نئی دہلی :(ایجنسی)
سپریم کورٹ نے بدھ کے روز غداری قانون کے مقدمات کی تمام کارروائیوں پر روک لگا دی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مرکز اور ریاستوں کو ہدایت دی کہ جب تک حکومت نوآبادیاتی دور کے قانون پر نظرثانی نہیں کرتی، غداری کے الزام میں کوئی نئی ایف آئی آر درج نہیں کی جائے۔ اب جب کہ قانون پر پابندی لگ چکی ہے، آئیے یہ بھی بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ غداری کے مقدمات کس ریاست میں درج ہیں۔
غداری قانون پر سپریم کورٹ کے سخت موقف کے درمیان، نیشنل کنٹرول ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں جب ریاست کے خلاف جرائم کے زمرے (Sedition Law)میں مقدمات درج کیے گئے اور لوگوں کوسخت اور لمبی لمبی سزائیں دی گئیں۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کیس ٹرائل دوران فیل ہوگئے۔
غداری کا قانون کیا ہے؟
غداری قانون کے مطابق اگر کوئی شخص حکومت کے خلاف کوئی ایسا مواد لکھتا، بولتا یا استعمال کرتا ہے، جس سے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، تو اس کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 124 اے کے تحت مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے۔
2010 سے 2020 کے درمیان کہاں کتنے معاملے درج ہوئے ؟
دیگر جرائم کے مقابلے میں، غداری ایک غیر معمولی جرم بنی ہوئی ہے ( تمام آئی پی سی جرائم کے تحت درج معاملوں میں غداری کے صرف 0.01فیصد سے کم معاملے درج ہیں۔) این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، 2010 سے 2020 تک، بہار میں 168 مقدمات درج ہوئے۔ اس کے بعد تمل ناڈو (139)، اتر پر پردیش (115)، جھارکھنڈ (62)، کرناٹک (50) اور اڑیشہ (30) ہیں۔ اس کے علاوہ ہریانہ (29)، جموں و کشمیر (26)، مغربی بنگال (22)، پنجاب (21)، گجرات (17)، ہماچل پردیش (15)، دہلی (14)، لکش دیپ (14) اور کیرالہ (14) کا نمبر ہے۔
2016 اور 2019 کے درمیان غداری کے مقدمات کی تعداد میں 160 فیصد (93 مقدمات) کا اضافہ ہوا۔ لیکن 2019 میں سزا کی شرح 3.3 فیصد تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ 93 میں سے صرف دو ملزمان کو سزا سنائی گئی۔
2014 سے 2019 کے درمیان کل 326 مقدمات درج ہوئے جن میں صرف چھ قصوروار تھے۔
غداری کے سب سے زیادہ کیسز والی پانچ ریاستوں میں بہار میں سب سے زیادہ، اس کے بعد یوپی، کرناٹک اور جھارکھنڈ کا نمبر آتا ہے۔ 2014 سے 2019 کے درمیان کل 326 مقدمات درج کیے گئے جن میں صرف چھ افراد کو متنازع نوآبادیاتی دور کے غداری قانون کے تحت سزا سنائی گئی۔
مرکزی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2014 سے 2019 کے درمیان ملک سے غداری قانون کے تحت کل 326 مقدمات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے 54 کیس آسام میں درج کیے گئے۔ حکام نے بتایا کہ درج کیے گئے مقدمات میں سے 141 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئیں جب کہ چھ سال کے عرصے میں صرف چھ افراد کو جرم کے لیے سزا سنائی گئی۔
اعداد و شمار کے مطابق آسام میں درج 54 مقدمات میں سے 26 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی اور 25 مقدمات میں ٹرائل مکمل ہوا۔ تاہم، 2014 سے 2019 کے درمیان ایک بھی کیس میں سزا نہیں سنائی گئی۔
جھارکھنڈ میں چھ سالوں میں 40 کیس رپورٹ ہوئے
جھارکھنڈ نے چھ سالوں کے دوران دفعہ 124(A) کے تحت 40 مقدمات درج کیے، جن میں سے 29 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی اور 16 مقدمات میں ٹرائل مکمل ہوا۔ ریاست میں درج ان تمام مقدمات میں سے صرف ایک شخص کو سزا سنائی گئی۔
ہریانہ میں غداری کے مقدمات
ہریانہ میں، 19 مقدمات میں چارج شیٹ داخل کرنے کے ساتھ غداری کے قانون کے تحت 31 مقدمات درج کیے گئے اور چھ مقدمات میں ٹرائل مکمل ہوا۔ یہاں بھی صرف ایک شخص کو سزا سنائی گئی۔ بہار، جموں و کشمیر اور کیرالہ میں غداری کے قانون کے تحت 25 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
اتر پردیش میں بغاوت کے مقدمات
2014 سے 2019 کے درمیان، اتر پردیش میں غداری کے 17 اور مغربی بنگال میں آٹھ مقدمات درج کیے گئے۔ اتر پردیش میں آٹھ اور مغربی بنگال میں پانچ مقدمات میں چارج شیٹ داخل کی گئی، دونوں ریاستوں میں کسی کو بھی مجرم نہیں ٹھہرایا گیا۔
دہلی میں غداری کے مقدمات
دہلی میں اس مدت کے دوران چار معاملے درج ہوئے۔ کسی بھی معاملے میں چارج شیٹ داخل نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی کو مجرم قرار دیا گیا۔ چھ سال کی مدت کے دوران میگھالیہ، میزورم، تریپورہ، سکم، انڈمان اور نکوبار جزائر، لک شدیپ، پڈوچیری، چنڈی گڑھ، دمن اور دیو اور دادرا اور نگر حویلی میں بغاوت کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔
مہاراشٹر میں غداری کے مقدمات
مہاراشٹرا (2015 میں)، پنجاب (2015) اور اتراکھنڈ (2017) میں غداری کا ایک ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں ملک میں غداری کے سب سے زیادہ 93 کیس درج کیے گئے۔ سال 2018 میں ایسے 70 کیسز رجسٹر کیے گئے، اس کے بعد 2017 میں 51، 2014 میں 47، 2016 میں 35 اور 2015 میں 30 کیسز درج ہوئے۔
عدالت نے غداری قانون پر پابندی لگاتے ہوئے کیا کہا؟
چیف جسٹس این وی رمن، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے کہا کہ غداری کے الزام سے متعلق تمام زیر التوا مقدمات، اپیلوں اور کارروائیوں کو ملتوی رکھا جائے۔
بنچ نے کہا کہ عدالتوں کی طرف سے ملزمان کو دی جانے والی ریلیف جاری رہے گی۔ بنچ نے کہا کہ اس التزامات کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے میں کی جائے گی اور تب تک مرکز کے پاس اس التزامات پر نظرثانی کرنے کا وقت ہوگا۔
اس سے قبل،مرکز کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے بنچ کو مشورہ دیا تھا کہ ایک سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) رینک کے افسر کو غداری کے الزام میں درج ایف آئی آر کی نگرانی کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔
مہتا نے بنچ کو بتایا کہ غداری کے الزام میں ایف آئی آر کے اندراج کو روکا نہیں جا سکتا، کیونکہ یہ شق قابلِ سزا جرم سے متعلق ہے اور اسے 1962 میں ایک آئینی بنچ نے برقرار رکھا تھا۔
مرکز نے غداری کے زیر التوا مقدمات کے سلسلے میں عدالت کو مشورہ دیا کہ ایسے معاملات میں ضمانت کی درخواستوں کی جلد سماعت کی جاسکتی ہے، کیونکہ حکومت ہر معاملے کی سنگینی سے واقف نہیں ہے اور یہ دہشت گردی، منی لانڈرنگ جیسے پہلوؤں سے متعلق ہوسکتے ہیں۔