عباس دھالیوال،مالیر کوٹلہ
گزشتہ 15 کے بعد کابل میں طالبان کے قبضے کے بعد جب ان کے افغانستان میں بر سرِ اقتدار میں آنے کے چرچے شروع ہوئے ہیں تب سے دنیا کے الگ الگ ممالک میں طالبان کو لیکر مختلف حکمت عملیاں سامنے آ رہی ہیں. اس ضمن میں پاکستان، ترکی، روس، چین اور ایران وغیرہ نے ایک طرح سے یہ واضح اشارہ دیئے ہیں کہ وہ افعانستان کی نئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات اور مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں کے سفارت خانے بھی فعال طریقے سے اپنے کام کر رہے ہیں۔
ادھر مختلف تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے سے لے کر اب تک بھارت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ لہٰذابیرونی دنیا کے ردِعمل سے قبل بھارت بھی طالبان سے متعلق کوئی دو ٹوک پالیسی نہیں اپنانا چاہے گا۔
افغان طالبان کے سینئر رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی نے بھارت کو تجارتی اور اقتصادی تعلقات استوار کرنے کی پیش کش کی ہے جس پر تاحال بھارت کی جانب سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
جبکہ گزشتہ دنوں دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی کا کہنا تھا کہ برِصغیر کے لیے بھارت ایک اہم ملک ہے۔ طالبان اس کے ساتھ ثقافتی، اقتصادی، تجارتی اور سیاسی رشتے رکھنا چاہتے ہیں۔ ستانکزئی نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ فضائی اور تجارتی راہداری کو بھی کھلا رکھنے کی ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق طالبان رہنما بھارت اور افغانستان کے درمیان اس فضائی راہداری کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قائم کی گئی تھی۔جبکہ افغان خبر رساں ایجنسی ’طلوع نیوز‘ نے ستانکزئی کے حوالے سے کہا ہے کہ طالبان قیادت فی الحال مختلف نسلی گروپس اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کر رہی ہے تاکہ ایک ایسی حکومت قائم کی جائے جو افعانستان کے اندر اور باہر بھی قابل قبول ہو… ذرائع کے مطابق ستنکزئی کے بھارت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی و تجارتی رشتے کو اہمیت دینے اور ان رشتوں کو برقرار رکھنے کے بیان کو بھارت میں اہمیت تو دی جارہی ہے مگر اسے محتاط انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ طالبان رہنما عباس ستانکزئی کا یہ بیان طالبان کے تعلق سے تمام فریقوں کے ساتھ بھارت کی خفیہ یا اعلانیہ سفارت کاری کے بارے میں مہینوں کی قیاس آرائیوں کے درمیان آیا ہے۔ان کے مطابق ستانکزئی کے ویڈیو بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھارت اور طالبان کے درمیان رشتوں میں کچھ بہتری آئی ہے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سلامتی کونسل کی جانب سے 15 اگست کو ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں واضح طور پر طالبان کا نام لیا گیا تھا۔اس بیان میں یہ اپیل کی گئی تھی کہ طالبان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
رپورٹس کے مطابق اب 27 اگست کو سلامتی کونسل کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا ہے اس میں طالبان کا نام شامل نہیں ہے۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی افغان گروپ یا انفرادی شخص کو دہشت گردوں کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔تجزیہ کاروں کے مطابق سلامتی کونسل کے بیان میں یہ تبدیلی طالبان کے متعلق بھارت کے بدلتے نظریے کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
ادھر سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ نے ایک نیوز چینل سے گفتگو میں کہا کہ ماضی کے واقعات کے پیشِ نظر بھارت بہت ہی سنبھل کر چل رہا ہے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ طالبان سابقہ طالبان سے مختلف ہیں۔ ابھی تک ان کے جو بیانات سامنے آئے ہیں وہ اسی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ڈوگرہ نے شیر محمد ستانکزئی کے بیان کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ طالبان بھارت کے ساتھ تمام قسم کے رشتے استوار کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ بھارت کو بہت محتاط ہو کر آگے بڑھنا ہے لیکن اسے طالبان کی اس پیش کش کو مسترد بھی نہیں کرنا چاہیے۔
دریں اثناء سابق سفارت کار راجیو ڈوگرہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بھارت کو افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ رشتے استوار کرنے چاہئیں۔ کیونکہ اس نے افغانستان کی تعمیر نو میں تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے مفادات ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ بھارت قندھار واقعہ کو فراموش کر کے نئی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرے۔
30 اگست کی شب کو جیسے ہی امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوا تو مانو افغانستان میں ایک جشن کا ماحول بننے لگا اور طالبان نے کابل ہوائی اڈے کی سیکورٹی مکمل طور پر پر اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ چنانچہ بدلتی صورتحال کے پیش نظر منگل کے روز قطر میں ہندوستانی سفیر نے طالبان کے ایک اعلیٰ رہنما سے گفتگو کی ۔ اس ضمن میں بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سخت گیر اسلام پسند گروپ کے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد یہ ان سے پہلا باضابطہ سفارتی رابطہ ہے۔ اس سلسلے میں سفیر دیپک متل نے طالبان کی درخواست پر دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی۔
ہندوستان کو جو ایک لمبے عرصے سے طالبان کے بارے میں خدشات لاحق ہیں ان خدشات کی بڑی وجہ یہ ہے کہ طالبان کے اس کے قریبی حریف پاکستان سے نزدیکی تعلقات ہیں۔ وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ متل نے ستانکزئی کو ہندوستان کے اس خدشے سے آگاہ کروایا ہے کہ بھارت مخالف عسکریت پسند افغانستان کی سرزمین کو حملوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ گفتگو کے بعد وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’طالبان کے نمائندے نے سفیر کو یقین دلایا کہ ان مسائل کو مثبت طور پر حل کیا جائے گا۔‘
یہاں قابل ذکر ہے کہ ہندوستان نے گزشتہ سالوں کے دوران افغانستان میں ترقیاتی کاموں میں تقریباً 3 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ دریں اثناء امریکہ کی حمایت یافتہ کابل حکومت کے ساتھ بھی بھارت نے قریبی تعلقات استوار کیے تھے۔ لیکن گزشتہ 15 اگست کے بعد جس طرح سے طالبان کی تیزی سے پیش قدمی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں طالبان جیسے افغانستان پر قبضے کے جمانے میں کامیاب ہوئے ہیں اس کے بعد سے بھارتی حکومت کو عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے کا کوئی چینل نہ کھولنے پر ملک میں لگاتار تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔
وزارت خارجہ نے کہا،سفیر متل نے بھارت کی تشویش کا اظہار کیا کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی طرح بھارت مخالف سرگرمیوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ستانکزئی نےبھارتی فوجی اکیڈمی میں تربیت حاصل کی. جن کے متعلق بھارتی حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے 1980 کی دہائی میں ایک بھارتی فوجی اکیڈمی میں افغان افسر کی حیثیت سے تربیت حاصل کی تھی، گزشتہ ماہ غیر رسمی طور پر بھارت سے رابطہ کیا تھا اور اس سے کہا تھا کہ وہ اپنا سفارت خانہ بند نہ کرے۔
اب کل ملا کر اگر طالبان کی بات کریں تو اس بار ان کے لب و لہجے اور باڈی لینگویج کافی حد تک بدلی بدلی سی نظر آتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک جن میں روس، چین ترکی ایران پاکستان اور یورپی یونین وغیرہ افغانستان کے ضمن میں طالبان سے حسنِ ظن والے خیالات و تاثرات رکھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں. اب دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں حالات کس طرف کروٹ لیتے ہیں اور طالبان کا اقتدار افغانستان و عالمی برادری کو کس قدر راس آتا ہے…