی سے پیش آتا ہے خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے کام آتا ہے۔
اسلامی شعائر کا مذاق نہیں اڑاتا ہے۔ ارکان کی ادائیگی میں کوتاہی پر افسوس کرتا ہے …. .. بنیاد پرست کا قطعاً یہ مفہوم نہیں ہے کہ وہ دہشت گردی کی تائید کرتا ہے۔ وہ پرامن بقائے باہمی کا مخالف ہے، وہ حقیقی سیکولرازم کے خلاف ہے، وہ ہندوستان یا کسی بھی سیکولر ملک میں شریعہ قانون نافذ کرنا چاہتا ہے۔
ہندوستانی معاشرہ میں مذہبی شدت پسندی اور منافرت اور بالادستی کو ایک دوسرے پر مسلط کرنے کا رجحان پچھلے دو تین عشروں میں بڑھا ہے۔ اس سے قبل فرقہ وارانہ فسادات کی نوعیت مذہبی نہیں ہوتی تھی۔ عموماً وہ جھڑپوں سے شروع ہوتی تھیں جن کی نوعیت اور کثافت پڑوسیوں کے ساتھ یا کنبہ والوں کے ساتھ تصادم کی ہوتی تھی جن کی تلخی بمشکل ہفتہ عشرہ باقی رہتی تھی۔ ان کی نوعیت کبھی ٹارگیٹڈ اٹیک کی نہیں ہوتی تھی۔ دونوں فرقوں کے بڑے صلح صفائی کرا دیتے تھے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)