مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ)
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے حجاز مقدس کے تقدس کی پامالی کا جو بیڑہ مغربی ممالک کو خوش کرنے کے لیے اٹھایا تھا اور جس کی وجہ سے عریانیت ، اباحیت عورتوں کی آزادی کے نام پر سعودی عرب میں جاری برسوں کے صالح اقدار کو ختم کرکے رکھ دیاگیا تھا، اللہ کی پناہ! جوئے خانے، سنیما ہال ، مرد وعورت کی رقص وسرور کی مجلسیں اور مغربی انداز میںمردوں، عورتوں کا ایک دوسرے کے گلے میں جھولنا، تعلیمی اداروں میں بغیر عبایااور حجاب کے ملازمت ، ہوٹلوں، مالز اور دوکانوں میں بغیر حجاب ان کی معاشی مصروفیت ، تقدس کے نام پر پہلے بھی وہاں بہت کچھ بچا نہیں رہا تھا، لیکن اب حرمین شریفین کا تقدس بھی پامال کیا جا رہا ہے ، خبر ہے کہ مسجد حرام میں بڑی تعداد میںایسی عورتوں کی بحال کرلی گئی ہے جو بغیر نقاب کے معتمرین اور حجاج کی خدمت کریں گی۔
مدینہ طیبہ میں دس سینما ہال کھولے جائیں گے ، وہ شہر جس کی مٹی کو مسلمان خاک شفا سمجھتے ہیں، جہاں کی ہواؤں میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کی خوشبو صاحب دل لوگوں کو محسوس ہوتی ہے ، جہاں کی زمین پر امام مالک ؒ جوتے پہن کر نہیں چلا کرتے تھے کہ نہ معلوم کہاں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے پائے مبارک پڑے ہوں گے ، اس مقدس زمین پر سنیما ہال بنانے کا منصوبہ دل ودماغ کو بے چین کیے دیتا ہے ، شاعر کا مصرعہ’’ چوں کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی‘‘ کا ورد کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اگر واقعتاً کوئی ایسا منصوبہ محمد بن سلمان کے زیر غور ہے ، واقعتاً کا لفظ میں نے شعوری طور پر استعمال کیا ہے ، اس لیے کہ خبر میں صدق و کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے، غالب احتمال صدق کا اس لیے نظر آ رہا ہے کہ وہاں مغرب کو خوش کرنے کی ایک روش گذشتہ چند سالوں میں تیزی سے پروان چڑھی ہے، اس لیے اس قسم کے منصوبوں کا بنانا بعید از قیاس نہیں معلوم ہوتا، ایسے موقع سے ضروری ہے کہ تمام مسلم ممالک اور ہند وپاک کی قیادت محمد بن سلمان پر دباؤ بنائے کہ وہ اس مذموم حرکت سے باز آئے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے قلوب کو چھلنی نہ کرے۔
سعودی عرب میں اسلامی احکام کے اجراء ونفاذ اور صالح اقدار کے فروغ کی جو تاریخ خادم الحرمین الشریفین فہد بن عبد العزیز پر آکر رکتی دکھ رہی ہے ملک عبد اللہ کے دور میں جس میں کمی آئی اور شاہ سلمان کے دور میں جس کا جنازہ نکل رہا ہے ، اس کو پھر سے واپس لانے کی سعی کرے، کیوں کہ حرمین شریفین محبط وحی ہے ، وہاں کے آثار سے پوری دنیا کے مسلمانوں کا قلبی تعلق ہے ، خود اس کی حفاظت اور اسلامی احکام میں ان کے آباؤ واجداد کی بڑی قربانیاں رہی ہیں، ان قربانیوں کا تقاضہ ہے کہ حجاز مقدس میں کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو اسلامی احکام کے خلاف ہو ، سعودی عرب اسلام اور حرمین شریفین کی وجہ سے ہی پوری دنیا کے لیے مرکز توجہ ہے ، اگر یہ ختم ہو گیا تو وہ بھی دوسرے مسلم ممالک کی طرح ہو جائے گا، جہاں عیاشی وفحاشی کے مراکز قائم ہیں، اور سیاحوں کو رجھانے اور لُبھانے کے لیے اسلامی اقدار وروایات اور تہذیب وثقافت کو اس طرح ختم کر دیا گیا ہے کہ مغربی تہذیب کا ہی ہر طرف غلبہ نظر آتا ہے، اب آپ کو اسلامی احکام پر عمل کرنا ہے تو اپنی نگاہیں نیچی رکھیے اور دامن دل کو بچا کر چلئے۔