تحریر: ہلال احمد
ذات پر مبنی مردم شماری پر جاری بحث نے غیر ہندو ذات برادریوں خصوصاً مسلمانوں کی موجودگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی طبقے نے بالآخر سماجی سطح پر ہندو مرکزیت کا تصور اپنا لیا ہے ، جس کا مقصد ذات پر مبنی پسماندگی کی پیمائش کرنا ہے ، صرف ہندو ازم کی اصلاح کرناہے۔
پسماندہ مسلم سیاست: جسے اکثرغلطی سے مسلم ذاتی واد سمجھ لیا جاتاہے ۔ مسلم دلتوں اور پسماندہ طبقات کے جان بوجھ کر دانشورانہ اور سیاسی طور سے باہر رکھے جانے کو چیلنج دیتی ہے ۔ پسماندہ مسلم طبقے ذات پر مبنی مردم شماری کو ،اپنی شناخت کی سیاست کے ایک لازمی پہلو کے شکل میں دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ سیکولرزم کا ایک متبادل مفروضہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ ان کانعرہ ہے :’’ دلت پچھڑا یکساں ،ہندو یا مسلمان‘‘ پسما ندہ مسلم سیاست کی واپسی ، خاص کر بہار میں کو کم کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہ ہمیں سیکولرزم سیاست کے ایک متبادل نیرٹیو کو آگے بڑھانے کا نظریہ پیش کرتا ہے ۔
مردم شماری اور مسلمانوں کے بارے میں تین غلط فہمیاں
پسماندہ گروپوں کی جانب سے دی گئی دلائل کو سمجھنے کے لیے آپ کو ذاتی پر مبنی مردم شماری کے بارے میں تین بڑی غلط فہمیاں دور کرنی ہوں گی۔
سب سے پہلے ، ذات پر مبنی مردم شماری صرف ہندو دھرم کے بارے میں نہیں ہے، مسلمانوں کے درمیان ذات کی موجودگی ایک تاریخی حقیقت ہے، جسے ہمارے پالیسی سازوںنے ہمیشہ سے مانتے آرہے ہیں۔ بلکہ منڈل کمیشن نے غیر ہندو برادریوں میں دیگر پسماندہ طبقات ( او بی سی ) کی حیثیت کے تعین کے لیے ایک فارمولہ رکھا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دلتوں اور پچھڑی ذاتیوں کو ،مرکزاور ریاست دونوں کی او بی سی فہرستوں میں رکھا گیا ہے ۔
دوسری، ذات پر مبنی اعداد وشمار جمع کرنے کے لیے یو پی اے سرکار کے ذریعہ لائی گئی ایک متبادل طریقہ سماجی -معاشی اور ذات پر مبنی مردم شماری ( ایس ای سی سی ) 2011 میں دھرم کو ایک طبقہ کے طور مانا گیا ، اس سروے میں ’ملک کے سماجی- معاشی پسماندگی کی نوعیت کو منصوبہ بند کرنے کے لیے مسلم دلت پسماندہ برادریوں کی گنتی کی گئی۔ اس لئے کچھ ذات پر مبنی مردم شماری حامی او بی سی لیڈروں کا یہ دعویٰ کہ اس قواعد کا مقصد پسماندہ ہندوؤں کی سماجی- معاشی صورت حال کا اندازہ لگانا ہے ۔ سراسر غلط ہے ۔
تیسری، مسلم ذاتوں کی گنتی کرنا کوئی فرقہ وارانہ عمل بالکل بھی نہیں ہے ۔ مذہبی وار آبادی کےاعدادوشمار کو جاری کرنے کا ہمیشہ سےہی ایک سرکاری تاکید رہاہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ ہم سرکاری طور سے ایک سیکولر عوامی پالیسی پر عمل کرتے ہیں ۔تمام حکومتیں مذہب پر مبنی آبادی کے اعداد و شمار کو بے شرمی سے شائع کرتی ہیں ، جس سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی مباحثے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
جولائی 2021 کے آخری ہفتے میں ایک تنازع پیدا ہوا۔ بہار قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تیجسوی یادو کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو خط لکھا۔ ذات پر مبنیمردم شماری کی پالیسی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یہ تجویز دی گئی کہ وزیر اعلیٰ کو ایک جماعتی وفد کے ہمراہ نریندر مودی سے ملنا چاہیے اور دباؤ بڑھانا چاہیے۔
ہندو پسماندگی پر زور شاید اس خط کا سب سے دلچسپ پہلو تھا۔ اس نے دلیل دی گئی اگر ذات پر مبنیمردم شماری نہیں کی جاتی ہے تو پسماندہ؍بیشتر پسماندہ ہندوؤں کی معاشی اور سماجی ترقی کا صحیح اندازہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ہمارے پاس مناسب پالیسی اقدامات ہیں۔
آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ ( اے آئی پی ایم ایچ ) نے ذات پر مبنی مردم شماری کی اس ایک طرفہ اور کھلے طور سے ہندو مرکزیت سیاسی تشریح پر سوال اٹھایا ہے ۔ سابق رکن اسمبلی اور اےآئی پی ایم ایچ کے سابق صدر علی انور انصاری نے ایک بیان جاری کرکے پسماندگی کو فرقہ وارانہ رنگ دیئے جانے کی تنقید کی ۔
ذات پر مبنی مردم شماری کے حق میں یہ تین وسیع دلائل ہمیں اس مسئلے پر موجودہ عوامی بحث سے آگے لے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاسی طبقے اور عوامی دانشوروں کے برعکس ، پاسماندہ سیاست نے عوامی پالیسی اور مثبت عمل کے عقلی سیکولر نظریات کو نہیں چھوڑا۔