قاسم سید
کیا ہمارے ملک میں انصاف ،مساوات ،یکساں حقوق ،جمہوریت جیسےخوبصورت الفاظ صرف زید داستان کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں۔ جوبائیڈن اور کملا ہیرس کا وزیر اعظم مودی کو گاندھی کےاپدیشوں اور جمہوریت یاد دلانے کا واقعہ محض اتفاق ہے ، یا عالمی برادری بھی وہی کچھ محسوس کررہی ہے جو عام شہری کے دل ودماغ میں ہیں ۔کیا ملک عملاً اکثریت کی جبریت اور اقلیت کش کے راستہ پر چل پڑ ا ہے ،جہاں انصاف نام اور مذہب دیکھ کر کیا جاتا ہے ؟ جیسے منیش گپتا اورمعین الحق ،کنہیا کمار اور عمر خالد۔
یہ احساس حالیہ دو واقعات کے سبب شدت اختیار کرگیا ہے ۔ گزشتہ دنوں آسام میں مبینہ غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کے دوران پولیس کی بربریت کا نیا چہرہ سامنے آیا جب ڈنڈا لے کر دوڑتے شخص کو پولیس نے پہلے گولی ماری پھر اس کے نیم جان بدن پر لاٹھیاں برسائیں اور ایک فوٹو گرافر پولیس کی موجودگی میں تڑپتے جسم پر کودتا رہا اور جب اس سے دل نہیں بھرا تو لات اور گھونسہ بھی چلائے ۔ آزاد ہندوستان میں یہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جب ایک فوٹو جرنلسٹ نے نفرت وحیوانیت کاایسا اظہار کیا ۔ ظاہر ہے اس پر پوری دنیا کو مضطرب ہونا چاہئے تھا۔ میڈیا میں طوفان آجاتا، عوام سڑکوں پر نکلتے اور لیڈرشپ اسے انصاف دلانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی، حکومت دباؤ میں آکر فوری راحت کے اعلان کرتی ،مگر ایسا کچھ نہیں ہوا کیونکہ اس کا نام معین الحق تھا، وہ عام سا آدمی تھا، مزدور غریب مسلمان کیڑا مکوڑا ۔ اس کے تین بچے اور ایک بیوہ ہے ۔ مسلم جماعتوں کے وفد گئے،حتیٰ الوسیع راحت دی۔
اب دوسری تصویر ملاحظہ کریں! اترپردیش کے گورکھپور ضلع کے ہوٹل میں مقیم منیش گپتا سمیت تین دوستوں پر ریاستی پولیس نے چھاپہ مارا ۔ منیش گپتا کے ساتھ مار پیٹ کی جس میں وہ مر گیا ۔ یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی ، میڈیا نے وردی والے غنڈوں کی خوب خبر لی، دن بھر خبر چلی، پرائم ٹائم میں کم وبیش ہر چینل نے منیش کے قتل پر ڈبیٹ کیں۔ اس کی بیوہ کے انٹرویو لئے ،گرچہ یوگی سرکار کو کچھ نہیں کہا۔ ہمارے پیارے اکھلیش بھیا سے رہا نہ گیا وہ کانپور گئے ،بیوہ سے ملے، بیس لاکھ روپےکی مدد کااعلان کیا، قانونی مدد کا وعدہ کیا ۔ مایاوتی سے رہا نہ گیا ،مذمتی بیان جاری کیا۔ وزیر اعلیٰ نےبیوہ سے ملاقات کی ،نوکری کے ساتھ دس لاکھ کی امدادی رقم میں اضافہ کی یقین دہانی کرائی۔ پورا سسٹم حرکت میں آگیا، چھ پولیس اہلکار معطل ہوئے ،تین پر دفعہ 302 کا مقدمہ قائم ہوا۔ منیش اور اس کی بیوہ کو انصاف وراحت کی پہلی فوری قسط مل گئی ۔ مقدمہ کانپور ٹرانسفر کردیا گیا ۔ کانپور کے لوگوں نے بھی سڑکیں جام کیں۔
معین الحق کے لیے سیاسی پارٹیوں کے منھ میں دہی جم گیا۔ میڈیا نے نوٹس نہیںلیا، مسلم عوام کروٹ بدل کر رہ گئے ، مسلم قیادت میں دباؤ بنانے کی ہمت وجرأت نہیں۔ عوام سی اے اے مخالف تحریک میں شاسن پرشاسن کا ہٹلری رویہ دیکھ چکے ہیں۔ سیکڑوں نوجوان جیلوں میں ہیں ،کوئی پرسان حال نہیں۔ ایجنڈے اور پروپیگنڈے کے دور میں معین الحق اور اس کی کمیونٹی کیا اوقات ہے؟ یہ ہے نیا بھارت ۔