کلیم الحفیظ
کوئی فرد ہو یا قوم جب اپنے مقام اور منصب سے ناواقف ہوتی ہے تو خود بھی اپناکوئی فائدہ نہیں کرتی اور دوسروں کے لیے بھی غیر مفید ہوجاتی ہے۔اس سے بھی بڑھ کر اگر کہا جائے کہ وہ اپنے لیے بھی مشکلات پیدا کرتی ہے اور دوسروں پر بھی بوجھ بن جاتی ہے۔بھارتی مسلمان آج کل کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں۔وہ اپنا مقام اور منصب بھول بیٹھے ہیں اس لیے نہ اپنے لیے مفید ہیں اور نہ غیروں کے لیے۔
مسلمانوں کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ وہ دیگر اقوام کی طرح کوئی قوم نہیں ہیں۔دیگر اقوام کی طرح سمجھنے کی غلطی کی وجہ سے ہمارا مرض علاج کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔دیگر اقوام کے مسائل کا جو حل ہے ضروری نہیں کہ وہی حل ہمارے مسائل کے لیے بھی مفید ہو۔ دوسری قوموں کے سامنے کوئی اخلاقی نظام نہیں ہے۔ان کے سامنے حرام اور حلال کی حدیں نہیں ہیں۔ان کے نزدیک دنیا ہی سب کچھ ہے۔ان کا اخلاق انھیں سچ بولنے کی اسی حد تک اجازت دیتا ہے جس میں ان کا نقصان نہ ہو۔اگر ذاتی،قومی یا ملکی مفاد کی خاطر جھوٹ بولنا پڑے تو جھوٹ بولنا ہی ان کا اخلاق ہے۔ان اقوام نے ملک اور قوموں کو تباہ کرڈالا،ملکوں پر بم برسائے،ان اقوام کی دواساز کمپنیوں نے اپنے مفاد کی خاطر نئی نئی بیماریاں ایجاد کیں۔غرض ان کی معیشت سے لے کر سیاست تک صرف اس فارمولے پر قائم ہے کی اپنا نقصان نہ ہو۔اس کے برعکس امت مسلمہ کے پاس ایک اخلاقی نظام ہے۔حرام و حلال کی قیود ہیں وہ ہر حال میں سچ بولنے کے پابند ہے خواہ اپنا یا اپنی قوم کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہوجائے۔ اس امتیاز کی وجہ سے زمین اور آسمان والوں کا رویہ ہمارے ساتھ مختلف ہے۔
اس امتیاز اورجدا گانہ حیثیت کی بنا پر ہماراطرز زندگی بھی جداگانہ ہوگا۔ تعلیمی نظام بھی مختلف ہوگا،ہمارا معاشی نظام بھی جدا ہوگا،ہماری سیاست بھی الگ ڈھب پر ہوگی۔خدا بیزار،اخلاق سے عاری نظام تعلیم ہمارے لیے جہالت سے بھی زیادہ خطرناک ہوگا اور اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں۔اسی نظام تعلیم کے بارے میں اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا۔
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جنھیں پڑھ کر کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ہمارے اخلاقی نظام کے تحت ہماری معیشت و سیاست بھی دنیا کے لیے مثالی نمونہ ہوگی ۔کاروبار میں فریب،دھوکا،ملاوٹ اور غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کو معاشرے میں کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔سیاست اپنی تمام حقیقی جمہوری اقدار کے ساتھ جلوہ نما ہوگی اور اقتدار کا حصول اپنے عیش کے لیے نہیں بلکہ عوام کو آرام پہنچانے کے لیے ہوگا۔منصب کا استعمال عوام کے درمیان ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم کرنے کے لیے ہوگا۔
عام طور پر ہماری پسماندگی کا سبب ہماری جہالت اور غربت قرار دی جاتی ہے۔مجھے اس سے انکار نہیں کہ یہ دونوں اسباب ہماری پسماندگی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں مگر میرے نزدیک ہماری ذلت،رسوائی اور پسپائی کا سبب یہ ہے کہ ہم اپنا مقام بلند بھول گئے ہیں۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد اور مال دار سماج میں بھی وہ بڑی بڑی خرابیاں موجود ہیں جن کی موجودگی ہمارے اخلاق سے میل نہیں کھاتیں۔
مقام و منصب سے عدم واقفیت کا ہی سبب ہے کہ ہمارے دیندار طبقے نے دنیا سے کنارہ کشی اور لاتعلقی کو نیکی بلکہ ولایت کا مقام سمجھ لیا۔ دوسری طرف اسی وجہ سے ہمارے سیاسی رہنماوں نے ایوان سیاست سے اخلاقی اقدار کو باہر کردیا اور کہہ دیا کہ جنگ اور سیاست میں سب جائز ہے۔ امت مسلمہ کے افراد نے اپنی سیاسی قیادت کے لیے ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جن کے یہاں اپنی قوم کے مفاد کی خاطر کسی کا بھی گلا کاٹا جاسکتا تھا۔غرض اپنے حقیقی مقام سے عدم واقفیت نے ہمیں غیروں کی ذہنی غلامی میں مبتلا کردیا۔ہمیں خود پر بھی اعتبار اور اعتماد نہ رہا۔ہمارے اندر اونچ نیچ کے بیج بودیے۔ہمارے درمیان ان تمام رسوم و رواج اور بدعات نے جنم لے لیا جن کو ختم کرنے کے لیے خود امت کو وجود بخشا گیا تھا ۔
ہمارا اصل مقام یہ ہے کہ ہم اس زمین پر آسمانی سلطنت کے نمائندے ہیں۔ہمارا منصب یہ ہے کہ ہم دنیا میں عدل و انصاف کو قائم کرنے اور ظلم و نا انصافی کو دور کرنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں۔جب تک ہم اپنے مقام اور منصب کا حق ادا کرتے رہے کم تعداد کے باوجود عزت دار رہے،کم تعلیم کے باوجود دنیا کی رہنمائی کرتے رہے،غربت اور فاقہ کشی کے باوجودہمارا ڈنکا بجتا رہا لیکن جب ہم اپنے اس مقام کو بھول گئے تو قسمت نے ہمارے ہاتھوںمیں کاسۂ گدائی تھما دیا اور در در کا بھکاری بنا دیا۔ہم اپنا علم بلند کرنے کے بجائے اغیار کے جھنڈے اٹھانے لگے۔دوسروں کے حقوق کی پاسبانی کرنے کے بجائے ہم اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے۔
ہم اگر اب بھی اپنا مقام پہچان لیں تو بہت سی کمزوریوں اورخرابیوںکو دور کرسکتے ہیں اور مزید ناکامیوں سے بچ سکتے ہیں۔جب آپ کو معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کا مقام اور منصب کیا ہے تو پھر اسی مقام و منصب کے مطابق آپ اپنی تیاری کرتے ہیں۔ایک طالب علم اگر یہ جان جائے کہ اسے ڈاکٹر بننا ہے وہ اسی کے لیے تیاری کرتا ہے۔اسی طرح مسلم امت اگر یہ جان جائے گی کہ اس کو خیر امت بننا ہے تو پھر وہ اسی راہ کی طرف اپنا سفر کرے گی۔ امت مسلمہ کی اصل کامیابی زمین پر عدل و انصاف قائم ہوجانے میں ہے۔اس مقصد عظیم کے لیے اسے دنیا کے عیش و آرام کو کھونا پڑتا ہے۔ناانصافی اور ظلم کے علم بردار نظام کے پیش کردہ مناصب کو ٹھکرانا پڑتا ہے۔بلکہ وہ اپنے مقصد کے لیے قید و بند کے مصائب کو برداشت کرتی ہے اور صلیب و دار کو خوش آمدید کہتی ہے۔جب امت مسلمہ خیر امت کا شعور حاصل کرلیتی ہے تو ہر ظلم کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔اس کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہیں ہوتا بلکہ وہ اقتدار کو حاصل ہی ظلم کو ختم کرنے اور عدل کو قائم کرنے کے لیے کرتی ہے۔
اس وقت بھارت کے مسلمان ملک میں اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔آزادی کے بعد سے ہی انھوں نے مختلف راستوں سے اپنی عزت اور غیرت کی حفاظت کے لیے کوششیں کیں۔یہاں کے سیاسی نظام کے تحت انھوں نے اپنے حقوق کے حصول کی جدو جہد کی لیکن آج آزادی کے چوہتر سال بعد بھی وہ وہیں کھڑے ہیں جہاں آزادی سے پہلے کھڑے تھے۔ بلکہ آج بالکل حاشیے پر پہنچ گئے ہیں۔ ہربار نیا مداری آتا ہے اور جادو کے زور پر بے وقوف بنا کر چلاجاتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا مقام پہنچانیں،اپنے منصب کو جانیں اور اس منصب کے مطابق اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ ہماری بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی ہوئی ہے،ہماری منزل نیل گگن کے پارہے،ہماری قوت کا سرچشمہ ہمارا ایمان ہے۔ وفاداری،جاں نثاری،خیر اور بھلائی ہمارے خمیر میں شامل ہے ۔ہماری تخلیق و تعمیر کے یہ عناصر ہمیں دوسری قوموں سے الگ کرتے ہیں۔ہماری اپنی تہذیب ہے،ہماری ایک روشن تاریخ ہے۔جس پر ہمیں ناز ہے۔یہ وہ سرمایہ ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے۔ہمیں یقین ہے کہ ہم دنیا کو امن و انصاف سے روشناس کرائیں گے۔
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی