تحریر:ڈاکٹر سلیم خان
وطن عزیز میں جہاں ایک طرف کورونا کا قہر دم توڑ رہا ہے وہیں دوسری جانب اسلاموفوبیا کا زہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ اسلاموفوبیا ایک ایسی عالمی وباء ہے جو سب سے زیادہ جمہوری ممالک میں پھلتی پھولتی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت کی ویسے تو کئی قسمیں ہیں مثلاً مکمل جمہوریت ، نیم جمہوریت اور آمرانہ یا شاہانہ جمہوریت وغیرہ وٖغیرہ۔ اس میں اہم ترین اضافہ فسطائی جمہوریت ہے۔ ویسے یہ ہٹلر کے زمانے سے موجود ہے مگر درمیان میں کچھ دب سی گئی تھی۔ ان جمہوری ممالک کی فہرست میں ایک تو عظیم ترین جمہوریت امریکہ ہے جبکہ ہندوستان کو وسیع ترین جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کے علاوہ ذہین ترین جمہوریت اسرائیل ہے اور حسین ترین جمہوریت فرانس کو کہہ سکتے ہیں۔ ا تفاق سے ان چاروں ممالک میں اسلاموفوبیا کا بول بالا ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کے اسلاموفوبیا میں ایک فرق یہ ہے کہ یہاں تین چارسوسال پرانی ظلم و ستم کی کہانیاں گھڑ کر ذہنوں کو پراگندہ کیا جارہا ہے مگر امریکیوں کی موجودہ نسل نے اپنی آنکھوں سے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورس کوڈھاتے ہوئے دیکھاہے۔ دوسرا فرق یہ ہے امریکہ کے مقابلے میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کا تناسب کم از کم پندرہ گنا زیادہ ہے ۔ اس کے باوجود اگر امریکہ کےمسلمان بیس سال کے اندر اس پر قابو پانے میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے تو ہندی مسلمانوں کو ہر ہفتے میں دوبار نسل کشی کی ویڈیو دیکھ دیکھ کر مایوس ہونے کی چنداںضرورت نہیں ہے۔ جس رب کائنات نے امریکی مسلمانوں کی مشکل ترین دور میں نصرت کی وہی ہمارا کارساز بھی ہے۔
11 ستمبر 2001سے 6 جنوری 2021 تک کےطویل سفر میں امریکی رہنماوں کو یہ انکشاف ہو گیا کہ ان کی قومی سلامتی کا سب سے بڑا دشمن باہر نہیں بلکہ اندر ہے۔ براک اوبامہ اور جارج ڈبلیو بش کے ساتھ کام کرنے والے سابق سی آئی اے تجزیہ کار کے الفاظ میں 11 ستمبر کا دور6 جنوری 2021کو ختم ہوگیا ۔ اس حقیقت کا نادانستہ احساس کروانے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی رعونت شکریہ کی مستحق ہیں۔ اسلامو فوبیا سے متعلق منظور ہونے والے حالیہ امریکی قانون میں اس خطرے کے اعتراف کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ جو بائیڈن نے صدر بننے کے بعد مشیگن کی رکن کانگریس ایلیسا سلوٹکن کو داخلی تحفظ کے محکمہ کی ایک ذیلی کمیٹی کا صدر بناکر اس مسئلہ کا حل سجھانے کی ذمہ داری سونپی ۔ انہوں یہ اعتراف کیا امریکہ کے لیے غیر ملکی دہشت گرد واحد سب سے بڑاخطرہ نہیں ہے۔ بیرونی دہشت گردی کا مفروضہ پرانا ہوچکا ہے ۔ کیپٹل ہل پر حملے نے ثابت کردیا ہے کہ گھریلو پرتشدد انتہا پسندی امریکی قومی تحفظ کے لیے عظیم ترین خطرہ ہے۔ان حملہ آوروں میں 300 کے خلاف دنگا فساد کےمقدمات درج کیے گئے ہیں۔اس جرم میں ملوث دو درجن سازش کرنے والوں کا تعلق بائیں بازو کےانتہا پسند مسلح گروہوں(ملیشیا) سے ہے ۔
ایلیساسلوٹکن کے مطابق یہ سفید فام نسل پرست انتہا پسند مستقبل میں بھی حملے کرسکتے ہیں ۔ ان لوگوں نے کورونا کی پابندیوں کے خلاف مشیگن کی سرکاری عمارت پر مسلح احتجاج کیا تھا اور ان پر گورنر گریشن وہٹمر کے اغواء کا بھی الزام لگا تھا۔ سلوٹکن کی تائید میں کمیٹی کی رکن شیلا جیکسن کہتی ہیں کہ 2009 سے 2018 کے درمیان امریکہ میں انتہا پسندی سے متعلق 427 ہلاکتیں ہوئیں ۔ ان میں سے313 یعنی 73.3 فیصد قتل بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے کیے اور 23.4 فیصدہلاکتیں اسلامی انتہاپسندوں کے ہاتھوں ہوئیں ۔ 3.2 فیصدقتل دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے بھی کیے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر 4 میں 3 قتل سفید فام نسل پرستوں کا کارنامہ تھا۔ انہوں نے ان انتہاپسندوں کی خونی تاریخ کا حوالہ دے کر کہا کہ یہ اقلیتوں کے قتل عام کا نظریہ رکھنے والے یہ لوگ اس کا فخریہ اظہار کرتے ہیں ۔ شیلا نے یہ چونکانے والا انکشاف بھی کیا کہ کیپٹل ہل حملے میں سو سے زیادہ فوجی یا سابق فوجی شامل تھے۔ امریکہ کے اندر روزافزوں اسلاموفوبیا کے لیے بھی یہی لوگ ذمہ دار ہیں۔
دنیا کے مہذب ترین امریکی معاشرے میں تشدد کا رحجان کا اندازہ اس بات سے کیا جاتا ہے کہ گزشتہ سال4؍جولائی کے آخر ہفتہ میں233 ؍ افراد قتل اور618؍ زخمی ہوئے مگر اس پر کوئی تشویش کا اظہار نہیں کرتا کیونکہ مغرب کے نزدیک اپنے لیے یا اپنوں کی خاطر معیار مختلف ہے اور غیروں کو وہ الگ پیمانے سے ناپتے ہیں ۔ وہ خود تو بڑے آرام سے اونٹ نگل جاتے ہیں لیکن دوسروں کی مکھی چھانتے ہیں ۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ذریعہ منظور کردہ اسلاموفوبیا کی نگرانی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک خصوصی مندوب مقرر کرنے سے متعلق قانون سازی کی بحث میں سامنے آنے والے حقائق اس کا تازہ ترین نمونہ ہے۔ ویسے کانگریس میں 219 ڈیموکریٹک اراکین نے 212 ریپبلکنز کے مخالفت باوجود اس قانون کو منظور کروانے میں کامیابی حاصل کرلی مگر قوی امکان ہے کہ امریکی سینیٹ اسے مسترد کردے کیونکہ ان دونوں مقامات پر صورتحال متضاد ہے۔ ایوان نمائندگان میں جس جماعت کو اکثریت حاصل ہے وہ سینیٹ کے اندر اقلیت میں ہے ۔ جمہوری نظام میں اور معیار حق کا دارومدار دلائل اور ضمیر کی آزادی نہیں بلکہ پارٹی سے وفاداری ہے۔ سیاسی مفاد و عصبیت بھی اپنا مخصوص کردار ادا کرتے ہیں اور اکثریت کی رائے سےایک مجلس کا حق دوسری میں باطل ہوجاتا ہے۔
امریکہ کے اندر گیارہ ستمبر 2001کے بعد سے اسلاموفوبیا کو نہایت منظم انداز میں عالمی سطح پر پھیلایا گیا ۔ بیس سال کے بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کو دنیا بھر میں پھیلنے والے اسلاموفوبیا کا احساس ریپبلکن قانون ساز لارین بوئیبرٹ کے اس بیان سے ہوا کہ جس میں انہوں نے الہان عمر کو ایک مسلمان دہشت گرد سے تشبیہ دے دی ۔ خیر ’دیر آید درست آید‘ کی مصداق اس بل کو 2 قانون سازارکان نے پیش کیا ۔ان میں ایک تو خود الہان عمرتھیں جو ایوان کے مسلم اراکین میں سے ایک ہیں اور اکثر نفرت آمیز بیانیے اور قتل کی دھمکیوں کا سامنا کرتی رہتی ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری رکن جین شیکوسکی شگاگو کے مضافات سے تعلق رکھنے والی 77 سالہ سفید فام یہودی خاتون ہیں۔ اس طرح امریکہ کے اندر اکثریتی مسیحیوں کی زیادتی کے خلاف مسلم اور یہودی اقلیت سے تعلق رکھنے والی دو خواتین نے اپنی مشترکہ صدائے احتجاج بلند کی۔
ان دوارکانِ کانگریس میں سے ایک سیاہ فام اور دوسری سفید فام ہے۔ ایک افریقہ کے صومالیہ سے آتی ہیں دوسری کے والدین مشرقی یوروپ سے آئے تھے مگر ظلم و ناانصافی نے دونوں کی متحدہ جدوجہد خوش آئند ہے۔ جین شیکوسکی نے نہ صرف بل پیش کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اس کی منظوری کے لیے بھرپور مہم بھی چلائی۔ ان کی دلیل یہ ہے وہ مسلمانوں کو ان کے عقیدے کی وجہ سے نشانہ بنائےجانے کے خلاف ہیں۔ جین کا دعویٰ ہے کہ عالمی سطح پر ڈرامائی انداز میں اسلاموفوبیا کے واقعات بڑھے ہیں ۔ امریکہ میں اسلاموفوبیا کے 500 سے زائد واقعات کا اندراج ہوچکا ہے۔ اس کے سبب لوگ نہ صرف ایک دوسرے کو برا بولتے ہیں بلکہ تشدد کی جانب گامزن ہیں۔ ہندوستان کے تناظر میں بلی بائی اور سلی ڈیل جیسے ایپ یا دھرسنسد میں دی جانے والی نسل کشی کی دھمکیاں جین شیکوسکی کی تائید کرتی ہیں ۔
اسلاموفوبیا کے بل پر امریکی ایوان نمائندگان میں ہونے والی بحث سے ریپبلکن ارکانِ کانگریس کی ذہنیت کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس بل پرجاری بحث اس وقت معطل ہوگئی تھی جب اسکاٹ پیری نے الہان عمر کو یہود مخالف قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ ان کے تعلقات دہشت گرد تنظیموں سے ہیں حالانکہ وہ بھول گئے اسے پیش کرنے والوں میں ایک یہودی ہے۔ اسکاٹ پیری نے اس بل سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ بل میں ’اسلاموفوبیا‘ لفظ کی وضاحت نہیں ہونے کی وجہ سے یہ قانون سازوں کو ان کی ’سیاسی سازشوں‘ کے مطابق تشریح کرنے کاموقع دے گا۔ یہ اعتراض اگر درست بھی ہو تو مخالفت کے بجائے وضاحت کا مطالبہ ہونا چاہیے۔ ریپبلکن رکن کانگریس نے خیالی اندیشوں کا اظہار کرے ہوئے کہا کہ یہ بل اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں ایک ایسا دفتر تشکیل دے رہا ہےجو ممکنہ طور پر یہود مخالف نفرت کو ہوا دے گا اور اسلام کے تحفظ کی آڑمیں پوری دنیا کے اندر مغربی نظریات پر حملہ کرے گا۔
اسکاٹ پیری کےا س بے بنیاد تبصرے کو ڈیموکریٹس کی شدید برہمی اور اعتراض کے سبب ایوان کی کارروائی میں سے حذف کرنا پڑالیکن اس طرح کی اوٹ پٹانگ مخالفت مذکورہ قانون کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ اس قانون سازی کا بنیادی مقصد یہ ہے مذکورہ مندوبِ خصوصی پالیسی سازوں کو مسلم دشمنی سے منسلک اسلامو فوبیا کے عالمی مسئلے کو بہتر طور پر سمجھانے میں مدد کرے گا تاکہ اسکاٹ پیری جیسے لوگ ہوش کے ناخون لیں ۔ اس کے علاوہ یہ مندوب امریکی قیادت کے لیے دنیا بھر میں اسلاموفوبیا سے لڑنے کے ایک جامع حکمت عملی بھی تجویز کرے گا ۔اسلاموفوبیا کی خوفناکی کا اعتراف کرتےہوئے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مسلمانوں کے تئیں پھیلنے والی نفرت کو وبا سے تشبیہ دی ہے جو بڑی تیزی کے ساتھ دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ امریکی کا نگریس کا یہ خصوصی مندوب اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی سالانہ انسانی حقوق کی رپورٹ میں حکومتوں کی حمایت سے وقوع پذیر ہونے والے اسلام مخالف تشدد کے واقعات اور اس میں دی جانے والی تائید کی بھی تفصیلات پیش کرے گا۔ ہندوستان میں چونکہ اس طرح کے واقعات میں بے شمار اضافہ ہوا ہے جس کی تازہ ترین مثال گروگرام میں نماز کی مخالفت ہے اس لیے امریکی سرکار کی رپورتاژ ہر سال حکومت ہند کے لیے دردِ سر بن جائے گی لیکن یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ اس سے خود امریکہ کے اندر اسلام کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت انگیزی کے اندر کمی واقع ہوتی ہے یا نہیں ؟ امید ہے کہ امریکہ کے اندر اسلام سرخ روُہوگا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)