عامرظفر قاسمی
بھارت کو ایک عظیم طاقت، ایک خوشحال اور خود کفیل ملک بنانے کا خواب برسوں سے دیکھا جارہا ہے، اس خواب کی مختلف خوشنما صورتیں ارباب اختیار باشندگان ملک کو دکھاتے ہیں، جنہیں معمار ملک کہا جاتا ہے اور جنہوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر ملک کو آزاد کرایا، انہوں نے بھی ملک کے ایک درخشندہ مستقبل کا خواب دیکھا تھا بلکہ بنا تھا، شاید انکے خواب اور آج کے لیڈروں کے خواب میں کچھ فرق ہوگا لیکن خواب دیکھنے اور خوابوں کی دنیا میں باشندگان ملک کو مست رکھنے کا سلسلہ جاری ہے آج بھی یہ خواب دکھائے جارہے ہیں کہا جارہا ہے کہ بھارت ٹکنالوجی کی اس دنیا کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ بنارہا ہے۔
اور جلدی اسے اس میدان میں بہت سے دوسرے ملکوں پر سبقت حاصل ہوجائے گی یہ بات بڑے فخر سے کہی جاتی ہے، یہاں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے ایک سے ایک باصلاحیت موجود ہیں،لیکن جن بنیادوں پر ہندوستان کو یہ مقام مل سکتا ہے، ان میں سے کسی ایک میں بھی وہ ان ملکوں اور قوموں کی ہم سری کے لائق نہیں نظر آتا ہے،جنہیں آج دنیا کی قیادت حاصل ہے۔
مثلاً تعلیم آزادی کے اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی آج ملک سے جہالت کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے، ملک کا کوئی لیڈر آج یہ کہنے کی حالت میں نہیں ہے کہ ملک کا بچہ بچہ بنیادی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوچکا ہے یہاں تک کہ حکومتوں نےنہایت ہوشیاری کے ساتھ خواندگی کی جو تعریف مقرر کی ہے خود اس کے لحاظ سے آج بھی بہت بڑی تعداد اس معیار پر کھڑی نہیں اترتی، اعلیٰ تعلیم کا بہت نام لیا جاتا ہے لیکن کیا یہ افسوسناک پہلو نہیں ہے کہ آج بھی ہندوستان کی کوئی یونیورسٹی اور اعلیٰ تعلیمی ادارہ عالمی معیار کے 100 اداروں کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہے۔
اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت کے لئے آج بھی بڑی تعداد میں طلبہ ملک سے باہر جاتے ہیں یہاں تک کہ ان میں ایک بڑی تعداد ملک واپس بھی نہیں آتی۔
اسی طرح روزگار کا حال ہے، آج بھی روزگاری عام ہے خود روزگاری کے مواقع بھی نہیں ہے، اور ہیں بھی تو محدود ہوتے چلے جا رہے ہیں، گھریلو روزگار اور چھوٹے پیمانے کے روزگار کے مواقع بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں، اسی لئے حکومت نے گلوبلائزیشن کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کردیا ہے، زراعت کا حال بھی نہایت خوفناک ہے، زراعت کا دائرہ بھی سکڑتا چلا جارہا ہے اور ملک انڈسٹرلائزیشن کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، جسکا نتیجہ یہ ہے کہ زرعی زمینیں کم ہوتی جارہی ہے، کسانوں کا جو حال ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، انکی بدحالی اور دن بدن خراب ہوتی ہوئی حالت ہے، اس سے ہر خواص وعام واقف ہے، سرکاری طبی سہولتوں کا حال دگرگوں ہے جس نے پیشہ طب کو ایک منافع کاروبار میں تبدیل کردیا ہے۔
کاروباری گھرانے یہاں بھی داخل وقابض ہوچکے ہیں، اچھا علاج عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے، پیچیدہ امراض کا علاج اول تو عام نہیں ہے اور دوم یہ کہ بہت مشکل ہے، اسلئے اسکے شفا خانے ملک میں بہت کم ہیں، اور ہیں بھی تو بڑے شہروں میں ہیں، جہاں ہر ایک کا پہنچنا ممکن نہیں ہے ۔ آزادی کے اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی ہرسال کہیں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہے، اور کہیں خوشک سالی کا سامنا لوگوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
ہرسال کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہے، یا فصل ہوتی ہی نہیں ہے، اس کے باوجود ہمارے لیڈر اور ہماری حکومتیں عظیم طاقت کا خواب دکھاتی رہتی ہیں اور لوگوں کو خود فریب میں مبتلا رکھے ہوئے ہیں لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ وہ پلٹ کر یہ نہیں پوچھتے کہ ملک کی جو حالت ہے اس میں ایسا کیسے ممکن ہے، یہ سب کیلئے سوچنے سمجھنے کی بات ہے، تقریروں واعظ کے ممبروں سے، اسٹیج سے گلے پھاڑنے سے یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے، اسلئے ہم سب کو مل بیٹھ کر غور خوض کرنا ہوگا۔
یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ اگر ملک ترقی کرکے گا تو اسکا فائدہ سب کو یکساں ملے گااور اگر ملک کمزور ہوتا ہے تو اسکی کمزوریوں سے ہونے والے نقصانات میں بھی ہم سب کو شراکت کرنی ہوگی اب سوچئے اس پہلو سے۔
رابطہ نمبر 8826547553