عبد السلام عاصم
سماجی بحث کا موضوع انسانی بہبود ہونا چاہئے، مذاہب نہیں۔ کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، سماجی زندگی میں اُسے ایک دوسرے کے خیر کا سبب بطور انسان بننا چاہئے، جس میں اُسے اپنے مذہب کی تائید بہر حال حاصل رہے گی۔ دوسری طرف اگر کوئی شرپسند معاشرے کے امن میں خلل ڈالتا ہے تو بطور ملزم؍مجرم اُس کی گرفت اُس کے کرم کے حساب سے کی جائے، دین دھرم کے حوالے سے نہیں۔ غرض سماجی جرائم کی کسی بھی واقعے کو مذہبی رنگ میں ہرگز نہ پیش کیا جائے اور حق گوئی کے نام پر کسی بھی واقعے کو ہرگز ہرگزغیرذمہ دارانہ طریقے سے ہینڈل نہ کیا جائے۔
اخبارات ‘ہندو نوجوان کا قتل’ اور ‘مسلم لڑکی کی آبرو ریزی‘ جیسی سرخیوں سے مطلق گریز کریں کیونکہ محرک کچھ بھی ہو، مقتول اور مظلومہ دونوں وحشی انسانی درندگی کا شکار ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر تشدد کا کوئی واقعہ فرقہ وارانہ نوعیت کا نظر آئے تب بھی متن میں زیادتی کرنے والے سے نفرت کے مبصرانہ اظہارسے قطعی گریزکیا جائے اور مظلوم سے ردعمل رُخی ہمدردی نہ دکھائی جائے۔ یہاں تک کہ مذمتی بیان کو بھی کسی کے منھ میں ڈال کر اِس طرح نہ نکالا جائے کہ تحمل نہ رکھنے والوں کو پڑھتے ہی شدید غیض والی اُبکائی آنے لگے۔ نامہ نگاروں کو چاہئے کہ وہ ہر نامے کو لکھنے سے پہلے لازمی طور پر ممکنہ ردعمل اور اندیشے کو سامنے رکھیں اور سنبھل کر قدم یعنی قلم اٹھائیں۔ ویسے بھی جس معاشرے میں اچھی خبروں کی قلت ہو وہاں اِس رُخ پر اور بھی زیادہ احتیاط سے کام لینے لی ضرورت ہے۔
اِس میں کوئی اختلاف نہیں کہ صحافت ایک پیشہ ہے اور نامہ نگار کیلئے لازم ہے کہ وہ خبر کی سُرخی ایسی لگائے کہ قاری اُسے پڑھتے ہی متن کی ندی میں چھلانگ لگادے۔ لیکن صحافی کو یہ بھی جاننا چاہئے کہ کسی آلودہ ندی کی سرخی گمراہ کُن لگا دی گئی تو اُس میں اترنے والے کی خیر نہیں۔ صحافت کا کاروبار سماجی صحت سے جڑا ہوا ہے، اِس لئے اس میں صحت بگاڑنے والی اشتہاری دواؤں کی طرح کشش پیدا کرنے سے بچا جائے۔ بصورت دیگر ایسی حرکتوں سے صرف سماج کے دھندے باز طبقے کو محدود فائدہ اورپورے سماج کو لامحدود نقصان پہنچے گا۔
بدقسمتی سے ورنا کلر اخباروں میں کسی بھی واقعے کی سرخی اِس طرح لگائی جاتی ہے کہ پڑھنے والا ایک حلقہ خوش تو دوسرا ایکدم سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اگر تعلق کی فضا ایک اخباری سرخی ”بگاڑ” سکتی ہے تو کیوں نہ اخباری اہلِ قلم ماحول کو حسبِ توفیق بہتر ’بنانے‘کا ہنر ہی آزمائیں۔ ابھی چند روز قبل پاکستان کے سائنس داں ہود بھائی کی ایک تعلیمی بحث میں ”برقع“ کا اخباری ذکر اس قدر منفی رنگ میں کیا گیا کہ مقصد ہی فوت ہو گیا۔ ویسے بھی ہمارے یہاں برقع کی موافقت اور مخالفت کی خبریں جتنی کشش رکھتی ہیں، روٹی، کپڑا اور مکان سے کسی کی محرومی کے واقعات و سانحات کی خبروں میں اتنی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔
یہ صورتحال ورنا کلر اخباروں نے از خود نہیں، ان کے ذریعہ شعبدہ بازوں نے پیدا کی ہے۔ جذباتی نامہ نگار اُن کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ اب تو انگریزی کے بھی کچھ اخبارات اور چینل ”دِکھتا ہے تو بکتا ہے“کے بازاری فلسفے پر عمل کرنے لگے ہیں۔ سوشل میڈیا کی بے راہ روی کو جن مقتدرین سے لگام دینے کی امید تھی وہ بظاہر اُن کی بے راہ روی سے خود استفادہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے میں برقع اور ’لِپ اسٹک اِن دَ برقع‘ دونوں کی بے ہنگم مخالفت اور موافقت نے عدم برداشت میں شدت پیدا کی ہے۔ حالانکہ ہر پڑھے لکھے آدمی کو یہ جاننا چاہئے کہ بنیادی طور پر عورت اور مرد دونوں انسان ہیں، بالترتیب ’سامان‘ اور’انسان‘ نہیں۔ اسی طرح شرم، احترام اور عزت کی جگہ بھی آنکھیں ہیں کسی اور کا جسم نہیں۔ لیکن اِن تینوں چیزوں کوجب جسم کے خطوط میں ڈھونڈنا شروع کیا جاتا ہے تو یہ عمل تصور میں کچھ زیادہ ہی ہیجان پیدا کرتا ہے۔بہر حال نہ تو موجودہ تبدیلی اچانک آئی ہے اور نہ کوئی اچھی تبدیلی ایکدم سے آئے گی۔ تغیر پذیرزمانہ لازمی طور پر بدلے گا،لیکن بدلنے تک موجودہ عہد کو جھیلنا ہی ہوگا۔ ایسے میں مٹھی بھر پڑھے لکھے اور جاننے اور سمجھنے والوں کو اپنے بچوں کے اُس عہد کو بچاناہے جو عہد ہمارے لئے ماننے اور منوانے والے کچھ ہمارے ہی بزرگوں کے عمل کا تازیانہ ثابت ہوا۔ یہ بڑا ہی آزمائشی مرحلہ ہے۔ اس میں اُن لوگوں کو جو فطرت کے تقاضے سے غیر ہم آہنگ باتوں سے اتفاق نہیں کرتے، انتہائی ضبط سے کام لینا چاہئے، یعنی اپنے عدم اتفاق کو ہر گز نزاعی شکل میں سامنے نہیں لانا چاہئے۔
اتر پردیش سمیت ایک سے زیادہ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی سلسلہ وار تیاری کے مرحلے میں اخبارات کا زیادہ فعال ہوجانا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی اس کی ایک سے زیادہ جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ دوڑ پہلے بھی کسی نہ کسی لحاظ سے غیر صحتمند رہ چکی ہے لیکن پہلے کا ماحول فرقہ وارانہ منافرت میں اتنی شدت پیدا نہیں کرتا تھا، جتنی آج پائی جاتی ہے۔ اِس وقت تو ’ابا جان‘ سے ’طالبان‘ تک ماحول خطرناک طریقے سے گرم ہے۔ اس کی تپش پر قابو پانے میں اخبارات انتہائی اہم رول ادا کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ خود اس کا محدود اور وقتی فائدہ اٹھانے کی ترغیب کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔ قوم ایک سرنگ سے گزر رہی ہے جس کے دوسرے کنارے پر یقینی طور پر روشنی ہے لیکن وہ کنارہ ابھی آنکھوں سے اوجھل ہے۔
نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت جی نے ہندستانی مسلمانوں سے لگاتار بات چیت کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی شروعات ہے۔ ترکِ موالات پر بات چیت کو ترجیح دینے سے امکانات کے در کھلیں نہ کھلیں، اُس رُخ پر بڑھنے سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کچھ وقفے کیلئے ماضی سے پنڈ چھڑا کر ’حال‘ کی بنیاد پر مستقبل کے رُخ پر سوچنے کی توفیق ملتی ہے۔ بھاگوت جی کی بہت سی باتیں تاریخی واقعات کا ایک رُخ سامنے رکھنے والے سابقہ موقف کے برعکس اپنے اندر گنجائشیں رکھتی ہیں۔ مسلم قیادت کے دعویدداروں کواُن گنجائشوں میں بہرحال کمی نظر آرہی ہے۔ ہندستان میں اسلام کیسے پھیلا؟ یہ سوال اس بات سے زیادہ اہم بنا ہوا ہے کہ انسانوں پر ظلم سے نجات کیلئے بین مذاہب اچھی تجاویز کا قابل عمل انتخاب کیسے سامنے لایا جائے! اس کیلئے سبھی کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ تو کیا آنے والے دنوں میں بھاگوت جی اور اُن کی باتوں سے کہیں اتفاق اور کہیں اختلاف رکھنے والے لوگ مل کر ایک ایسے اتفاق کی طرف بڑھیں گے جو صحتمند اختلاف کا آئینہ دار ہو۔
ایسے میں دلوں کی گہرائیاں اپنا اثر اُسی وقت دکھا سکتی ہیں جب دونوں طرف خال خال بچے لوگ جو سیکولرسٹوں کی فرقہ وارانہ شرارتیں دیکھ چکے ہیں، موجودہ حکومت کے ذمہ داروں کو کسی طور اعتماد میں لیں اور انہیں مذاہب کے بہ انداز دیگر بے جا استحصال سے روکیں۔ حکمرانوں کو کسی طور یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ روٹی، کپڑا اور مکان سے لوگوں کی محرومی ختم کریں۔ طرز طعام، طرز لباس اور طرز رہائش کے ایک دوسرے کے انتخاب کی آزادی پر قدغن نہ لگائیں۔ مذاہب کو پسند اور ناپسند کے دائرے سے باہر نکالیں۔ حق اور باطل کا معیار پسند اور نا پسند کو نہ بنائیں۔ اگر سب اپنی شرط پر ہی جینا چاہیں گے تو اجتماعی معاشرے کے حق میں یہ کسی طور فال نیک نہیں ہوگا۔ جیو اور جینے دو کا فلسفہ ہر مذہب میں موجود ہے۔ اس کے بوسیدہ ابواب سامنے لائے جائیں۔ حکومتوں کو یہ ماننے کیلئے احتجاج کے ذریعہ مجبور نہیں، تفہیم کے ذریعہ آمادہ کیا جائے کہ وہ انسانوں سے بہتر اور برے سلوک پر نظر رکھنے تک قانون کا دائرہ محدود کرے۔ رنگ اور نسل، ذات اور مذہب کے تعلق سے انسانی سوچ کا فیصلہ خدا / بھگوان پر چھوڑ دیا جائے۔ یعنی جو لوگ خدائی اختیارات سے بہ زعم خود لیس ہیں وہ تائب ہو جائیں، بس۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)