تحریر: سید سعادت اللہ حسینی
کسی کی رحلت پر یہ کہنا کہ ایک عہد کاخاتمہ ہوگیا اب بہت عام بات ہوگئی ہےلیکن آج واقعتاً ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ٹی کے عبد اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ بلامبالغہ ایک عہد وابستہ تھا۔ ٹی کے عبد اللہ ۔۔یہ ایک جلیل القدر، جامع صفات ، باکمال شخصیت ہی کا نام نہیں تھا بلکہ ایک تحریک کا نام تھا۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ان کی کارگہ فکر،عہد سازخیالات کی تخلیق کا مرکز تھی تو ان کی باغ وبہار شخصیت افراد کی ٹکسال تھی۔ ان کی بے چین طبیعت اور تب و تاب جاودانہ نے بلامبالغہ ہزاروں نوجوانوں کو زندگی کی حقیقی حرارت و توانائی سے آشنا کیا تو ان کی تازہ دم اور حرکت پذیر فکر نے تحریکی فکر کے پودے کو سر سبز و شاداب رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ میرے لیے ذاتی طور پر ایک بڑا سانحہ ہے۔ میری زندگی کے متعدد گوشوں نے ان کی ہمہ پہلو شخصیت کے اثرات قبول کیے ہیں، اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ایک لمبے عرصے تک مختلف حوالوں سے میں گویا ان کا شاگرد رہا ہوں۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے آمین۔
مرحوم ٹی کے عبد اللہ، 1972سے ، یعنی میری پیدائش سے بھی کافی پہلے سے، مسلسل جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے لیے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق، جماعت اسلامی ہند میں کوئی اور فرد اتنے لمبے عرصے تک مرکزی مجلس شوریٰ میں نہیں رہا۔ وہ عربی، اردو، ملیالم زبانوں کے ماہر، ایک بلند پایہ ادیب، محقق، مصنف، مترجم ، مفسر اور نقاد بھی تھے اور ایک مقبول ، سحر انگیزعوامی مقرر بھی تھے۔ایک اچھے استادو مربی بھی تھے اور ایک بہترین مدبر، مشیر اور منصوبہ ساز بھی۔ ان کی محفل میں جہاں ان کے وسیع علم، عبقری ذہانت اور طویل تجربے کا وقار سایہ فگن رہتا وہیں ان کی بذلہ سنجی ، حاضر جوابی، شگفتہ مزاجی، اور نکتہ رسی کے پر لطف اور عطر بیز جھونکے شرکاء کو باندھ کر رکھتے۔ اُن کی ایک بڑی خصوصیت ان کا نہایت زر خیز ذہن تھا جس کی زر خیزی عمر کے اُس آخری حصے میں بھی اپنے تمام کمالات کے ساتھ برقرار تھی جب کہ اُن کے کانوں نے اور دیگر اعضاءنے جواب دے دیا تھا۔
مرحوم سے میرا پہلا تعارف ۱۹۹۲ میں ایس آئی او کے ایک تربیتی پروگرام میں ہوا۔ اس وقت میں اٹھارہ انیس سال کا نو عمر اور تحریک میں نووارد تھا۔ بعد میں جب میں صدر حلقہ مہاراشٹر بنا تو ہم نے ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی تھی۔ دو دن تک صرف ان کو سننے کے لیے جمع ہوئے تھے۔جماعت کے ماحول میں عام طور پر جو باتیں کہی جاتی ہیں، ان سے ان کی باتیں مختلف اور چونکانے والی تھیں۔ ان میں بڑی تازگی محسوس ہوتی تھی۔ وہ جماعت کی کمزوریوں پر بھی بلاتکلف تنقید کرتے۔ مولانا مودودیؒ سمیت تحریک کے بڑے مفکرین کے بعض خیالات سے بھی برملا اظہار اختلاف کرتے۔ نئے مسائل پر غور و فکر کے ایسے پہلو سامنے لاتے جو بالکل نئے اور اچھوتے ہوتے۔ نوجوانوں سے بالکل برابری کی سطح پر بے تکلف گفتگوکرتے۔ ان کی عالمانہ اور اجتہادی شان کا یہ پہلا خوشگوار تاثر تھا۔
بعد میں ان سےکثرت سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ پھر 2007 میں جب میں مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو ان کے ساتھ مسلسل ساتھ رہنے اور ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وقفہ طویل ہوجاتا تو وہ خود یاد فرماتے اور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ تحریکی و جماعتی امور و مسائل سے لے کر ، معاصر افکار و نظریات تک، ملکی و عالمی سیاست و معیشت سے لے کر فقہ، تصوف اور ادب و شاعری تک، مختلف موضوعات پر وہ نہایت بے تکلفی سے بات کرتے۔ گفتگو کا انداز ایسا ہوتا کہ احساس ہی نہیں رہتا کہ ہم اپنے کسی ہم عمر سے نہیں بلکہ تحریک کی ایک بزرگ ترین شخصیت سے بات کررہے ہیں۔ اس مہینے بھی انہوں نے متعدد ذرائع سے پیغام بھیجا کہ وہ جلد سے جلد ملنا چاہتے ہیں ۔ میں نے اگلے مہینے یعنی نومبر کا پروگرام بنالیا تھا لیکن افسوس کہ یہ ملاقات ممکن نہیں ہوسکی اور انہوں نے اپنا عرصہ حیات مکمل کرلیا۔
ٹی کے صاحب مرحوم، مالابار کے ایک معزز علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد علاقے کے ایک بڑے عالم دین اور مذہبی پیشوا تھے۔ کیرلہ کے مختلف مدارس سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے والد کی جانشینی کے لیے تیار ہوہی رہے تھے کہ اس دوران ترجمان القرآن اور مولانا مودودیؒ کی کتابوں کا انہوں نے مطالعہ کیااور جلد ہی جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ جماعت کے رسالے پربودھنم کے اور پھر علمی مجلے بودھنم کے ایڈیٹر مقررہوئے۔ امیر حلقہ رہے۔ مجلس نمائندگان اور پھر مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئے اور مختلف میدانوں میں جماعت کی گراں قدر خدمات انجام دیں۔
ٹی کے صاحب، نے علامہ اقبال کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ سیکڑوں اشعار انہیں ازبر تھے اور اُن کا برمحل استعمال بھی کرتے تھے۔ اسی طرح مولانا مودودیؒ کی تمام کتابوں، حتی کہ ان کے نادر مضامین کا بھی مرحوم نے جس گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور جس طرح اُن کی باتیں ہمیشہ مستحضر رکھتے، اس کی نظیر بھی کم ہی ملتی ہے۔ قرآن مجید، احادیث، کلاسیکی اسلامی لٹریچر اور عربی شاعری پر انہیں غیر معمولی دسترس تھی۔ گفتگو کے دوران اپنی باتوں کو عربی اشعار سے مدلل کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان سب کے ساتھ جدید علوم و نظریات سے بھی واقف رہتے۔ مغربی مصنفین کے تازہ ترین افکار سے باخبر رہتے اور ان کے مناسب اسلامی ریسپانس پر ہمیشہ غور و فکر فرماتے۔دو دہے قبل جب گلو بلائزیشن کا زور تھا تو ان سے گھنٹوں اس موضوع پر بات ہوتی۔ گفتگو میں کسی اہم کتاب کا ذکر آجاتا تو اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے بے چین ہوجاتے۔ میں نے حیدرآباد سے بھی انہیں کتابیں اور مضامین روانہ کیے ہیں۔ اس کے بعد اسی طرح کی گہری گفتگو ان سے پوسٹ ماڈرن ازم پر، پھر پلیورزم پر ہوتی رہی۔ حالیہ دنوں میں آئیڈینٹیٹی پالیٹکس کا گہرا علمی تجزیہ، ان کی دلچسپی کا موضوع تھا۔ وسیع علم، عربی و اردو شاعری اور ان کے ساتھ ملیالی ادب کی مخصوص حس مزاح اور الفاظ سے کھیلنے کی مخصوص ملیالی و تمل روایت، ان سب باتوں کے خوبصورت امتزاج سے ان کی گفتگو میں ایک انوکھی کشش پیدا ہوگئی تھی۔ تقریر کرتے تو گھنٹوں، مجمع کو مبہوت و مسحور کیے رہتے۔ ان کی کئی کئی گھنٹوں کی عوامی تقریریں بھی ہم نے سنی ہیں۔زبان سمجھے بغیر بھی ان کی رواں دواں تقریر ہم بے زبانوں کے لیے بھی لطف کا باعث ہوتی۔ فرماتے کہ انگریزی ڈائیلاگ کی زبان ہے، اس میں تقریر ممکن نہیں۔ اسی طرح اردو غزل کی زبان ہے۔ تقریر و خطابت کی زبان تو ملیالم ہے۔ان کی تقریر سن کر تو یہ بات واقعی درست محسوس ہوتی۔
علامہ اقبال کی رحلت پر ایک شاعر نے کہا تھا:
سازِ مشرق میں سمو دی نغمئہ مغرب کی لے
تونے بھر دی نئے پیالوں میں صہبائے کہن
یہی معاملہ ٹی کے صاحب نے کیرلہ اور اردو ریاستوں کے درمیان کیا۔ یہ مرحوم کا ایک بڑا اہم کنٹری بیوشن ہے کہ انہوں نے کیرلہ کی بے چینی و اضطراب اور حرکت و عمل کی روح، اردو ریاستوں میں منتقل کرنے کی کوشش کی اور کیرلہ کے حوصلہ مند کارکنوں کو تحریک کی اساسی فکر گھول کر پلائی اور ان کی حرکیت کا رشتہ ، مناسب و متوازن فکر سے قائم کیا۔ زندگی بھر وہ انہی دو مقاصد کے لیے لڑتے رہے۔ اردو حلقوں کے عملی و فکری جمود کے شاکی رہے تو ملیالی حلقوں کے فکری و نظریاتی استقلال کے حوالے سے فکر مند رہے۔ وہ دلّی آتے تو تبدیلی اور اجتہاد فکر کے داعی بلکہ اُس کا استعارہ بن جاتے اور کالی کٹ لوٹتے تو تحریک کے اساسی فکر کےسخت گیر محافظ بن جاتے۔ وہ کہتے بھی تھے کہ دلی میں مجھے ریفارمسٹ سمجھا جاتا ہے اور کیرلہ میں فنڈامنٹلسٹ۔
ٹی کے صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ مولانا مودودیؒ نے جس طرح اپنے زمانے میں حاکمیتِ الہ کو اپنی کوششوں کا محور و مرکز بنایا، اسی طرح موجودہ دور میں اللہ کی مالکیت کو موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودی کے زمانے کا اصل طاغوت مغربی سیکولر نیشن اسٹیٹ تھا اور آج کا اصل طاغوت سرمایہ دارانہ استعمار ہے، جس نے سارے وسائلِ حیات پر قبضہ کرکے انسانوں کو غلام بنا رکھا ہے۔ وہ یہ بات بار بار مختلف پیرایوں میں بیان کرتے۔ خطابات میں بھی یہ ان کا اہم موضوع رہتا اور مرکزی مجلس شوریٰ جیسی مجالس میں بھی۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہندوستان جیسے ملک میں امت مسلمہ کا تحفظ جماعت کی اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
مرحوم کی بعض باتوں سے ہم متفق ہوتے لیکن کئی باتوں سے اختلاف بھی کرتے۔ ان سے کھل کر اختلاف کرنے میں ہم جیسے ناتجربے کار نووارِدوںکو بھی کبھی کوئی تردد نہیں ہوتا۔ جب پالیسی پروگرام کی کمیٹیوں میں، میں شامل ہونے لگا تو تدوین سے پہلے ان کی خواہش پر، مرحوم سے ایک تفصیلی ملاقات ضرور ہوتی۔ کئی دفعہ اصرار کرکے انہوں نے کیرلہ میں اپنے گھر مدعو کیا۔ شاندار ضیافت اور مہمان نوازی کے ساتھ دن دن بھر، نئی میقاتی پالیسی پر اپنے خیالات سے مستفید فرماتے۔ پالیسی پروگرام، جماعت کی اسٹریٹجی، دستور جماعت وغیرہ میں ترمیمات کے بارے میں جو دلچسپی اور فکر مندی ان کے اندر پائی جاتی تھی وہ بہت کم بزرگوں میں میں نے دیکھی ہے۔ چند سال پہلے انہوں نے مرکزی مجلس شوریٰ میں ایک تفصیلی مقالہ پڑھا تھا جس میں بعض اہم اور بنیادی تبدیلیوں کی سفارش تھی۔ اس پر ان کے اصرار پر مرکزی مجلس شوریٰ کا ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا تھا۔ ان کی تمام باتوں سے تو ہم متفق نہیں ہوسکے لیکن اس اجلاس میں عمر کے اس پڑاو پر بھی ان کی علمی و فکری تازگی کا جو مظاہرہ ہوا تھا، اس کی یادیں ہمیشہ انسپائر کرتی رہیں گی۔
مدتوں کرتی ہے گردش ،جستجو میں کائنات
تب کہیں ملتا ہے ایسا محرمِ رازِ حیات