تحریر: پرنسپل یاسین علی
یہ فطرت کا ایک ناقابل یقین اصول ہے کہ جب بھی زمین کے کسی حصہ میں ظلم و زیادتی اور مظالم وغیرہ بڑھتے ہیں تو خدا تعالہ اس علاقے میں ایک نبی، اوتار وغیرہ بھیجتا ہے تاکہ زمین سے لوگوں پر ہو رہے مظالم کو ختم کر کے زمین کو پاک کیا سکے۔ 571 عیسوی سے پہلے عرب کی سرزمین پر رہنے والے لوگ بھی، انسانوں کی شکل میں جانور تھے۔ چھوٹی چھوٹی لڑائیوںاور قبائلی جنگوں کی روایت صدیوں سے چلی آرہی تھی۔ معاشرتی برائیاں جیسے عصمت دری، سود، پیدائش کے وقت لڑکیوں کا قتل وغیرہ ان میں عام تھا۔ انسان دوسرے انسان کا خون پینا بھی برا نہیں سمجھتا تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر کوئی بھی حکمران عرب قبائل / لوگوں پر حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر 20 اپریل 571 عیسوی کو (پیر، 12 ربیع الاول) عبداللہ کی بیوی آمنہ نے ایک لڑکے کو جنم دیا۔ ان کے چچا ابو طالب نے ان کا نام” محمد” رکھا۔ یہی وہ بچہ تھا جو بڑا ہو کر اسلام کے آخری نبی کے طور پر مشہور ہوا۔ وہ 2 0سال کا تھا جب اس کی ماں کا سایہ اس کے سر سے اٹھ گیا۔ پھر اس کے دادا عبدالمطلب نے اس کی پرورش کا خیال رکھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب وہ 6 0سال کا تھا تو اس کے دادا بھی خدا کو پیارے ہو گئے۔ بعد میں اس کی پرورش اس کے چچا ابو طالب نے کی۔ بچپن سے ہی ان میں سچ بولنے، بوڑھوں / بے سہارا / معذوروں وغیرہ کی خدمت کرنے، کسی کو دھوکہ نہ دینے، امانت میں خیانت نہ کرنے وغیرہ خوبیاں تھیں۔
نتیجہ کے طور پر، مکہ کے تمام لوگ آپﷺ کو امین (امانت دار) اور صادق (سچ بتانے والا) سمجھتے تھے۔ 20 سال کی عمر میں وہ کاروباری مقاصد کے لیے شام (سیریا)، عراق، یمن اور دیگر ممالک گئے۔ وہ اپنی ایمانداری، دیانتداری اور کاروباری معاملات کے لیے پورے عرب میں مشہور ہوگئے۔ 25 سال کی عمر میں آپﷺ نے بی بی خدیجہ (ایک بیوہ) سے شادی کی۔ بی بی خدیجہ کی عمر اس وقت 40 سال تھی۔ حضرت محمد (صلعم) اکثر مکہ سے 03 کلومیٹر باہر مقیم ایک غار میں (جس کا نام حرا ہے) جا کر بیٹھتے اور خدا تعالہ کے بارے میں اپنا دھیان لگاتے۔ یہیں پر 40 سال کی عمر میں خدا نے اپنے فرشتہ جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے آپ ﷺ پر پہلی وحی (الہی پیغام) نازل کیا اور آپﷺ کو اسلام کا نبی ہونے کی خوشخبری دی۔ یہ پیغام حاصل ہونے کے بعد ،مسلسل 23 سال تک نہایت منصوبہ بند طریقے سے، عربوں کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے، آپﷺ نے مکمل طور پر اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچایا اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے کی ترغیب دی۔ آپﷺ کی سخت محنت اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ تعداد میں اسلام کی طرف آئے اور اسلام کو دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہونے کا آج شرف حاصل ہے۔ آپﷺ کی تبلیغ کی وجہ سے، پہلے ہی دن، آپﷺ کے دوست ابو بقر صدیق، آپﷺ کی بیوی بی بی خدیجہ اور آپﷺ کے چچا ذاد بھائی حضرت علی کو اسلام میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ تعداد بڑھتی گئی، جس کی وجہ سے مکہ کے روایتی مذاہب کے پیروکار آپﷺ کے اور آپﷺ کے ساتھیوں کے دشمن بن گئے۔ وہ تقریباً 13 سال تک ہر طرح سے ہراساں رہے۔ یہاں تک کہ ایک دن آپﷺ کو قتل کرنے کا بھی منصوبہ بنالیا گیا۔جس کی وجہ سے آپﷺوحی کے ذریعے خدا سے موصول ہونے والے حکم کے مطابق اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔
اس سال سے ہجری سال شروع ہوا۔ مدینہ جاکر آپﷺ نے زور سے اسلام کی تبلیغ شروع کی۔ اس کے نتیجے میں اسلام مدینہ کے مضافات میں پھیلنے لگا۔ ناراض ہوئے مکہ کے لوگوں نے اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لیے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ محمد (صلعم) نے اپنے مخالفین کے ساتھ صلح کرنے اور صلح کو بڑھانے کی کئی کوششیں کیں لیکن ناکام رہے۔ آخر میں آپﷺ کو اپنے دفاع کے لیے کئی بار میدان جنگ میں جانا پڑا۔ پیغمبر اسلامﷺ نے جنگ کے لیے انسانی اصول بھی بتائے۔ بربریت کے اس دور میں بھی آپﷺ نے میدان جنگ میں انسانی اقدار کو لاگو کر کے ایک منفرد مثال قائم کی۔ آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کو جنگ کے سخت قوانین اپنانے کا حکم دیا۔ آپﷺ نے کہا کہ میدان جنگ میں کسی کی لاش کو مسخ نہیں کیا جانا چاہیے، کسی کو دھوکہ سے قتل نہیں کیا جانا چاہیے، بچوں / بوڑھوں / عورتوں وغیرہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے، کھجوروں اور دیگر پھل دار درختوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔، انہیں کاٹا یا جلا یا نہ جائے، سنسار تیاگی سنتوں، فقیروں اور خدا کی عبادت کرنے والوں کو ہراساں نہ کیا جائے، کسی مذہب کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے وغیرہ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ اپنی شرن میں آئے انتہائی سخت دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دی، جو آج کے مہذب معاشرے میں بھی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپﷺ نے خون کا ایک قطرہ بھی بہائے بغیر اپنے آبائی مکہ کو فتح کیا اور مکہ کے لوگوں کو مکمل طور پر معاف کر دیا جنہوں نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ستایا تھا۔ آپﷺ نے اعلان کیا کہ اے اہل مکہ آج تم پر کوئی الزام نہیں ہے اور تم سب آزاد ہو۔ جو کام تلوار سے نہیں کیا جا سکتا وہ سچے کردار سے کیا جاتا ہے۔
حقیقی معنوں میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بین الاقوامی بھائی چارے، انسانی مساوات، جمہوری اصولوں وغیرہ کا عملی نفاذ کرنے والا سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ اصول مغرب نے بہت بعد میں اپنائے ہیں۔ اسلام کے اس نظریے پر تبصرہ کرتے ہوئے، آزاد ہندوستان کی پہلی خاتون گورنر سروجنی نائیڈو نے کہا، ”اسلام جمہوریت سکھانے اور اسے حقیقت بنانے والا پہلا مذہب تھا۔اسلام دھرم کو ماننے والے دن میں پانچ دفعہ نماز اداکرتے وقت بنا کسی امتیاز کے امیر غریب، سفید کالا ایک دوسرے سے کندھے سے کندھا جوڑ کر ایک ہی ستر میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ میں اسلام کے اس ناقابل تقسیم اتحاد سے بہت متاثر ہوں۔ اسی طرح ہر سال حج کے موقع پر تمام ممالک کے مسلمان رنگ، نسل، سیاہ اور سفید کی تفریق سے اوپر اٹھتے ہیں اور حج کا اہم فریضہ پورا کرتے ہیں جو کہ بین الاقوامی بھائی چارے کے جذبے کی علامت ہے”۔ ہارگرونز نے کہا تھا کہ ”اقوام متحدہ، جس کی بنیاد پیغمبر اسلامﷺ نے رکھی ہے، نے بین الاقوامی اتحاد اور انسانی برادری کے قوانین کو عوامی سطح پر قائم کیا ہے جو کہ دوسری قوموں کی رہنمائی کرتی رہے گی۔اس طرح آپﷺ کی شخصیت اور خصوصیات کی وجہ سے آپﷺ کا نام دنیا کے اتہاس کو سب سے زیادہ اثر انداز کرنے والی شخصیات میں شامل ہے۔آج بھی آپﷺ کی جانب سے بتایا حقیقت بھرپور، سادگی والا، دس لاکھ میل سے زیادہ علاقہ کے سیاسی اور مذہبی رہنماء ہونے کے باوجود اپنے ہاتھوں سے کما ئی کرنے والے، ایک اعلیٰ درجے کا فوجی ہیرو، ایک سماجی اصلاح کار، ایک ایماندار تاجر، غیر مہذب لوگوں کو مہذب انسان بنانے والے، غریبوں کی خدمت کرنے والا بے لوث خدمت گار لوگوں کیلئے راہ دسیرہ ہے۔آج دنیا میں پھیلی بدعنوانی، نسل کشی، انسانی اقدار کی تنزلی، کالا دھن وغیرہ کا مسئلہ کو آپﷺ کی جانب سے اختیار کردہ اصولوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
سن 10 ھ کو آپﷺ نے اپنے 125000 صحابہ (ساتھیوں) کے ہمراہ اپنی زندگی کا آخری حج کیا۔ اس موقع پر، آپﷺ نے اپنے ساتھیوں کو خطبہ (تقریر) کے ذریعے کچھ پیغامات دیئے، جن میں سے کچھ اس طرح تھے: – ”مسلمانو، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیا گیاا تھا۔ تمھارے لیے ایک دوسرے کا خون بہانا، ایک دوسرے کی املاک پر قبضہ کرنا، ایک دوسرے کی عزت سے کھیلنا حرام ہے۔اس حج کے بعد آپﷺ مدینہ واپس چلے گئے اور کچھ دیر بیمار رہنے کے بعد پیر کے روز 12 ربیع الاول کو آپﷺ 63 سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ محمد (صلعم) کی پیدائش اور موت کا دن و مہینہ ایک ہی ہے۔