تحریر: مسعود جاوید
ایک تاریخ یا روایت کے مطابق سنہ1919 ء میں جب مہاتما گاندھی رام پور پہنچے اور وہاں نواب آف رامپور سید حامد علی خان بہادر سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو لوگوں نے بتایا کہ ایوان کے آداب کے مطابق نوابوں کے ایوان میں ملاقاتی ننگے سر نہیں جاتے ہیں۔ بازار میں کوئی مناسب ٹوپی نہیں ملی تو عبادی بیگم ہمشیرہ محمد علی و شوکت علی نے گاندھی جی کے لئے ایک سفید ٹوپی تیار کیں جسے پہن کر وہ ملاقات کے لیے گئے۔ اس وقت سے انگریزی استعمار کے خلاف مزاحمت کرنے والے اس مخصوص طرز کی ٹوپی پہننے لگے۔ انگریزوں نے اس پر پابندی لگانے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
اسی وقت سے اس طرز کی ٹوپی گاندھی ٹوپی کے نام سے مشہور ہوئی اور آزادی کے لیے پرامن احتجاج و مظاہرہ کرنے والوں اور مابعد آزادی سیاسی لوگوں بالخصوص کانگریس کے رہنماؤں اور کارکنوں کی علامت بن گئی۔ کھدر کا کرتا پاجامہ اور گاندھی ٹوپی کے بغیر ان کی شناخت مکمل نہیں ہوتی تھی۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح کانگریس پارٹی نے گاندھی نہرو کی کئی روایات کو بھلا دیا، عوام سے براہ راست رابطہ توڑ لیا گاندھی اور نہرو کے نظریات شہر شہر اور گاؤں گاؤں پہنچانا چھوڑ دیا اسی طرح گاندھی ٹوپی کا استعمال بھی لازمی شناخت کے طور پر تقریباً ترک کر دیا۔ اب کانگریس پارٹی کے رہنما اور کارکنان بھی شاذ و نادر ہی گاندھی ٹوپی کا استعمال کرتے ہیں۔
2011میں انا ہزارے اینڈ پارٹی کے کرپشن کے خلاف تحریک انڈیا اگینسٹ کرپشن سے اختلاف کے بعد اروند کجریوال نے2012میں عام آدمی پارٹی کی داغ بیل ڈالی جس کی سب زیادہ نمایاں شناخت عام آدمی پارٹی کی #ٹوپی تھی اور سب سے زیادہ پرکشش نعرہ ’پارٹی ذرا ہٹ کے‘ عام سیاسی پارٹیوں سے مختلف ایک متحرک اور فعال پارٹی تھا۔
تاہم سیاسی روایت رسم و رواج اور برسہا برس سے چلی آرہی غلط روشوں کے خلاف ایک نئی روش اور سیاسی نہج شروع کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہوتا ہے۔
’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ …..چنانچہ ’پارٹی ذرا ہٹ کے‘ پر عملدرآمد کے عہد و پیمان کی حرارت سال دو سال کے اندر ہی سرد پڑنے لگے۔
اس پارٹی کے وجود میں آنے کا سب سے بڑا محرک ’ لوک پال بل‘ تھا جو آج ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح دہلی میں بھی سرد خانے میں ہے۔
مذہبی علامتوں سے احتراز اور مذہبی رہنماؤں سے دوری تاکہ حقیقی سیکولرازم کے علمبردار اکثریت نوازی یا اقلیت منہ بھرائی کا الزام نہ لگے۔ رفتہ رفتہ یہ عہد بھی مدھم ہوتا گیا اور عام آدمی پارٹی اور اس کے سربراہان بھی ملک کے موجودہ مزاج سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ یہ لوگ بھی براہ راست یا بالواسطہ اکثریتی فرقہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مذہبی شعائر کی نمائش کرنے لگے ،چنانچہ دوسرے یا بالتحدید تیسرے ٹرم کے لئے فتحیاب ہونے کے بعد انہوں نے بھی ’جے سری رام‘ کے مقابل ’جے ہنومان‘ کا نعرہ لگانا شروع کیا۔
کیا کجریوال نے سیاسی رہنماؤں کو ٹوپی پہننے پر مجبور کر دیا : عام آدمی پارٹی کی یہ ٹوپی اس قدر مقبول ہوئی کہ دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی نقل کرنے میں دیر نہیں کی۔چنانچہ اکھلیش یادو کی سماجوادی پارٹی نے سرخ رنگ کی ٹوپی ، ایس پی کی علامت کے طور پر ، تو لالو پرساد یادو کی راشٹریہ جنتا دل نے سبز رنگ کی ٹوپی حتی کہ متحدہ کسان یونین کے سربراہان بھی اپنی ایک شناخت کے طور پر ٹوپی کا استعمال کر رہے ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)