تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
9/11 کے بعد سے خصوصاً مسلسل یہ کوشش جاری ہے کہ اسلام اور مسلم ملت کی ایک مخصوص مکروہ شبیہ سامنے لائی جائے، تاکہ سیاسی و سماجی، اقتصادی اور تہذیبی و مذہبی طور سے صیہونی و برہمن وادی طرز حیات کا تفوق قائم ہوجائے اور مسلم ملت احساس کم تری و جرم میں مبتلا ہو کر مختلف شعبہ ہائے حیات میں جدو جہد ترک کر دے اور ظلم و زور کے خلاف مزاحمت سے الگ ہوجائے، اس کے لیے پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک اور دیگر ذرائع ابلاغ، گمراہ کن تاریخ نویسی، ادب کا زبردست طریقے سے استعمال کیا جارہا ہے، اس سے مختلف سطحوں پر غلط فہمیوں کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت و تشدد کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے، یہ تقریباً یکطرفہ طور سے ہورہا ہے، مغربی، صیہونی اور برہمن وادی تفوق کے لیے غیر دیانت دارانہ وغیر منصفانہ جارحانہ ابلاغی و ادبی یلغار کے مقابلے کوئی ایسی قابل مطالعہ موثر تخلیقی تحریر سامنے نہیں آرہی ہے، جو صورت حال کے دوسرے رخ کو بھی لا سکے،اپنے اسلوب وسطح کے مطابق مرحوم مشرف عالم ذوقی بڑی حد تک اچھی تخلیقی کاوشیں منظر عام پر لارہے تھے،ہمارے بیشتر ادباءو تخلیق کار بری طرح مادہ پرستی اور سیاست زدگی کے شکار ہوگئے ہیں ، برسوں سے آگ کا دریا، اداس نسلیں ، خدا کی بستی ، راجا گدھ، مکان، شام اودھ وغیرہ کی طرح کوئی تخلیقی ادب سامنے نہیں آیا ہے، اس کی تلافی ، کسی نہ کسی حد تک ذوقی کے آتش رفتہ کا سراغ، مرگ انبوہ،اور مردہ خانے میں عورت سے ہورہی تھی ، پڑوسی ملک میں کئی اچھے تخلیق کار ہیں ، جو عصری مسائل اور سیاسی، سماجی اور تہذیبی رویے اورمنحرف جذبات و خیالات کو ادبی و تخلیقی اسلوب وسطح پر بڑی حد تک کامیابی سے سامنے لا کر ایک جہت دینے کا کام کر رہے ہیں ، لیکن اس میں ایک مخصوص رنگ و آہنگ ہے، جو بھارت جیسے ملک کے سماجی و تہذیبی رویے اور مغربی و صیہونی یلغار کے تناظر میں زیادہ موثر نہیں ہے، نمرہ احمد اور عمیرہ احمد کے کچھ تخلیقی کام بھارت کے ایک حصے میں خاصے پسند کیے جاتے ہیں ، تاہم یہ کرسٹوفر کے مہابھارت کا رہسیہ امیش کے مہاراجا سہیل دیو ، اشونی سانگھی کے روضہ بال و نشاولی ، کال چکر وغیرہ کا مقابلہ کرتے نظر نہیں آتے ہیں ، آب حیات اور نمل وغیرہ ایک خاص ماحول میں چلتا پھرتا اور کام کرتا نظر آتا ہے، اس کے ذریعہ، دیودت پٹنائک، کی آستھا، امیش، اشون سانگھی ،کرسٹوفر کے پھیلائے اثرات و نتائج کا ازالہ مشکل ہے ، پڑوسی ملک کا سماجی و تہذیبی منظر نامہ آج کی تاریخ میں بالکل الگ ہے۔
وہاں سر مایہ دارانہ ، زمیندارانہ اور وڈیرائی نظام کے مطالعہ کی راہ ہموار نہیں ہو پاتی ہے ۔ جب کہ کرسٹوفر ، اشون سانگھی اور امیش، مغرب کی بالاتری اور بھارت کی روایات کے حوالے سے ہندو تو وادی سنسکرتی کو ہندستانی تہذیب باور کراتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردانہ سر گرمیوں سے جوڑ کر ان کی ایک مخصوص مکروہ شبیہ قارئین کے سامنے پروستے اور اپنے مقاصد کو ان کے دل ودماغ میں اتارنے میں کسی نہ کسی طور سے کامیاب نظر آتے ہیں ، کرسٹو فر244 ،ق،م،میں عظیم راجا اشو ک کو ایک قدیم بھیانک راز کا پتا چلتے دکھاتے ہوئے، مہا بھارت کے عہد میں لے جاتا ہے ، جو اتھاہ گہرائی میں سمایا ہوا ہے، راز سربستہ کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک دم چھلانگ لگا کر حال میں پہنچ جاتا ہے ، جس میں مہا بھارت کا تباہ کن راز، موجودہ وقت میں ،ایک جوہری سائنسداں کے دسترس میں آجاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں اس کا قتل ہوجاتا ہے ، یہ ایک دلچسپ تجسس بھرا عمل اور کھیل ہے، اس میں یقینی طور سے قارئین شامل یا ساتھ ہونا چاہیں گے ،لیکن کھیل کارخ، ’’اسلامی دہشت گردی ‘‘اور مسلم ملت کی وطنی اور عالمی سطح کی خوفناک سر گرمیوں کی طرف کردیاجاتا ہے۔
عمران نے کندھے جھٹکے، ہندستان میں اس نام کے ڈھیروں آدمی ہیں ، بن الادن کے چھپنے کے ٹھکانے سے ملی ویڈیو کلپ میں دھندلا چہرہ،لیکن صاف نظر آتا ہے کہ القاعدہ کا نیا لیڈر الجواہری ہے، عربی خطاب کا انگریزی ترجمہ سامنے آرہا ہے کہ مغرب کو عراق اور افغانستان میں مسلمانوں کی زندگیوں کی تباہی کی قیمت چکانی ہوگی، الجواہری، اے کے 47رائفل لہراتا ہوا چینخ رہا ہے، کافر مریں گے، ان کا خیال ہے کہ وہ اعلی ترین ہیں ،لیکن اب عالم اسلام کے پاس ایسے طاقتور ہتھیار ہوں گے، جن کو دنیا نے کبھی دیکھا نہ ہوگا، ایسے ہتھیار جو ہمیں اسلام کی فتح حاصل کرنے میں معاون ہوں گے۔ بھائیو!! یہ فاروق صدیقی جوہری سائنس داں ہے، جس نے ایٹم بم بنانے میں مدد کی ہے، یہ جو بات میں نے کہی اس کی تائید کرے گا، فاروق صدیقی نے کہا کہ ہتھیاروں کو بنانے کی فیکٹریاں کھڑی کی جارہی ہیں ، ہم نے نمونے تیار کرلیے ہیں ،ایک بار یہ فیکٹریاں کھڑی ہوجانے کے بعد اسلام کو دنیا میں اپنے حق کا دعوی کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا، اس کے ساتھ ہی ٹوپی دھاری لوگوں کے گروپ نے اپنی خود کار بندوقوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر فائر کیے وہ ویڈیو ختم ہو گیا، فاروق 2003ءمیں اچانک غائب ہوگیا تھا، یہ مانا جاتا تھا کہ جوہری رازوں کو چورانے کی کوشش کی دوران یا تو اسلامی دہشت گردوں نے اغوا کر لیا تھا یا مار دیا گیا تھا، لیکن کچھ دستاویز سے لگتا ہے کہ فاروق صدیقی نام کا ایل ای ٹی کوئی لیڈر ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ ایل ای ٹی کے تار القاعدہ سے جڑے ہوئے ہیں ، ممکن ہے ان کی خواہش دنیا کے سب سے بڑی صف اول کی اسلامی دہشت گرد تنظیم کے طور پر القاعدہ کی جگہ لینے کی ہے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ کس چابک دستی اور فن کاری کے ساتھ خوف کی نفسیات کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتے ’اسلامی دہشت گردی‘کی اصطلاح کو پھیلانے اور دل و دماغ میں اتارنے کی کوشش کی گئی ۔
اسی طرح کی کوشش دوسرے رنگ ڈھنگ سے اشونی سانگھی کی روضہ بال، ونش ولی میں نظر آتی ہے، اس میں برہمن وادی تری مورتی تصور کے تحت ہندو تو کے ایک مخصوص پر اسرار ماحول میں لے جا کر مست کر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف دکھایا ہے کہ غالب ،کعبہ ، مدینہ کا سفر اور حج و عمرے کے بعد بھی اللہ رحمن و رحیم سے دعا کرتا ہے کہ یہ اتھاہ مہربانی دشمنوں پر مت دکھانا کیوں کہ وہ مقدس و پاک لشکر کے ہمراہ بھارت میں خلافت کی بحالی کے لیے ایک خونی جہاد کر رہا تھا۔
ا میش کے راجا سہیل دیو میں زانی ،لیٹرے، حملہ آور ،مندروں کو منہدم کرنے والے ترکوں کے مقابلے میں اکثریتی کمیونٹی میں فخر اور تہذیب کے محافظ کے طور پر بہادر سہیل دیو کو سامنے لایا جاتا ہے، اس سے جس طرح کی ماحول اور ذہن سازی ہوگی ، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے، ہر کوئی اپنے مقصد اور پسندیدہ نظام حیات کے تحت سماج کی تشکیل چاہتا ہے۔ لیکن اس یک طرفہ عمل سے کسی معتدل سماج کی تعمیر و تشکیل کیسے ہو سکتی ہے؟اس پر کچھ دنوں قبل جب مشرف عالم ذوقی بحیات تھے تو ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ادباءو تنقید نگاروں کی ایک میٹنگ منعقد کی تھی ، جس میں ادب و تخلیق کے بدلتے منظر نامے کے پیش نظر کئی تجاویز آئیں تھیں ، لیکن ابھی تک اس تعلق سے کوئی قابل مطالعہ و توجہ تخلیقی کام سامنے نہیں آیا ہے،ظاہر ہے کہ اس خلاءسے سماجی خلیج پاٹنے کی راہ ہمورا نہیں ہوگی تو اس کے دور رس اثرات و نتائج برآمد ہوں گے ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)