عبدالسلام عاصم
حالات کے موجودہ موڑ پرایک طرف جہاں کوویڈ 19 کی نت نئی انگڑائیوں سے لوگ پریشان ہیں، وہیں دوسرے رخ پر دنیا کے مختلف حصوں کی وہ تحریکیں ہیں جن کیلئے انسانوں کو کہیں آلات تو کہیں باقاعدہ روبوٹ کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ انسانی وسائل کے منفی استعمال کی اس دوڑ میں مختلف حلقوں کے طالبان اور فارغین سبھی شامل ہیں۔ زندگی سے اجتماعی معاملات میں جو لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ محدود فائدے کیلئے اٹھایا جانے والا ہر قدم دوسرے کے نقصان کا دائرہ وسیع کرتا ہے، وہی دور تک پھیلے موجودہ حالات کے عملاً ذمہ دار ہیں۔ انہی کی وجہ سے عصری عالمی منظر نامہ محدود خوشحالی اور لا محدود بدحالی کا ترجمان نظر آتا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں اِس نوع کے متحارب عناصر بلیم گیم کے ذریعہ اپنے موقف کو درست گردانتے ہیں۔ اِن میں کچھ عالمی مجالس میں منحصرین سے اپنے ارادوں کے حق میں تائید بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
اس اُلجھے ہوئے معاملے پر بے لاگ غور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے ہر پہلوکا مفصل جائزہ لیا جائے اور ہر فکری اختلاف کو دور کرنے کیلئے ہرطرح کی ضد سے بالاتر ہونے کی کوشش کی جائے۔ اختلافی رائے کو دو ٹوک مسترد کرنے کے جذبے کی عکاسی کرنے والے چہرے کے تاثرات اور لہجے کے ساتھ بات شروع کرنے والے کبھی ڈسکورس کے ماحول کو خوشگوار نہیں بنا سکتے۔ بدقسمتی سے برصغیر سمیت دنیا کے زیادہ تر ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی بشمول مذہبی معاملات بیشتر ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ تشویش کے اس ماحول میں تازہ اضافہ افغانستان کے بدلے ہوئے حالات نے کیا ہے جہاں سبھی اپنی جذباتی انتہاؤں کو شعوری بلندی کا نام دے کر دوسروں کو اُس پستی سے نکالنے میں لگے ہیں جو زیادہ تر خود اُنہی کے ذہنوں میں ہے، کسی میدانِ عمل میں نہیں۔
اتھل پتھل سے دوچار دنیا کو بزعم خود نیک ہونے کے دعویداروں کی یکطرفہ خواہشوں نے جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا اُن موالیوں نے نہیں پہنچایا جو سماج میں بہروپئے کی طرح نہیں رہتے۔ ایسے ہی عناصرنے سردست دنیا کے ایک سے زیادہ حصوں میں راست اور بالواسطہ تباہی مچا رکھی ہے۔ کون ہیں یہ لوگ! یہ وہ لوگ ہیں جو مغرب بالخصوص یورپ میں سیاسی اصلاح اور تہذیبی رواداری کے ماحول میں ہونے والی علمی ترقی سے پہلے تو خائف رہے، پھر جب اِس ترقی نے معیشت کو ایک منظم اور مربوط اڑان بخشی اور کچھ دوسری اقوام متاثر ہونے لگی ہیں تو اِس علمی اطلاعاتی ترقی سے مثبت استفادہ کرنے والوں کی بھیڑ میں بہروپئے کی طرح وہ بھی شامل ہوگئے۔
ابتدا میں اِن عناصر کی شناخت کا کوئی بے نقص نظم نہ ہونے کی وجہ سے ان عناصر نے چند دہائیوں میں ہی اس رُخ پر اپنے اپنے تقلیدی معاشرے میں نت نئی دکانیں کھول لیں۔ کمپیوٹراور اطلاعاتی تیکنالوجی سے اوہام کے کاروبارمیں کمپیوٹرائزڈ جنم کنڈلی نکالنے اورسعد اور نحس کی پیشگی آگاہی دینے سے فتویٰ آن لائن جاری کرنے تک کا کاروبار ایسا چمکا کہ ترقی یافتہ دنیاکی آنکھیں پھٹی رہ گئیں۔ آج بھی اُس کے سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ وہ انسانی وسائل کو موثر ترین بنانے کا دائرہ سائنسی خطوط پر وسیع کرنے کی اپنی کوششوں کے بہ ابداز دیگر انجام پرروئے یا ایسی ہر تشویش کو غرق جام کر دے۔
سائنسی ترقی کے منفی استحصال کا یہ نتیجہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایٹمی ہتھیارایک سے زیادہ نظریات کے ماننے والے غیر ذمہ داروں کے ہاتھ لگ گئے۔ ہوائی جہاز کا اغوا کیا جانے لگا۔ انسان سے سامان تک سب کو ہتھیار بنایا جانے لگا، غیر سائنسی روبوٹ تیار کر نے والے آتشیں فدائی تیار کرنے لگے اور پراکسی وار کا ہنر تو ایسا عام ہوا کہ اللہ کی پناہ! حالات کے تازہ موڑ پر افغانستان میں نیابتی جنگ کی تیاریاں بظاہر پھر عروج پر ہیں۔ پاکستان نے جو سفارتی محاذ پر اب چین کا الٰہء کار ہے، اِس رُخ پر جو کردار ادا کیا ہے وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں۔ ہارا ہوا جواری ہر نئے محاذ پر پرانے نقصان کا حساب بھی برابر کرنے کی کوشش کرتا ہے، خواہ وہ نقصان دوسرے کی مداخلت سے زیادہ اُس کے اپنے اعمال کا نتیجہ کیوں نہ رہاہو۔دیکھنا ہے کہ طالبان کی نئی حکومت ماضی کے تجربات سے امکان کے رُخ پر فائدہ اٹھاتی ہے یا کسی کاادھورا کام پورا کرنے میں پھر اپنی اور دنیا کی توانائی ضائع کرتی ہے۔حالات کیا کروٹ لیں گے یہ وقت بتائے گا۔ خطے کے متعلقہ حالات امریکہ سے زیادہ ہندستان کیلئے موجبِ تشویش ہیں۔
امریکہ کو افغانستان میں جو تجربہ ہوا ہے اُس سے ایک حلقے کو امید ہے کہ اب وہ مغربی ایشیا خصوصاً خلیج میں عراق اور اس سے آگے ایران تک اپنی مداخلت کا دائرہ تزویراتی خطوط پر محدود کرنے پر توجہ دے گا۔ اس بیچ مغربی ایشیا میں یورپ کی سفارتکاری نے جو فکری انقلاب برپا کیا ہے وہ بظاہرسب کیلئے خوش آئند ہے۔ چیزیں ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، اِس لئے ایکدم سے کسی ایسی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی جو اندیشوں سے کامل نجات دلادے۔ سردست اسرائیلی صیہونیت اور حماس کی شدت پسندی کا چند برسوں میں خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا، لیکن ان دونوں کی جڑوں کی خون اور نظریاتی جنون سے آبیاری میں مرحلہ وار کمی کے امکانات دیکھے جا رہے ہیں۔ امکان کے رُخ پر اس راستے پر آگے بڑھنے والوں خاص طور پر فارغین سے پھر کہیں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو اِس بظاہر خوشگوار تبدیلی کا دائرہ مر حلہ وارایران تک وسیع ہوسکتا ہے
یہ ایک نیا سلسلہ ہے جو نہ اچانک شروع ہوا ہے نہ ایکدم سے عروج پر پہنچے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ مرحلہ وار دنیا کے دوسرے خطوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا اور برصغیر میں یہ سفر خدا کرے ہندستان سے شروع ہو کیونکہ ہندستانی معاشرہ نہ ماب لنچنگ کا متحمل ہے نہ ہی کسی انتہاپسندی کو یہاں کسی انقلاب کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت موجودہ حکومت ہے جس سے ایک بڑا حلقہ متفق نہیں۔ باوجودیکہ اِس حکومت نے بُلیٹ سے نہیں بیلیٹ کے ذریعہ اقتدار کی دہلیز پار کی ہے۔ اس میں کوئی اختلاف رائے نہیں کہ اس نے بھی سابقہ حکومتوں کی بعض منفیات سے استفادہ کیا ہے مثلاً اقلیتی ووٹ بینک کے جواب میں انتہائی کامیابی سے اکثریت کا ووٹ بینک تیار کیا۔سیاسی نفسیات کو سمجھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی بھی بینک زیادہ دن منافع بخش نہیں رہتا۔اگر موجودہ حکومت نے اس کا ادراک نہیں کیا تو اُسے بھی زوال کا منھ دیکھنا ہوگا اور زمانے کے بدلے ہوئے رفتار میں سابقہ چھ سات دہائیوں کے بجائے دو تین دہائیوں میں ہی پھر نئی تبدیلی سامنے آ سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے درون ملک صائب الرائے لوگوں کا ایک حلقہ حکومت کی جگہ حکمرانوں کی سوچ کو بدلنا چاہتا ہے تاکہ خارجی سازشوں کے خلاف ملک کا داخلی محاذ مضبوط رہے اور دنیا کی کسی بھی طاقت کی ہمارے گھر کے کسی بھیدی تک رسائی نہ ہو سکے۔ہندستان کا کثیر تہذیبی محاذ آج بھی دنیا کیلئے نظیر ہے جہاں ماب لنچنگ اور دہشت گردی کی ببانگ دہل مشترکہ طور پر مذمت کی جاتی ہے۔ یہ جذبہ ہی ایک دن غیر صحتمند اور تکلیف دہ واقعات میں اتنی کمی لے آئے گا کہ زائد از ایک مقتدرات کے مقامی ذمہ داران ہی اُن سے بالکل اُسی طرح نمٹ لیا کریں گے جس طرح وہ دوسری مقامی وارداتوں سے نمٹ لیتے ہیں۔
یہ دنیا کسی کی خیالی جنت میں تو تبدیل نہیں ہو سکتی لیکن اسے عملاً جہنم بنانے کا بھی کسی کو حق حاصل نہیں۔ اس تفہیم کیلئے لازم ہے کہ لوگ حقیقی معنوں میں پڑھیں لکھیں اور صحت مند اختلاف رائے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ کسی اشتعال کا مشتعل ہو کر جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی آپ سے غیر ضروری ہمدردی دکھائے کہ: ہمیں بھی آپ کے حق میں آواز اٹھانے کا حق ہے؛ تو اُسے بس یہ جواب دے کر اپنے کام میں لگ جائیں کہ ”بخشو بی بلّی! چوہا لنڈورا ہی بھلا۔۔۔“
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)