تحریر:محمد قمرالزماں ندوی
اسلام کی عمارت جن پانچ چیزوں پر قائم ہے ،ان میں ایک ستون روزہ ہے ۔ روزہ خالص بدنی عبادت ہے ، ترتیب کے اعتبار سے ارکان اسلام میں اس کا تیسرا نمبر اور درجہ ہے، اور یہ ترتیب من جانب اللہ ہے جو بے ربط نہیں ہے بلکہ اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہے ۔
روزہ اس بات کا سالانہ سبق ہے کہ آدمی خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچ کر زندگی گزارے ،پس اگر کوئی شخص کھانے پینے کا روزہ رکھے اور خدا کی طرف سے منع کردہ چیزوں سے روزے میں نہ رکے، تو اس نے روزہ رکھ کر بھی روزہ نہیں
رکھا ،اسی حقیقت کو حدیث شریف میں یوں بیان کیا گیا ہے، جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے ۔
روزہ کی حقیقت اور اس کا فلسفہ کیا ہے ؟ آئیے اس کو سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی رح کے الفاظ اور ان کے قلم گہر بار سے سمجھتے ہیں ۔
علامہ ندوی ؒ لکھتے ہیں :
*روزہ اسلام کی عبادت کا تیسرا رکن ہے،عربی میں اس کو ’’صوم ‘‘ کہتے ہیں جس کے لفظی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں ،بعض مفسرین کی تفسیروں کے مطابق قرآن پاک میں کہیں کہیں صبر بھی کہا ہے ،جس کے معنی ’’ضبط نفس‘‘ ثابت قدمی اور استقلال کے ہیں، ان معنوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی زبان میں روزہ کا کیا مفہوم ہے ؟ وہ در حقیقت نفسانی ہوا و ہوس اور بہیمی خواہشات سے اپنے آپ کو روکنے اور حرص و ہوا کے ڈگمگا دینے والے موقعوں میں اپنے آپ کو ضابط اور ثابت قدم رکھنے کا نام ہے ،روزانہ استعمال میں عام طور پر نفسانی خواہشات اور انسانی حرص و ہوا کا مظہر تین چیزیں ہیں ،یعنی کھانا پینا اور عورت و مرد کے جنسی تعلقات ،انہیں تینوں سے ایک مدت تک رکے رہنے کا نام روزہ ہے ،لیکن ان ظاہری خواہشوں کے ساتھ باطنی خواہشوں اور برائیوں سے دل و زبان کا محفوظ رکھنا بھی خواص کے نزدیک روزہ کی حقیقت میں داخل ہے ۔قرآن مجید نے ان تمام حقائق و رموز کو صرف ایک لفظ ’’تقویٰ ‘‘ سے بے نقاب کر دیا ہے ،اور چونکہ روزہ کی حقیقت تمام مذاہب میں مشترک تھی،اس بناء پر قرآن مجید نے دیگر مذاہب کو بھی اشارة اس حقیقت میں شریک کر لیا ہے ۔’’ یا ایھا اللذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب عکی اللذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘ (ترجمہ :اے مسلمانو ! تم پر روزہ لکھا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے امتوں پر لکھا گیا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو ۔) روزہ کی غرض و غایت ’’ تقویٰ‘‘ ہے یعنی اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنا ،اور جذبات کے تلاطم سے اپنے آپ کو بچا لینا ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ روزہ ہمارے لئے ایک قسم کے روحانی علاج کے طور پر فرض ہوا،لیکن آگے چل کر قرآن پاک اسلامی روزہ کی دو اور مخصوص حقیقتوں کو بھی واضح کرتا ہے ۔’’ و لتکبروا اللہ علی ما ھداکم و لعلکم تشکرون‘‘(ترجمہ: تاکہ خدا نے جو تم کو راہ دکھائی اس پر تم بڑائی اور شکر ادا کرو) (سیرت النبی ؐ، جلد ۵ ؍ صفحہ220)
امام غزالی ؒ روزہ کے اسرار و رموز اور مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں: روزہ کا مقصد ہوائے نفس ( نفسانی خواہشات ) کو کچلنا ہے ،تاکہ نفس کو تقویٰ پر قوت ملے، اور روزہ کی روح اور اس کی مشروعیت کا راز اس قوت کو کمزور کرنا ہے جو شر و فساد پر ابھارنے کے لئے شیطان کے وسائل و ذرائع ہے۔ (احیاء علوم الدین :1 ؍274)
علامہ ابن قیم ؒ روزے کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :’’روزہ سے مقصود یہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کےشکنجے سے آزاد ہو سکے،اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال و توازن اور میانہ روی پیدا ہو اور اس کے ذریعے سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کے لئے اپنے نفس کا تزکیہ کر سکے۔ (زاد المعاد :2؍28)
معلوم یہ ہوا کہ روزہ کا مقصد اصلی روح و نفس کا تذکیہ اور خدائے وحدہ لاشریک لہ کی رضا مندی کے لئے صبر و شکیب کی کیفیت اور ہمت و طاقت کا حاصل کرنا اور جٹانا ہے اور اپنی محدود،مستعار اور فانی زندگی کو تقوی و طہارت کی خوشبو سے معطر اور پاکیزہ کرنا ہے اور اسی مقصد کے لئے اللہ تعالی نے اس عبادت کا اپنے بندے کو مکلف بنایا ہے اور اس عبادت کی عملی صورت گری بھی فرمائی ہے ۔
قرآن کریم میں روزہ کے لئے’’ صیام‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ،جو صوم کی جمع ہے، صوم کے لغوی معنی رکنے اور چپ رہنے کے ہیں ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ درحقیقت انسانی خواہشات ،بہیمی جذبات اور سفلی میلانات سے بچنے اور پرہیز کرنے کا نام ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر دو طرح کی قوتیں ودیعت کی ہیں ،حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے انہیں قوت بہیمی اور قوت ملکی سے تعبیر کیا ہے ،پہلی قوت معائب و مفاسد کا سرچشمہ ہے، جب کہ دوسری قوت سے خیر و بھلائی اور نیکیوں کا ظہور ہوتا ہے ،انسان کی بہیمی و شہوانی قوت کی شدت و جوش عام طور پر کھانے پینے کی کثرت اور جنسی لذتوں میں مشغولیت و انہماک سے پیدا ہوتی ہے ،اس لئے مذہب اسلام نے اس جوش و شدت کو کم کرنے اور انسان کے اندر ملکوتی قوت و صفات پیدا کرنے کے لئے روزے کے دنوں میں کھانے پینے اور جنسی تعلقات سے روک دیا ہے ۔
روزہ کا بنیادی مقصد قرآن مجید نے جو بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ روزہ دار روزے کی برکت سے( بعید نہیں کہ) متقی اور پرہیز گار بن جائے گا اس کے اندر خوف خدا پیدا ہو ۔ دل کدورتوں، گندگیوں، آلائشوں اور برے خیالات و تصورات سے پاک ہو جائے ۔ الغرض روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ اور دل کی پرہیز گاری اور صفائ ہے۔ تقویٰ کیا ہے ؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی ؒ فرماتے ہیں :’’تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے۔‘‘
امام غزالی ؒفرماتے ہیں :’’روزہ صرف یہی نہیں کہ کھانا ،پینا اور جماع ایک وقت مخصوص سے ایک وقت مخصوص تک نہ کی جائے ،یہ تو محض روزہ کی شکل و صورت ہے، اصل روزہ یہ ہے کہ زبان برائیوں سے رک جائے، کان غیبت سے باز آجائیں ،آنکھ ناجائز چیزوں کو نہ دیکھے،ہاتھ ظلم و زیادتی سے رک جائیں ،پاوں حرام کی طرف چلنے سے انکار کریں اور ان سب کے بادشاہ دل و دماغ خلاف شرع باتوں کے سوچنے اور سمجھنے تک کی قوت سے محروم ہو جائیں ۔ ‘‘
غرض قرآن مجید نے روزہ کا اہم اور بنیادی مقصد یہ بیان کیا ہے کہ روزہ متقی اور پرہیز گار بننے کا ذریعہ ہے، روزہ رکھنے سے روزہ دار کے اندر خوف و خشیت پیدا ہوتی ہے اور وہ خلاف تقویٰ چیزوں سے بچتا ہے۔ قرآن مجید میں روزہ کا حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’شاید کہ تم متقی و پرہیز گار بن جاؤ۔‘ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی و پرہیز گار بن جاو گے۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے۔ جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعہ سے اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا بہت متقی بن جائے گا۔ مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اسے اس سے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزے کو اس کی روح اور حقیقت اور ظاہر و باطن کی خوبیوں کے ساتھ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ۔