مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
شعبان کا مہینہ اسلامی تاریخ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے ، اس لیے کہ اسی ماہ میں حضرت حسین ؓ کی ولادت ہوئی ، اسی ماہ میں حضرت حفصہ ؓ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا ، مسجد ضرار کی حیثیت اسی ماہ میں واضح ہوئی اور اسے نذر آتش کیا گیا ، اسی مہینہ میں تحویل قبلہ کا واقعہ پیش آیا اور اسی مہینہ میں مسیلمہ کذاب کے وجود سے دنیا پاک ہوئی ؛ لیکن اسلام میں اس کی اہمیت ایک اہم رات کی وجہ سے ہے ، جسے شب براء ت کہتے ہیں، یعنی جہنم سے گلو خلاصی کی رات ، اس رات کو اللہ کی خاص رحمت نازل ہوتی ہے اور سارے ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آواز لگائی جاتی ہے ، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس آواز کے ساتھ اپنی ضرورتیں بارگاہ ایزدی میں پیش کرکے دامن مراد حصولیابیوں سے بھر لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ اگر تو نے ہمارا شمار بد بختوں میں کر لیا ہے تو اسے مٹادے اور ہمیں نیک بختوں میں لکھ لے اور اگر ہمیں نیک بختوں میں لکھ رکھا ہے تو اسے بر قرار رکھ ؛کیونکہ تیرے ہی پاس لوح محفوظ ہے، اس رات رحمت کی باد بہاری چلتی ہے ، مغفرت کے پروانے تقسیم ہوتے ہیں اور جہنم سے گلو خلاصی عمل میں آتی ہے ، گویا پورے سال بندہ رحمت خدا وندی کی تلاش میں رہتا ہے ؛ لیکن اس رات میں رحمت خدا وندی بندوں کو تلاش کرتی ہے ، اور ضرورت مندوں کی ضروتیں پوری کی جاتی ہیں، اس فضیلت والی رات میں بھی بعض محروم القسمت اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے محروم رہ جاتے ہیں، مختلف احادیث میں ان کا ذکر آیا ہے ،اس فہرست میں کینہ رکھنے والا ، مشرک ، نا حق خون کرنے والا ، قطع تعلق کرنے والا ، ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والا ، غیب کی باتیں بتانے والا ، کاہن، نجومی ، ماں باپ کی نا فرمانی کرنے والا ، شراب کا عادی، ظلماً ٹیکس وصولنے والا اور باجہ بجانے والا، سود کھانے والا ، چغل خور، زانی ، گستاخ رسول، شامل ہے،یہ فہرست مکمل نہیں ہے ، تحقیق سے اور بھی کچھ لوگوں کا اضافہ ہو سکتا ہے، ہر آدمی کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ وہ کسی ایسے اعمال بد کا شکار تو نہیں ہے ، جس کی وجہ سے اس رات میں بخشش سے محرومی اس کا مقدر ہے ۔
اس رات کے فضائل بے شمار ہیں، احادیث میں روزے رکھنے اور نمازیں پڑھنے کا بھی ذکر ہے ؛ لیکن اس کی خاص رکعات اور پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ مذکور نہیں ہے ، اس لیے یہ کہنا کہ اس رات میں سو رکعت نفل پڑھی جائے اور ہر رکعت میں دس دس بار قل ھو اللہ پڑھیں، صحیح نہیں ، اس نماز کو ۴۴۸ھ میں بیت المقدس میں عام لوگوں کی قربت کے حصول کے لیے بعض ائمہ مساجد نے شروع کرایا تھا ، دھیرے دھیرے اس نے جڑ پکڑ لیا ، اس نماز کے ساتھ قوم براقعہ نے چراغاں کا اضافہ کیا اس کے علاوہ یہ اور بہت سارے منکرات پر مبنی تھا ، اس لیے علماء نے اسے بدعت سے تعبیر کیا ہے ، عرب میں اس بدعات کو ختم کرنے کے لیے جد وجہد کی گئی اور بالآخر آٹھویں صدی ہجری میں عربوں کے یہاں اس بدعت کا خاتمہ ہو گیا ؛لیکن ہندوستان میں چراغاں، رت جگے، اجتماعی قرآن خوانی، ایصال ثواب کی مجلسوں کا قیام ، حلوہ بنانا، بانٹنا اور کھانا آج بھی رائج ہے ، چراغوں کے ساتھ پٹاخوں کی بھی کثرت ہوتی ہے اور بالکل غیر مسلموں کی دیوالی کا سا منظر ہوتا ہے ، ظاہر ہے اس عمل کا کوئی تعلق شریعت سے نہیں ہے اور اگر کسی قوم کی مشابہت اختیار کر نے کی ممانعت کو سامنے رکھیں تو یہ ممنوعات کے ذیل میں ہی آئے گا ؛ اس لیے ہمیں اس سے بچنا چاہیے یہ شرعی تقاضوں کے زیادہ قریب ہے۔ اس لیے اس رات میں عبادت کا اہتمام کرنا اور پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا تو ثابت ہے ،قبر ستان کی حاضری سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، اس رات کی فضیلت سے متعلق احادیث ترمذی، ابو داؤد ، نسائی، دار می، مؤطا ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں مذکور ہیں ، اور اس کثرت سے ہیں کہ اس کے ثبوت میں کلام نہیں کیا جا سکتا ہے ، البتہ شریعت کے مدارج کو سمجھنا چاہیے اور اسے مستحب سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، سماج میں اگر کوئی مسلمان اس رات کی فضیلت کا انکار کرتا ہے، روزہ نہیں رکھتا ہے تو اس پر لعن طعن کرنا اور اس کو جھگڑے کا سبب بنا نا قطعاً درست نہیں ہے۔اسی طرح اس رات کو لہو ولعب میں گذارنا نہیں چاہیے، پٹاخہ ، آتش بازی اور چراغاں سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ سب شیطانی کام ہیں، جس سے عبادت کے فوائد کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
(بشکریہ نقیب)