کلیم الحفیظ
نئی دہلی
پانچ ریاستوں کے الیکشن نتائج آچکے ہیں ۔البتہ ملک میں کورونا کی وحشت ناک صورت حال میں جیتنے والوں کو اپنی خوشی کے اظہار کا موقع نہیں ہے۔مرکزی حکومت پر ان ریاستوں کو فتح کرنے کا جنون سوار تھا یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ملک میں مہاماری کی تباہیوں کے باوجود پوری مرکزی حکومت انتخابی مہم میں لگی ہوئی تھی ،اکیلے وزیر اعظم نے بنگال میں۱۸ ریلیاں کیں ہیں ،اگر آخر کے دو مرحلوں میں عدالتوں کی پھٹکار نہ پڑتی تو یہ تعداد اور زیادہ ہوتی۔وزیر اعظم کے علاوہ ان کی کابینہ کے وزراء اورریاستوں کے وزراء اعلیٰ کی ریلیاں الگ ہیں۔پانچ ریاستوں میں بھی بنگال فتح کرنے پر جس قدر توجہ دی گئی بھارت کی تاریخ میں کسی مرکزی حکومت یا قومی پارٹی کی طرف سے کبھی اس قدر توجہ نہیں دی گئی،وزیر اعظم اور ان کے کابینی رفقاء کے علاوہ مرکزی جانچ ایجنسیوں اور الیکشن کمیشن نے بھی ممکنہ حد تک اپنے آقا کا ساتھ دیا۔الیکٹرانک میڈیا،سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیامیں بنگال کی مہم چھائی رہی۔نتیجے کے دن بھی ٹی وی پر ساری بحث بنگال پر مرکوز رہی۔
ریاستی انتخابات کے نتائج کئی پہلو سے سبق آموز ہیں۔سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ بی جے پی ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر نہیں ہے۔بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے اور بی جے پی ہار بھی سکتی ہے ۔جب ایک زخمی عورت وہیل چیئر پر بیٹھ کر ہرا سکتی ہے تو راہل،تیجسوی،اکھلیش کیں نہیں ہرا سکتے۔اس کے لیے عزم اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔دیدی نے جو ہمت دکھائی ہے اور جس طرح پوری انتخابی مہم کو ہندو مسلم ہونے سے بچایا ہے وہ ان کی جیت کا اہم کردار ہے ۔انھوں نے نندی گرام سے الیکشن لڑ کر بی جے پی کی ساری توجہ نندی گرام کی طرف لگادی،انھوں نے مسلمانوں سے کھل کر ووٹ مانگااور بی جے پی کے ہاتھ سے فرقہ واریت کا ایشو چھین لیا اس سے پہلے کہ بی جے پی ممتا پر مسلم پرستی کا الزام لگاتی اور ممتا دفاع کرتیں ،ممتا نے از خود مسلمانوں سے نام لے کر ووٹ کی اپیل کردی۔اس میں دیگر سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی سبق ہے۔مسلمانوں نے بھی دیدی کو مایوس نہیں کیا،اپنا ایک ایک ووٹ دیدی کی جھولی میں ڈال دیا۔اب بہر حال ممتا کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والے پانچ سالوں میں مسلمانوں کو مایوس نہ کریں۔
دوسرا سبق کانگریس کے لیے ہے ،پانچوں ریاستوں میں سے کانگریس صرف تملناڈو میں کچھ عزت بچا پائی ہے۔کانگریس کو سب سے زیادہ نقصان اس کی صفوں میں موجود غداروں سے پہنچ رہاہے،اس کی آستین میں سنگھی سانپ ہیں۔جب تک کانگریس اپنی صفوں کو درست نہیں کرے گی تب تک اسے کسی بڑی کامیابی کی توقع نہیں کرنا چاہئے۔کانگریس جیسی عظیم پارٹی کے لیے یہ شرم کی بات ہے کہ بنگال میں اس کا کھاتہ تک نہیں کھلا،وہ 292سیٹوں میں سے ایک سیٹ بھی نہیں جیت پائی،کیرالہ میں بھی اس کو عوام کی توجہ حاصل نہ ہوسکی جب کہ خود راہل گاندھی وہاں سے ممبرپارلیمنٹ ہیں،وہ اپنی سابقہ سیٹیں بھی نہ بچا سکی،آسام میں بھی کانگریس کو انھیں علاقوں سے جیت حاصل ہوئی جہاں مسلم ووٹ قابل ذکر تعداد میں تھا اور یہ کامیابی اس کو یوڈی ایف سے اتحاد کرنے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔اس کا مطلب ہے کہ کانگریس اونچی ذات کا ہندو ووٹ لینے میں ناکام رہی ہے،کانگریس کو اپنے اتحادیوں سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن کانگریس از خود بہت کمزور ہوگئی ہے اس لیے وہ اپنے اتحادیوں کو فائدہ پہنچانے میں ناکام ہے،جیسا کہ آسام میں ہوا ،اس سے پہلے بہار میں بھی کانگریس کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔کانگریس کو اپنی حکمت عملی واضح اور صاف رکھنا چاہئے۔اگر وہ مخلص ہوکر جمہوری قدروں اور آئین کی پاسداری کرے تو اس کی راہیں آسان ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح بنگال سے لیفٹ پارٹی کا صفایا ہوجانا یا الیکشن کا صرف دوہی پارٹیوں کے درمیان سمٹ جانا جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ایک طویل مدت تک بنگال میں راج کرنے کے باوجودبنگال سے لیفٹ کو ایک بھی سیٹ نہ ملنا اور اس کے مقابلے کیرالہ میں مسلسل دوبارہ جیت کر تاریخ رقم کرنے میں بھی بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ عوام کو صرف نعروں اور وعدوں سے بہت دیر تک نہیں بہلایا جاسکتا ،معصوم بچہ بھی کھلونے سے ایک وقت تک ہی بہلتا ہے جب اس کی بھوک اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو وہ بھی کھلونا پھینک دیتا ہے ،مغربی بنگال میں لیفٹ کو کام نہ کرنے کی سزا ملی ہے ۔کیرالہ میں گزشتہ سال کورونا پر بہتر طور پر قابو پانے کا انعام ہے۔کیرالہ کے ووٹر ملک کے سب سے زیادہ با شعور ووٹر ہیں ،انھیں کوئی پارٹی گمراہ نہیں کرسکتی ،وہاں کے لوگ کسی بھگوان پر جل چڑھانے اور ناریل پھوڑنے سے ہی خوش نہیں ہوجاتے ،وہ کام دیکھتے ہیںاور اپنی ریاست کی ترقی و خوش حالی پر نظر رکھتے ہیں اگر وہ مذہبی جذبات میں بہنے والے ہوتے تو بی جے پی کو ضرور نوازتے مگر بی جے پی کی تمام کوششوں کے بعد ایک سیٹ بھی نہ ملنا بلکہ پرانی سیٹ بھی گنوا دینااس بات کا ثبوت ہے کہ کیرالہ کی عوام کو کوئی مداری اُلّو نہیں بنا سکتا۔
ان پانچ ریاستوں کے علاوہ اتر پردیش میں ہونے والے پنچایتی انتخابات میں بھی بی جے پی کو شکست کا سامنا ہے ۔یہ نتائج اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں کہ بی جے پی کا گڈ گورننس (بہترین حکمرانی) کا دعویٰ ناکام ہوچکا ہے۔اس کی شخصیتوں کا جادو بھی اتررہا ہے۔اس کے تمام کھوکھلے نعروں کی بھی ہوا نکل گئی ہے،چاہے وہ اچھے دن کا ہو یا آتم نر بھر بھارت کا،سوچھ بھارت ابھیان کاہو یا میک ان انڈیا کا۔2019کے پارلیمانی الیکشن کے بعد ریاستوں میں ہونے انتخابات میں یا توبی جے پی کو شکست ہوئی یا اس کا ووٹ فیصد کم ہوا ہے۔اب صرف اس کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے فرقہ واریت اور مذہبی بنیادوں پر عوام کو تقسیم کرکے حکومت کرنے کا ۔اگر ملک کے باشعور شہری حکمت سے اس کا مقابلہ کریں اور سیکولر پارٹیاں سیکولرزم پر قائم رہیں تو اس کے اس ہتھیار کو بھی بے اثر کیا جاسکتا ہے اورجس طرح بنگال میں نفرت کو ممتا کے ہاتھوں شکست ہوئی ہے اسی طرح پورے ملک سے نفرت کی سیاست کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
اس الیکشن میں مسلمانوں کا رول ہر جگہ قابل ستائش رہا ہے۔انھوں نے اپنی سیاسی بیداری کا ثبوت بھی دیا ہے اور اپنے اتحاد کا بھی،آسام میں انھوں نے اے آئی یو ڈی ایف کو۱۹میں سے۱۶ سیٹیں دلائیں اور اس طرح مسلم قیادت والی پارٹیوں کی امید زندہ رکھی ،بنگال میں۲۹ فیصد مسلم ووٹروں نے یک طرفہ پول کرکے ۳۸ مسلم امیدواروں کو کامیاب کیا۔کیرالہ کا ووٹر چونکہ ہندو مسلم کی بنیادپر ووٹ نہیں کرتا اس لیے وہاں مسلم لیگ کی کامیابی یا ناکامی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، مسلم لیگ کو وہاں تین سیٹوں کا نقصان ہوا،یہ نقصان بھی غالباً کانگریس اتحاد مخالف رجحان کو لے کر ہوا۔تملناڈو میں مسلم رائے دہندگان نے بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے علاقوں سے یو پی اے اتحاد کو جیت دلائی۔پانڈی چیری مرکز کے زیر انتظام ریاست ہے وہاں مسلم رائے دہندگان کا کوئی اہم رول نہیں ہے۔مسلم رائے دہندگان کی بیدار مغزی کے باوجودمسلم امت کو تلنگانہ،آسام اور کیرالہ کی طرز پر اترپردیش،دہلی سمیت دیگر ریاستوں میں مسلم قیادت کو مضبوط کرنا چاہئے ،اس لیے کہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دے کر بی جے پی کو شکست تو دی جا سکتی ہے لیکن اپنے لیے فتح کے دروازے نہیں کھولے جاسکتے۔