قاسم سید
طالبان افغانستان پر بزور طاقت قبضہ کر چکے ہیں یہ ایک حقیقت ہے۔ طالبان بین الاقوامی برادری کی اکثریت کے نزدیک ایک دہشت گرد گروہ ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے وہ اب اسٹیک ہولڈر ہیں اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی 20سال لڑائی، تین کھرب ڈالر اور ہزاروں فوجی گنوانے کے باوجود طالبان کو ختم نہیں کرسکے یہ تلخ سچائی ہے۔ امریکہ نے طالبان کو فریق مان کر دو حہ سمجھوتہ کیا اور فوجی انخلاء پر اتفاق کیا یہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے ۔
’’جاہل،اجڈ،گنوار،وحشی،جلاد صفت،خونخوار،ظالم بے رحم،انسانی حقوق سے بے خبر، عورتوں کی آزادی کے بدتر دشمن ‘‘ فی الحال ہندوستانی خواہشات اور توقعات کے برخلاف افغانستان کی سرکار بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں ۔مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ زبانی جمع خرچ کرنے والے ممالک جن میں امریکہ،جرمنی،فرانس وغیرہ شامل ہیں، بھی اصولی طور پر طالبان سے مذاکرات کی حمایت کررہے ہیں،حتیٰ کہ ہمارا دیرینہ دوست روس اور دیرینہ حریف چین طالبان کو تسلیم کرنے کو بے قرار ہیں ،سابق سوویت یونین کو روس میں سمیٹ دینے والے طالبان اس کے لیے شجر ممنوعہ نہیں رہے،وہ بیس سالہ جنگ اور اس میں عبرتناک شکست کو بھلا کر آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جانے سے خطہ میں جو خلا ہوا ہے اسے روس،چین- پاکستان اور ترکی مل کر پر کرنا چاہتے ہیں ۔ بدقسمتی سےاس میں ہندوستان کی بظاہر کوئی جگہ نہیں ہے۔
ہمارے خطے کی جیو پولیٹکل تیزی سے بدل رہی ہے، دشمن کے دشمن دوست سب کچھ بھلا کر آگے بڑھ گئے ہیں،جہاں تک ہندوستان کا معاملہ ہے وہ ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی پر چل رہا ہے، اس کی کوئی مدت متعین نہیں ،حالانکہ ہم افغانستان کے ہزاروں سال سے قریبی دوست رہے ہیں،طالبان کے تعلق سے ہمارے شدید تحفظات ہیں،ان کا مضبوط پس منظر ہے۔قندھار کا واقعہ ذہن کی اسکرین پر چپکا ہوا ہے،وہیں طالبان کے پاکستان سے گہرے روابط کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔جو وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کے فراق میں رہتا ہے ،اگرچہ کہ طالبان نے کابل پر تسلط کے بعد ہندوستان کے سامنے دوستی کا ہاتھ پھیلا یا ہے اور کوئی مخالف بیان نہیں دیا۔ وہیں معتدل،لبرل چہرہ پیش کرنے کی جدوجہد میں لگا ہے ،مگر ہندوستان بات کرنے کو تیار نہیں بھلے ہی دیگر طاقتور ممالک کے لب و لہجہ میں اب وہ سختی نہیں امریکہ نے حسب عادت وروایت ہمیں دھوکہ دیا نہ امن کے عمل میں شریک کیا اور نہ انخلاء کے وقت اعتماد میں لیا اور اس وقت عملاً ہندوستان سفارتی میدان میں الگ تھلگ پڑگیا ہے،اس کے ساتھ ہندوتوا وادی طاقتیں ریڈیکل ہندو توا کو طالبان کے بہانے اور ریڈیکل کرنے کے امکانات ڈھونڈ رہی ہیں ۔
بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک ریڈیکل اسلام کا مقابلہ رہڈیکل ہندوتوا سے کرنا چاہتی ہیں۔ وہیں حکمراں بی جے پی کا ایک طبقہ طالبان کے ذریعہ انتخابی فوائد ڈھونڈرہا ہے اسے لگتا ہے کہ اس کے سبب بنیادی عوامی ایشو پس منظر میں چلے جائیں گے اور ہندو ووٹر جو دور چلا گیا ہے واپس آجائے گا وہ قومی مفادات کی بجائے انتخابی مفادات کو ترجیح دینا چاہتا ہے خواہ مستقبل میں ہمیں کتنا نقصان کیوں نہ ہو،جبکہ بی جے پی کا سنجیدہ طبقہ ایسا کوئی رسک لینے کے خلاف ہے۔مزید یہ کہ ملک کے سبکدوش فوجی افسروں کا با اثر طبقہ ’راشٹر بھکتی‘ میں ڈوبے ٹی وی چینلوں پر اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید کرتا رہتا ہے وہ طالبان سے کسی بھی قسم کے رشتوں کے سخت خلاف ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ٹی وی چینلز کے سفارتی، جنگی اور خارجہ امور کے ماہر اینکر حضرات کا بس چلے تو وہ کابل جاکر طالبان پر بم برسا کر انہیں نیست و نابود کردیں،وہ ان کی سوچ کے برخلاف بات کرنے والے کو دیش دروہی،راشٹر ورودھی کی گالی تک دینے سے گریز نہیں کرتے،ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر حکومت ایسے جہاں دیدہ ماہر اینکرز کو خاجہ پالیسی ڈیسک کا حصہ کیوں نہیں بنالیتی ۔
وویک کاٹجو جیسے کئی سینئر ڈپلو میٹ جو افغانستان میں سفیر رہ چکے ہیں اگر وہ طالبان سے گفتگو کا مشورہ دیتے ہیں تو ان کو ٹرول کیا جاتا ہے اور ’نکو‘ بنادیاجاتا ہے۔ ایسے لوگوں سے سوال کیا جائے کہ پھر راستہ اور حل کیا ہے تو شور شرابہ کرکے سوال دبا دیا جاتاہے ،کوئی نہیں چاہتا کہ وہ دیش دروہی کے نام سے بدنام کیا جائے۔
معقول بات کہنے والوں کو پہلے پاکستان بھیجا جاتا تھا اب اس میں افغانستان کا نام بھی جڑ گیا ہے،بعض ہندوتوا عناصر جو بیانیہ تیار کررہے ہیں وہ بہت خطرناک اور فرقوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دینے والا ہے،ان حالات میں مسلمانوں کو نشانہ پر لیا جارہا ہے۔ یوپی کے انتخابات میں طالبان کی انٹری ہوگئی ہے۔مسلم لیڈروں کے بیانات پر نظر رکھی جارہی ہے،کئی لوگوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ ہوگیا ہے، ہمارے بعض محسنوں نے طالبان کو ہندی سلام بھیج کر مسلمانوں کی آزمائشیوں کو بڑھا دیا ہے، جہاں دوربین سے بیان کی باریکیاں تلاش کی جاری رہی ہوں وہاں الفاظ کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر کچھ پرجوش لوگ شاید رد عمل میں یا ریڈیکل ہندوتوا کی طرف سے نازیبا تبصروں سے عاجز آکر ایسے باتیں کہہ رہے ہیں، جن سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کی حمایت ہورہی ہے۔دیو بند میں اے ٹی ایس سینٹر بنانے کا اعلان بظاہر انتظامی امور کا حصہ ہے، مگر ٹائمنگ کسی اور طرف اشارہ کرتی ہے۔
جس ملک میں آزادی رائے کے حق کا مفہوم بدل دیا گیا ہو وہاں سوچ سمجھ کرالفاظ کا انتخاب کرنا بزدلی،خوف یا مصلحت نہیں ذہانت اور فطانت کی نشانی ہے،کیونکہ کوئی بھی معاملہ ہو مسلمانوں کو سیاسی ٹول بنالیا جاتاہے۔ طالبان سے رابطہ کرنا ہے نہیں کرنا ہے،کب کرنا ہے کیسے کرنا ہے یہ ہمارے سوچنے کا کام نہیں ،یہ سرکار کو طے کرنا ہے،یہ قومی پالیسی و مفاد کا حساس معاملہ ہے،مشورہ دینے میں کوئی برائی نہیں، مگر اصرار کرنا مناسب نہیں ہے ۔ ہر ہندوستانی کو قومی مفاد کو سامنے رکھنا ہوتا ہے،یہ بہت نازک پیچیدہ گتھی ہے ،بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے جوش میں ہوش نہیں کھونا چاہیے بعض حلقوں سے نادانیاں ہوئی ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ایسا ویڈیو نظر آیا جہاں طالبان لیڈروں کی سرگرمیوں کے ساتھ ’ایک دیو بند کے علما‘ ترانہ ڈالا گیا ،کیا یہ صحیح ہے؟کیا اس طرح کی نادانیوں کی حمایت کی جاسکتی ہے اگر دوسرا کوئی دیوبند سے طالبان کا رشتہ جوڑے تو بجا طور پر اعتراض ہوگا،اس لیے جو کام حکومت کا ہے وہ اس پرچھوڑدینا چاہیے،اس پر بے صبری دکھانا،مبارکباد کے پیغامات ہمارے اصولی موقف کو کمزور کریں گے اور بے قصوروں کی آزمائشیں بڑھ جائیں گی۔
آخری بات جہاں تک طالبان کا تعلق ہے وہ دودھ کے دھلے نہیں ہیں،ان کے ماضی کو ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے،وہ اسلام سے زیادہ قبائلی عصبیت و نظام کو ترجیح دیتے ہیں،جو وہاں کے پیچیدہ قبائلی نظام کو نہیں سمجھتے وہ ان کو اسلام کا سچا نمائندہ سمجھتے ہیں،ان کی سفاکانہ کارروائیوں،خودکش حملوں ،قتل وغارت گری کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔اونچی شلواریں پہننا،نماز پڑھنا ،داڑھیاں رکھنا ہی اسلام نہیں ہے،طالبان اسلام کا نام لیتے ہیں تو اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا۔دیکھنا ہے کہ وہ کس طرح کا شرعی نظام قائم کرتے ہیں،یہ ہندوستانی مسلمانوں کا ہی نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کا امتحان ہے۔ کیا طالبان اسلام کے سچے حقیقی عملی تصور کا مظاہرہ کرنےا ور نفاذ میں کامیاب ہوں گے۔ دنیا اس کا انتظار کررہی ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو بھی صبرو تحمل کے ساتھ اس کاانتظار کرنا چاہئے۔