ڈاکٹر ماجدؔ دیوبندی
جموں کشمیر جواب کئی حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے ہندستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں ملک کی تقسیم سے آج تک لاکھوں انسانوں کا خون بہایا چکا ہے جن میں بڑی تعداد عام شہریوں کی ہے جو اس صوبے میں نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ ان کے آبا و اجداد نے وہاں اچھے برے دن دیکھے اور حکومت کی۔1947ءکی غمناک تقسیم نے نہ صرف جموں کشمیر کو تباہ وبرباد کر دیا بلکہ عظیم ملک ہندستان میں مقیم 20کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کے لیے بھی تفکراور فرقہ پرستی کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔ ان کے خلاف گزشتہ ۷۰؍ سالوں سے جو زہر بھرا جا رہا تھا وہ آج اپنے شباب پر ہے اور ہر وہ کام جس سے ان کی تباہ و بر بربادی ہو، ایک خاص تنظیم منظم طریقے سے کر رہی ہے۔
اس میں گزشتہ 7سالوں سے جتنی شدت آئی ،اس کا تصور بھی شاید نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمارے بزرگوں نے بارہا یہ کہا کہ اس ملک کی مٹی میں محبت کی کوشبو ہے اور یہاں فرقہ پرستی دیر تک نہیں رہ سکتی لیکن افسوس آج ان کی یہ سوچ بالکل غلط ثابت ہوئی اور مسلمانوں کا اس ملک میں جہاں ان کے بزرگوں نے جنگ آزادی میں 60 لاکھ سے زیادہ جانیں قربان کیں، ظلم و بربریت کا شکار ہیں۔ملک کی تقسیم کے وقت بھی مسلمانوں نے وطن پرستی کا ثبوت پیش کیا اور اپنی مرضی سے کروڑوں مسلمانوں کو دوسرے ملک میں جانے سے روکا اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ آج پورے پاکستان کے رقبے اور آبادی سے زیادہ مسلمان ہندستان میں امن و سلامتی کے ساتھ رہ رہے ہیں جو شاید ان فرقہ پرستوں کوبرداشت نہیں ہو رہا اور وہ اپنی سو سالوں کی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی پر مبنی سازشوں کو برئے کار لاتے ہوئے ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی جا سکے۔پورے ملک میں جہاں جہاں مسلمان رہتا ہے وہاں وہاں ان کے خلاف سازشیں ان کی تحریک کا حصہ ہیں چاہے وہ جموں کشمیر ہو،لکشدویپ ہو، مغربی بنگال ہو یا اتر پردیش ہو کوئی اور صوبہ جہاں مسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہوں۔ کسی نہ کسی بہانے سے ان کا قتل عام کرنا عام بات ہے۔اس میں کوئی ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ سبھی نے اپنا بد ترین کردار دکھایا ہے۔ کانگریس جو تقریبا ً پچاس پچپن سال حکومت میں رہی وہ صرف وعدوں پر مسلمانوں کو خوش کرتی رہی حتیٰ کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کو اقلیتی کردار دینے کا فیصلہ پارلیمنٹ میں نہیں کر سکی جبکہ مسلمانوں نے پہلے دن سے اس کا ساتھ دیا۔آر۔ایس۔ایس جو آج ملک پر قابض ہے اس کی ترقی میں بھی اسی کانگریس کا اہم کردار رہا ہے کہ فرقہ پرستی کی سوچ رکھنے والے لوگ کانگریس میں شامل تھے اور آج بھی ہیں جو اندرونی طور پر مسلمانوں کا استحصال کرنے اور ان کو ڈرانے دھمکانے سے باز نہیں آ تے۔
گزشتہ 70سالوں میں ملک میں ہزاروں مسلم کش فسادات ہوئے جن میں باقائدہ ۱۳؍ ہزار فسادات کے ثبوت موجود ہیں جن میں لاکھوں مسلمانوں کو تباہ و برباد اور ن کا قتل عام کیا گیا۔دوسری سیاسی پارٹیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں اور انہوں نے ہر صوبے میں فرقہ پرستوں کا ڈر دکھا کر حکومت کی اور بے قصور اور امن پسند مسلمانوں کو اجاڑنے کا کام کیا۔2000ء میں گجرات کے مسلم کش فسادات نے تو مسلمانوں کے قتل عام کی انتہا کر دی، یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ کسی بھی ذی شعور اور انسانی ہمدردی رکھنے والے کی آنکھ میں آنسو آجائیں ؎
روشن کیا تھا ہم نے جنہیں اپنے خون سے
اِن کو وہی چراغ بجھانے کی فکر ہے
گزشتہ دو سالوں میں کشمیر میں جو ظلم کی انتہا کی گئی وہ کسی سے چھپی نہیں۔آرٹیکل 370ہٹانے کے بعد جس قدر ستم ظریفیاں کی گئیں اسے تاریخ شاید کبھی معاف نہ کرے۔ کشمیر کے عوام سے نہ صرف ان کے حقوق چھینے گئے بلکہ ان کو نیست و نابود کرنے کی ہر وہ کوشش کی گئی جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔مدت دراز تک وہاں کرفیو رکھا گیا، انٹرنیٹ بند کیا گیا، انتہا یہ کہ کھانے پینے کا سامان بھی عوام بازاروں میں لینے سے ڈرتے تھے کہ کہیں ان کو گرفتار کر کے جیلو میں نہ ڈال دیا جائے اور ان کے خاندان کوزد و کوب نہ کیا جائے۔ہزاروں بچے،بوڑھے اورخواتین آج بھی لا پتہ ہیں اور ان کے اہل خانہ تڑپتے پھر رہے ہیںکہ ان کے اپنے کہاں گئے۔ کسی بھی صوبے کے عوام اپنے سیاسی رہنمائوں کے ذریعہ اپنی بات حکومت تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔انتہا یہ کہ جموں کشمیر کے سایسی رہنماؤں کو جیلوں بند رکھا گیا۔ انتہا یہ کہ ان کے اہل کانہ کو کورٹ کے ذریعہ فریاد کر کے اپنوں سے ملاقات کی اجازت ملی۔ جمہوریت کا اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو سکتا ہے۔دو اہم سیاسی جماعتیں جن میں ایک نیشنل کانفرنس اور دوسری پی۔ڈی۔پی، دونوں کے رہنمائوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کوئی دہشت گرد ہوں کہ ان سے نہ کوئی مل سکتا اور نہ ان کو دیکھ سکتا۔قید و بند کی ان کی تصاویر ایسی خوفناک تھیں کہ عام انسان دیکھ کر رو پڑے۔مزے کی بات یہ کہ یہ سب امن و استحکام کے نام پر کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جموں کشمیر میںحالات بہتر کرنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ مضحکہ خیز بات یہ کہ فاروق عبد اللہ اور محبوبہ مفتی دونوں وہ ہیں کہ جن کے ساتھ بی۔جے۔پی حکومت بنا چکی ہے اور دونوں وزارت میں رہ چکے ہیں۔اس وقت وہ ان کے لیے قابل اعتبار تھے اور آج ملک دشمن بن گئے ہیں۔ کئی مرکزی وزیروں نے ان کو پاکستان نواز اور دہشت گرد تنظیموں کا سرپرست بتا تے ہوئے بد ترین زبان کا استعمال کیا اور گپکار گینگ کا نام دے دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ جموں کشمیرپر دو خاندانوں نے قبضہ کر رکھا ھے اور اس کی بربابدی میں دونوں شامل ہیں۔ ابھی بھی دونوں پر بہت سے الگ الگ معاملوں میں مقدمات میں چل رہے ہیں۔
گزشتہ چار روز قبل وزیر اعظم کی دعوت پر جموں کشمیر کے اہم سیاسی رہنمائوں کا دہلی آنا ایک نئی ہلچل پیدا کرنے والی خبر تھی۔ میڈیا نے اسے وزیر اعظم کی دلوں کو ملانے والی بات کہی اور کہا کہ اس نئی پہل سے جموں کشمیر کے لیے بہتر امیدیں کی جا سکتی ہیں۔الگ الگ بیانات میں کشمیر کے ان رہنمائوں نے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور وزیر اعظم کے سامنے سر جھکاتے ہوئے نظر آئے۔محبوبہ مفتی اور عمر فاروق نے البتہ یہ ضرور کہاکہ ۳۷۰؍ ہٹائے جانے کے خلاف وہ اپنی تحریک جاری رکھیں گے ۔ سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر بحث ہے اور وہ عدالت پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کے لیے عدالت بہتر فیصلہ کرے گی جس سے ان کا حق مل سکے اور وہ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ دیکھنا یہہے کہ عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے کہ آج بظاہر عدالت پر سیاست حاوی ہے کہ کچھ بھی ہو سکتاہے۔ غلام نبی آزاد نے تو وزیر اعظم کی تعریف میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ بے حد نرم دلی اور ہمدردی سے جموں کشمیر کے ان رہنمائوں سے ملے اور جلد کشمیر کے مسائل حل کرنے کی طرف اشارہ کیا۔یہ بات کس حد تک قابل یقین ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ ضرور ہے کہ بقول مرکزی وزیر گپکار گینگ آج قابل اعتماد ہو گیا اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے ساتھ جس خوش اسلوبی کے ساتھ ملا وہ یقینا تعجب کی بات ہے کہ اپنے ساتھ ہوئی ساری زیادتیوں کو بھلا کر سر تسلیم خم کرتے نظر آئے۔ کاش اس ملاقات کا کچھ بہتر نتیجہ نکل سکے اور جموں کشمیر کے معصوم اور بے یار و مدد گار عوام کے حق میں کچھ سوچا جا سکے کہ وہ پہلے دنسے ان کا ستحصال ہوتا رہا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ؎
لگتا ہے سارے زخم ہی لمحوں میں بھر گئے
گپکار گینگ والے اچانک سدھر گئے
مضمون نگار اردو اکادمی دہلی کے سابق وائس چیئرمین اور انٹر نیشنل صوفی مشن کے بانی چیئرمین ہیں