تحریر:مولانا محمد یوسف اصلاحیؒ
”یہ حقیقت اپنے ذہن و قلب میں پوری طرح پیوست کر لیجیے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی موجودگی کی حیثیت آندھی کے اڑائے اور بکھرے ہوئے دانوں کی طرح نہیں ہے بلکہ خالقِ ارض و سما اور شہنشاہِ کائنات کے اپنے فیصلے اور منصوبے کے تحت یہاں باقاعدہ ان کی گویا کاشت کی گئی ہے۔ اور چونکہ وہ یہاں ان کی فصلِ بہار دیکھنا چاہتا ہے، اس لیے یہ ایک یقینی اور ناقابلِ انکار واقعہ ہے کہ ان شاء اللہ بھارت میں اسلام بھی زندہ اور تابندہ رہے گا اور مسلمان ملت بھی یہاں اپنے دینی تشخصات کے ساتھ زندہ اور فعال رہے گی۔
کچھ نادان دشمنانِ حق اس ملک سے مسلمان ملت کو مٹانے کے منصوبے سوچ سکتے ہیں، پروگرام بنا سکتے ہیں اور ناکام کوششیں بھی کر سکتے ہیں، اپنے دلوں کا بغض ظاہر کرنے کے لئے اس وہم و خیال کا پرزور پروپیگنڈا بھی کر سکتے ہیں اور کچھ کمزور دل رکھنے والوں کو سراسیمہ اور پریشان بھی کر سکتے ہیں اور اللہ کی طرف سے ان ظالموں کو تھوڑے وقت کے لیے ڈھیل بھی مل سکتی ہے کہ وہ اپنے ظلم اور سفاکی کا پیمانہ لبریز کر لیں، ان کو قتل و غارتگری کا موقع بھی مل سکتا ہے، سفاکی اور درندگی کے لیے بھی ڈھیل دی جا سکتی ہے، کچھ مسلمانوں کو معاشی طور پر یہ تباہ بھی کر سکتے ہیں، لیکن اگر وہ یہ خواب دیکھ رہے ہوں کہ بھارت کی سرزمین سے تقریباً پچیس کروڑ کی آبادی کو یکسر ختم کر دیں گے تو ان کو سمجھنا چاہیے کہ بہت معمولی اقتدار اور اختیار کے نشے نے ان کو اندھا کر دیا ہے، ان کی آنکھیں بینائی سے محروم ہو گئی ہیں اور ان کے ذہن و فکر مفلوج ہو چکے ہیں۔
اگر یکطرفہ فسادات اور حملوں کے منصوبے بنا کر ملک کے کچھ حصوں میں یہ چند مسلمانوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا لیں تو اس کا مطلب کسی بھی حقیقت پسند انسان کی نظر میں یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت سے ملت اسلامیہ کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔ کروڑوں کی تعداد کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے بھی کہ اس دور کے تیور جمہوری ہیں، روئے زمین پر اس وقت جمہوری قدروں کا فروغ ہو رہا ہے۔ یہ دور نظریات کی جنگ کا دور ہے، قوموں سے قوموں کی نفرت کا دور دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے، جمہوری خیالات کا استقبال ہو رہا ہے اور اب کسی ملک میں بھی اس کے مواقع بہت کم ہیں کہ جمہوری رائے اور جمہوری قدروں کو نظر انداز کر کے کوئی قوم دوسری قوم کو محض طاقت اور ہتھیار کے بل پر مٹا سکے۔
اور اس لیے بھی بھارت سے ملت اسلامیہ کا وجود ختم نہیں ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اس ملک کو بہت کچھ دیا ہے، سنوارا اور سدھارا ہے، یہاں تہزیب و تمدن کی شمعیں روشن کی ہیں، اخلاق و مروت کی قدروں کو اجاگر کیا ہے، شرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس ملک کو توحید کی روشنی بخشی ہے اور یہ خدائے واحد کی غیرت کے خلاف ہے کہ کسی دھرتی میں توحید کے فرزندوں پر دشمنانِ توحید کی ایسی یلغار ہو کہ اہلِ توحید ختم ہو جائیں، یہ خدا کی حکمت اور منصوبے کے خلاف ہے۔ ان شاء اللہ اس ملک میں توحید کا غلغلہ بلند رہے گا اور اہل توحید کے ہاتھوں اس ملک کی تعمیر نو ہوگی، اور یہ ملک تعمیر و ترقی کی بلندیوں پر فائز ہو گا۔ یہاں اسلام بھی اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم رہے گا اور ملت اسلامیہ بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ و تابندہ رہے گی۔
مسلمان بھارت کی سرزمین پر انسانیت کا قیمتی اثاثہ ہیں، انسانیت کا سرمایہ ہیں، ان کے پاس وہ نظامِ حیات ہے جو ساری انسانیت کا مشترکہ ورثہ ہے، جس پر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں ہے، جو قابلِ عمل بھی ہے اور دکھی انسانیت کے دکھوں کا کامیاب مداوا بھی، اور جو اس وقت بھارت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، چاہے اس کے باسیوں کو شعور ہو یا نہ ہو۔ ایک ایسے قیمتی گروہ کو ہرگز نہیں مٹایا جا سکتا، اس کا مٹنا اللہ علیم و حکیم کی حکمت کے خلاف ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ امت اپنی اصولی حیثیت کو سمجھے، اپنے داعیانہ منصب کو پہچانے اور کارِ نبوت کے جس عظیم منصب پر خدا نے اس کو فائز کیا ہے اس منصب کے تقاضے پورے کرے، اس ملک میں خدا کا پیغام پہنچائے، بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ حق دکھائے، سکون و طمانیت کے لیے ترستی دنیا کو امن و سلامتی کے ماحول یعنی دینِ اسلام کے آغوش میں لے اور وہ فریضہ انجام دے جس کے لیے اللہ نے اس کو اس ملک میں رہنے بسنے کا موقع دیا ہے۔
اللہ کی طرف سے حفاظت کا وعدہ
اگر یہ ملت شعور کے ساتھ اپنی داعیانہ حیثیت کو پہچان کر کار نبوت انجام دینے میں لگ جائے تو خدا کا اس سے وعدہ ہے اور اس نے یہ ضمانت دی ہے کہ وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا۔ اور جس گروہ کی پشت پناہی اور حفاظت کا وعدہ وہ ذات کرے جس کی چٹکی میں پوری کائنات ہے، اس کو کوئی طاقت ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ محض خوش فہمی اور نری خوش خیالی ہرگز نہیں ہے، یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے، یہ قرآن کی صراحت ہے، ہر مسلمان اس کے حق ہونے پر یقین رکھتا ہے اور یقین رکھنا ہی ایمان ہے۔ اس یقین میں تذبذب ایمان کی کمزوری ہے۔ اگر دل کے کسی گوشے میں بھی شک اور تذبذب کا گزر ہے تو اپنے ایمان کی فکر کیجیے اور اس یقین سے دل کی دنیا کو روشن اور تابندہ بنائیے۔
’’بلاشبہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ دعوتِ حق کا فریضہ انجام دینے کا آغاز کرتے ہی لوگ آپ کی راہ میں آنکھیں بچھانے لگیں گے اور آپ کا استقبال کرنے کے لیے ہمہ تن تیار ہو جائیں گے۔ آپ کی راہ میں مشکلات بھی آئیں گی، مصائب و آلام بھی آئیں گے، آزمائشیں بھی ہوں گی اور آپ کو جان و مال کی قربانیاں بھی دینا ہوں گی لیکن یہ سب کچھ ایک مقصد کے تحت، مقصد کی راہ میں ہوگا اور آپ کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی، بے مقصد آپ کی جانیں ضائع نہ ہوں گی، بے وجہ آپ کے کاروبار تباہ نہ ہوں گے اور بغیر کسی مقصد کے آپ نہ ستائے جائیں گے۔ انسانیت کی بھلائی اور خدا کی رضا پیش نظر ہوگی اور اس راہ میں آپ کو جو کچھ بھی جھیلنا پڑے گا، مقصد کی لذت کے مقابلے میں وہ آپ کو ہیچ محسوس ہوگا۔“