تحریر: ٹام بیٹ مین
گذشتہ ہفتے جب مغربی ممالک کا افغانستان سے انحلا مکمل ہو رہا تھا تو طالبان جشن منانے کے لیے کابل میں ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔ عسکریت پسندی کی تاریخ وہ وجہ ہے جس کی بنا پر طالبان کے عالمی سطح پر تنہا رہ جانے کا امکان ہے اور لاکھوں افغان شہریوں کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔
عالمی طاقتیں اس وقت ملک میں قدامت پسند اسلامی قیادت کے لوٹنے کے بعد ان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس سب کے دوران مسلم اور عرب دنیا کے دو ممالک اہم سہولت کار کے طور پر ابھرے ہیں، قطر اور ترکی۔
یہ دونوں ممالک طالبان تک رسائی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دونوں نے حالات پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور دونوں ہی ایک اور جوا کھیل رہے ہیں جو مشرق وسطیٰ میں پرانی دشمنیاں دوبارہ جگا سکتا ہے۔ گیس کی دولت سے مالا مل چھوٹا سا خلیجی ملک قطر ان ممالک کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا ہے جو افغانستان سے انخلا کرنا چاہ رہے تھے۔
عالمی تنازعات پر تحقیق کرنے والے تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی سینیئر مشیر دینا اسفندیاری کا کہنا ہے کہ ’کوئی ملک بھی بڑے پیمانے پر افغانستان سے انخلائی عمل قطر کی جانب سے کسی نہ کسی قسم کے تعاون کے بغیر نہیں کر سکا تھا۔‘ انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’افغانستان اور طالبان قطر کے لیے ایک اہم کامیابی ہوگی کیونکہ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوگا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں بلکہ مغربی ممالک پر یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ قطر اس عمل میں ایک اہم شراکت دار ہے۔‘
جیسے جیسے مغربی ممالک کابل چھوڑ رہے تھے، ان تعلقات کی اہمیت بڑھتی جا رہی تھی اور قطری وزارتِ خارجہ کی ترجمان لولواہ الخاطر کی ٹوئٹر فیڈ عالمی طاقتوں کی تعریفی ری ٹوئیٹس سے بھری ہوئی ہے۔
مگر طالبان سے تعلقات مستقبل میں مشرق وسطیٰ میں مشکلات بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ ترکی اور قطر خطے کی اسلام پسند تحریکوں کے زیادہ قریب ہیں مگر یہی تحاریک مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تناؤ پیدا کرتی ہیں اور یہ ممالک ان گروہوں کو اپنے وجود کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ لیکن کیا افغانستان میں بین الاقوامی سفارتی عمل کا گہوارہ بننے سے ان ممالک کا مشرق وسطی میں اثر و رسوخ بڑھ جائے گا؟
دینا اسفندیاری کہتی ہیں کہ طالبان کی کامیابی ’قدامت پسند اسلام‘ کی طرف واپسی ہے۔ یہ وہ سیاسی نظریہ ہے جس کا مقصد حکومت اور معاشرے کو اسلامی قوانین کے اصولوں پر استوار کرنا ہے۔ دینا کا کہنا ہے کہ ابھی یہ عمل جنوبی ایشیا تک محدود ہے۔ ’یہ ابھی افغانستان میں ہو رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مشرق وسطیٰ تک نہیں پھیلے گا تاہم گذشتہ دس سالوں میں مشرق وسطیٰ اسلامی اور غیر مذہبی گروہوں کے درمیان کھینچا تانی کا شکار رہا ہے۔‘
طالبان سے بات کرنا
1990 کی دہائی میں طالبان کے گذشتہ دورِ حکومت میں صرف تین ممالک کے طالبان کے ساتھ رسمی تعلقات تھے: پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان سے سرکاری تعلقات منقطع کر دیے تھے تاہم سعودی شہریوں نے انفرادی طور پر کئی سالوں تک طالبان کی مالی امداد جاری رکھی۔ ماضی میں سعودی حکام نے گروہ کی ہر قسم کی سرکاری مالی امداد کی تردید کی اور انفرادی طور پر لوگوں کو پیسے بھیجنے سے روکنے کے لیے اقدامات بھی لیے ہیں۔
مگر جیسے جیسے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی امریکہ میں غیر مقبول ہونے لگی، ان ریاستوں کے لیے دروازے کھلنے لگے جو کہ یہاں سفارتکاری کر سکتی تھیں۔ ترکی اور قطر کے طالبان کے ساتھ تعلقات مختلف طریقوں سے پروان چڑھے ہیں۔ جب صدر اوباما کی انتظامیہ اس جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی تو قطر نے 2011 سے امن کوششوں پر بات چیت کرنے کے لیے طالبان رہنمائوں کی میزبانی کی۔
یہ ایک متنازع اور مشکل عمل رہا ہے۔ دوحہ کے مضافات میں طالبان کا لہراتا جھنڈا کئی لوگوں کو برا لگا اور امریکی درخواست پر اس پرچم کی اونچائی کم کی گئی تھی۔ تاہم قطر کے لیے یہ ایک اہم قدم تھا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بیٹھے ایک خودمختار خارجہ پالیسی تشکیل دے سکیں۔
دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں گذشتہ سال صدر ٹرمپ کے دور میں مئی 2021 تک امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کا معاہدہ طے پایا۔ اقتدار میں آنے کے بعد صدر بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ وہ یہ ڈیڈ لائن 11 ستمبر تک مؤخر کر رہے ہیں۔
محتاط انداز میں پرامید
ترکی کے افغانستان کے ساتھ تاریخی اور نسلی تعلقات انتہائی مضبوط ہیں اور نیٹو کے واحد مسلم اکثریتی رکنکے طور پر اس کے فوجی بھی ملک میں موجود رہے ہیں تاہم انھوں نے لڑائی میں کبھی حصہ نہیں لیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ترکی کے طالبان کے ساتھ قریبی انٹیلیجنس تعلقات ہیں اور انقرہ پاکستان کا بھی ساتھی ہے۔ گذشتہ ہفتے کابل ہوائی اڈے پر افراترفی کے حوالے سے ترک حکام نے طالبان کے ساتھ تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔ ان میں سے کچھ بحث ہوائی اڈے کے مستقبل کے آپریشنز کے بارے میں تھی کیونکہ گذشتہ چھ سالوں سے ہوائی اڈے کی حفاظت پر ترک فوجی ہی مامور تھے۔
طالبان کا اصرار تھا کہ ترک فوج دیگر غیر ملکی افواج کے ساتھ ہی ملک چھوڑ دے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے کی ملاقات ایک وسیع تر ایجنڈے کا حصہ تھی۔
ترکی کے صدر اردوغان کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان قیادت کے حوالے سے محتاط ہیں لیکن پرامید بھی۔ جب ان پر طالبان کے ساتھ روابط کے حوالے سے تنقید کی گئی تو ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کسی سے اجازت نہیں لیں گے کہ کس سے بات کرنی ہے کیونکہ یہ سفارتکاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ترکی افغانستان میں اتحاد کے لیے تمام تر حمایت دینے کے لیے تیار ہے مگر انتہائی محتاط راستہ اختیار کرے گا۔‘
افغان تعلقات کے ماہر اور استنبول کی التنباس یونیورسٹی کے پروفیسر احمد قاسم ہان کا کہنا تھا کہ طالبان صدر اردوغان کے لیے ایک نیا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اقتدار پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے طالبان کو بین الاقوامی امداد اور سرمایہ کاری چاہیے۔ آج طالبان تو اپنے ملازمین کی تنخواہیں بھی نہیں دے پا رہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ترکی کوشش کرے گا کہ وہ سہولت کار اور ضمانتی کے طور پر سامنے آئے اور ایک ایسا ساتھی بنے جو کہ روس یا چین سے زیادہ بااعتماد ہوگا۔
بہت سے ملکوں کی کوشش رہی ہے کہ طالبان سے روابط رکھیں، خاص طور پر دوحہ چینل کے ذریعے مگر ترکی عملی طور پر تعلقات بنانے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ تاہم اس صورتحال میں خطرہ بہت زیادہ ہے۔
پروفیسر ہان کا ماننا ہے کہ افغانستان صدر اردوغان کو یہ موقع دے گا کہ وہ خارجہ پالیسی میں اپنی بساط کو وسیع کریں اور اپنی پارٹی میں زیادہ مقبولیت حاصل کریں۔
وہ ترکی کو ایک ایسا ملک مانتے ہیں جس کی مسلم دنیا میں ایک خاص جگہ ہے۔ یہ ترکی کے ماضی اور خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی ہے۔ ’مگر اگر ان کا یا کسی بھی ملک یا کردار یہ بن جاتا ہے کہ وہ ایسے شرعی نظام کو لاگو کرنے میں مددگار ہیں جو کہ وحشیانہ مظالم کرتا ہے تو ترکی کو وہاں نہیں ہنا چاہتے۔‘
ادھر قطر میں حکام کو توقع ہے کہ ان کا مذاکراتی کردار خلیج میں کئی سالوں کے عدم استحکام کو ہوا دینے کے بجائے کشیدگی کم کرے گا۔ مگر اس وقت مستقبل کے بارے میں اعتماد سے کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے اثرات محسوس ہونا شروع ہوئے ہیں اور لاکھوں افغان شہریوں کا مستقبل ان سے جڑا ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی )