تحریر: مسعودجاوید
دنیا کے مختلف انڈسٹریز میں عملہ منتخب کرنے کے الگ الگ پیمانے ہوتے ہیں ۔ تاہم ایک بات قدر مشترک ہے وہ یہ کہ مذہب اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بھید بھاؤ کرنا سیکولر ممالک میں قابل سزا/ قابلِ جرمانہ جرم ہے۔
دوسری بات یہ کہ عقلمند قومیں تجارت کو ذاتی پسند اور ناپسند کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے صارفین کی پسند کو اہمیت دیتے ہیں۔ اور مذہبی عینک سے دیکھنے کی غلطی نہیں کرتے ہیں ۔
ایر لائن انڈسٹری میں ایر ہوسٹس کے بارے میں بہت سی حقیقت پر مبنی باتیں اور بہت سی فینٹسی عوام میں گردش کرتی رہی ہیں۔
ایر لائن میں کیبن کرو ایر ہوسٹس کے لئے ضروری ہے کہ ان کی عمر کم از کم ١٧ سال اور زیادہ سے زیادہ ٢٦ سال ہو، قد ٥ فٹ تین چار فٹ ہو، جسم کی ساخت سڈول بدن , وزن ٥٨ -٦٣ ، پرکشش ، نرم گفتار ، مسافروں کی تنقید پر مشتعل نہ ہونے والی یعنی متحمل مزاج ہو۔ خوش شکل اور خوش پوشاک (ایر لائن کا ایر ہوسٹس کے لئے مخصوص یونیفارم)
مسافروں کی خاطر خواہ ضیافت کا فریضہ بخوبی ادا کرنے والی ہو ۔
عموماً ان کا یونیفارم ہاف سلیبھ شرٹ اور منی اسکرٹ ہوتا ہے لیکن ہر ایر لائن کا یونیفارم ضروری نہیں منی اسکرٹ ہو ۔ ہندوستانی طیاروں جیسے ایر انڈیا کا یونیفارم ساڑی اور بلاؤز ہے۔ عرب ممالک کے یونیفارم شرٹ اور اسکرٹ یا شرٹ اور فل پینٹ ہیں اور اس کے ساتھ اسکارف۔
ان ممالک نے اپنی تہذیب کے مدنظر ایسا یونیفارم طے کیا ہے اس لئے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اسلاموفوبیا کے دور میں بعض یورپی ممالک میں لیڈی پولیس کے یونیفارم میں حجاب شامل کیا گیا ہے ۔ اور اب بریٹیش ایر لائن نے ایرہوسٹس کے لئے حجاب کا آپشن منظور کیا ہے۔ خلیجی ممالک سے بزنس کے مدنظر ہو یا اسلاموفوبیا کے الزام کو رفع کرنے کی خاطر ہو، وجہ جو بھی ہو ، برٹش ایر لائن کا یہ قدم قابلِ ستائش ہے۔
دراصل عریانیت کسی بھی مہذب معاشرہ کے لوگوں کو پسند نہیں ہے خواہ روشن خیالی کا کتنا بھی دعویٰ کرنے والا کیوں نہ ہو ۔
یہ اشتہارات کی انڈسٹری ہے جو موقع بے موقع عورتوں کے جسموں کی نمائش کرتی ہے چاہے وہ مردوں کی شیونگ کریم ہو یا مردوں کے انڈرویئر ، وہ اس کے اشتہار میں ایسا سچویشن دیکھائے گی جس میں نیم برہنہ لڑکی یا لڑکیوں کا ہونا ” لازمی” ہو۔
حالانکہ ایک حد ہے جسے تجاوز کرتا دیکھ کر حق آزادی رائے ، آزادی اکل و شرب اور آزادی لباس کی وکالت کرنے والے بھی اس طرح کی برہنگی پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں
اور جو دوسروں کی لڑکیوں کی آزادی لباس کے چمپیئن بنے ہوتے ہیں وہ بھی اپنی بیوی بیٹی اور بہن کے لئے عریاں لباس پسند نہیں کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں دہلی میٹرو میں اس طرح کے عریاں مناظر کی شکایت مسافروں نے کی جس کا دہلی میٹرو ریل کارپوریشن نے نوٹس لیا اور کہا کہ گرچہ اس بابت ہدایات پہلے سے موجود ہیں لیکن ایک بار پھر تنبیہ کی جاتی ہے کہ غیر مہذب indecent dress , اور غیر مناسب inappropriate ہیجان انگیز حرکتیں جس سے میٹرو مسافروں کے جنسی جذبات مشتعل ہو سکتے ہوں اس کی اجازت میٹرو نہیں دیتا ہے۔ دراصل پچھلے دنوں ایک لڑکی قابل اعتراض لباس غالباً (صرف برا اور اسکرٹ میں) سفر کر رہی تھی۔ اس پر مسافروں کی شکایت یہ بتاتی ہے کہ مہذب لوگ پبلک مقامات پر عریانیت اور نیم برہنگی کو پسند نہیں کرتے۔
حجاب کو اسلاموفوبیا کی نظر سے نہیں، مشرقی تہذیب وتمدن کی نظر سے دیکھنے والوں کو کبھی شکایت نہیں اس لیے کہ ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں آج بھی غیر مسلم خواتین گھونگھٹ کے بغیر گھر سے باہر نہیں آتیں ۔ خود اپنے گھروں میں بھی سسر اور جیٹھ کے سامنے بغیر گھونگھٹ نکالے سامنے نہیں آتی ہیں۔
تو پھر حجاب پر اتنا ہنگامہ برپا کرنے کی وجہ کیا تھی ؟ ظاہر ہے سیاسی فائدہ اٹھانا۔ مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنا کر مذہب کی بنیاد پر لام بندی کرنے کوشش۔