تحریر: مفتی محمد صادق حسین قاسمی
یومِ جمہوریہ جو ہمارے ملک کا ایک تاریخی اور یادگار دن ہے،یہ اس لئے منایا جاتا ہے کہ اسی تاریخ کو ہمارے ملک کا قانون نافذ ہوا،اور ہمار ملک ایک جمہوری ملک قرار پایا۔جس میں تمام مذاہب کے ماننے والوں اور مختلف قبیلہ وخاندان والوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ اس ملک میں رہنے اور جینے کا حق ملا۔ہمارا ملک 15اگست 1947کو آزاد ہوا۔آزادی کے پندرہ دن بعد 29اگست1947کو طے کیا گیا کہ آزادہندوستان کا اپنا آئین بنایاجائے ،جس میں اس ملک کے تمام باشندوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہو اور ان کی خوش حال اور پرامن زندگی کی ضمانت بھی،اس مقصد کے لئے دستورساز اسمبلی نے سات افراد پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ،جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے۔اس کمیٹی نے دو سال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تین سال کی مسلسل محنت کے بعد ملک کا آئین تیار کیا ،جسے ملک کی پارلیمنٹ نے منظور کرکے نافذ کردیا،اس آئین کی رو سے ہمارا ملک جمہوریہ ہندکہلایا۔( آزادی سے جمہوریت تک:109)
دستورسازی کے لئے محنت وکوشش کرنے والوں میں مسلمان اور علماء کرام بھی شامل تھے ،جس طرح ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لئے مسلمانوں کااو رعلماء کااہم کرداررہا ہے ،اسی طرح اس ملک کو امن ومحبت کا گہوارہ بنانے اور جمہوری اقدارپر تعمیر کرنے میں اہم کوششیں رہی ہیں۔اگر دستورسازی کے موقع پر علماء کرام نے دور اندیشی سے کام نہ لیا ہوتا اور ملک کو جمہوری انداز میں تشکیل پانے پر زور نہ دیا ہوتا تو اس ملک کا امن وسکون غارت ہوجاتا اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر برادران وطن کو بھی مذہبی تنگ نظری وتعصب پسندی کا نشانہ بننا پڑتا،اور حقوق واختیارسے محروم ہوکر مجبور ولاچار کی طرح رہنا پڑتا ،لیکن ان لوگوں کی قربانیوں اور ملت کے تئیں ان کی بے لوث فکرمندیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے ،جہاں ہر مذہب والااپنی مذہبی آزادی کے ساتھ رہ رہا ہے۔اور جہاں ہونے والے ظلم کے خلاف ،ناانصافیوں کے خلا ف،آئینی اختیارات کے خلاف ہونے والے فیصلوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کا حق حاصل ہے ،اس ملک کی تعمیر وترقی ، اس کی سالمیت ،امن ومحبت ،تہذیب وثقافت کے تحفظ کے لئے تگ ودو کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ تحریکِ آزادی کے مجاہدین میں مسلمانوں کے ناموں کو نکال دیا گیااور گنے چنے چند نام رہ گئے ہیں اورکتابوں ،نصابوں اور تعلیم گاہوں سے لے کر جلسوں ،اجتماعوں اور قومی تقریبوں تک مسلمانوں کے تذکروں کو حذف کردیا گیا ،اسی طرح دستو رسازی میں مسلمانوں نے کس طرح اپنے علم ،صلاحیت ،فکر اور محنت کو لگایا ہے اس کو بھی تاریخ کے صفحات سے بالکل الگ کردیا گیا۔بلکہ ہم مسلمانوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں یہ بالکل بھی نہیں معلوم کہ مسلمانوں نے بھی دستورسازی میں حصہ لیااور اس کے لئے کوششیں کیں۔
مسلم ممبران دستور سازی کی تلاش کے دوران ایک نہایت تحقیقی مواد دستیاب ہوا ،جسے محترم رمیض احمد تقی نے غیر معمولی تحقیق سے جمع کیااور تقریبا ۳۵ مسلم ممبران کے نام شمار کروائیں ،جسے جاننا چاہیے ۔چناں چہ ہم یہاں ان کی اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں،وہ اپنے مضمون میں رقم طراز ہیں:میں نے اپنی تلاش وتتبع کے بعد اس مختصر مقالے میں35مسلم ارکانِ قانون ساز مجلس کے اسمائے گرامی کوذکر کرنے کا التزام کیاہے:(1) مولانا ابوالکلام آزاد (11 نومبر 1888۔ 22 فروری 1958) ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم(2) عبدالقادر محمد شیخ(3) ابوالقاسم خان (5 اپریل 1905۔ 31 مارچ 1991) جو A.K خان سے زیادہ مشہورتھے، آپ بنگالی وکیل، صنعت کار اور سیاستدان تھے۔(4) عبدالحمید(5) عبدالحلیم غزنوی (1876۔1953)آپ ایک سیاستداں، تعلیمی اور ثقافتی امور کے سرپرست اور زمینداربھی تھے۔(6) سید عبدالرؤف(7) چوہدری عابد حسین(8) شیخ محمد عبداللہ (دسمبر 1905۔8 ستمبر1982)(9) سید امجد علی (1907۔ 5 مارچ1997)(10) آصف علی (11مئی 1888۔ 1 اپریل1953)آپ پیشے سے ایک وکیل تھے، آپ پہلی بار ہندوستان کی طرف سے امریکہ کے سفیر مقرر ہوئے اورکئی سال تک اڑیسہ(اوڈیشہ) کے گورنر بھی رہے۔(11) بشیر حسین زیدی (1898۔ 29 مارچ 1992) عام لوگوں میں آپB.H. زیدی سے زیادہ معروف تھے۔(12) بی پوکر) (B.Pocker صاحب بہادر (1890۔1965) آپ وکیل اور سیاستداں تھے۔(13) بیگم عزیز رسول (1908۔2001) سیاستداں اور قانون ساز اسمبلی میں واحد مسلم خاتون۔(14) حیدر حسین(15) مولاناحسرت موہانی(معروف شاعر،مجاہدِ آزادی،اردوے معلی کے بانی مدیر)(16)حسین امام(17) جسیم الدین احمد(18) کے ٹی ایم احمد ابراہیم(19) قاضی سید کریم الدین۔ ایم اے، ایل ایل بی (19 جولائی 1899۔14 نومبر 1977) (20) کے اے محمد(21) لطیف الرحمن(22) محمد اسماعیل صاحب (1896۔1972) انڈین یونین مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی سیاستداں تھے، راجیہ سبھا اور لوک سبھا دونوں کے رکن تھے،کیرل ان کا آبائی وطن تھا جہاںآپ کو’’قائدِ ملت‘‘ کے لقب سے جانا جاتا تھا۔(23) محبوب علی بیگ صاحب بہادر (ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کے ممتاز رکن،جنہوں نے اقلیتوں کے مسائل کی نمائندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا، خاص طور پرآزادیِ مذہب کے حوالے سے آپ نے کئی ترمیمات اور اضافے کیے)۔ (24) محمد اسماعیل خان(25)(مولانا) محمد حفظ الرحمن(سیوہاروی)(26) محمد طاہر(27) شیخ محمد عبداللہ) 5 دسمبر 8۔1905ستمبر (1982 سیاستداں اورصوب جموں و کشمیر سے آئین ساز اسمبلی کے ممتاز رکن تھے۔(28) مرزا محمد افضل بیگ(29) مولانا محمد سعید مسعودی(30)نذیر الدین احمد(31) رفیع احمد قدوائی (18فروری 1894۔ 24 اکتوبر 1954)معروف مجاہدِآزادی،کانگریسی لیڈراورآزادہندوستان کے پہلے وزیرمواصلات)(32) راغب احسن(33) سید جعفر امام(34) سر سید محمدسعد اللہ (21 مئی 1885۔ 8 جنوری 1955) آسام کے پہلے وزیر اعلی۔(35)تجمل حسین۔( ازمضمون:قانون ساز مجلس اور مسلم ممبران)
یہ ان عظیم لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے قانون سازی میں ترجمانی کی اور بعض تو وہ ہیں جنہوں نے بھرپور انداز میں ملک کوجمہوری بنانے اور مسلمانوں کے حقوق وتحفظات کے لئے ناقابل فراموش کردار اداکیا ۔مولاناحسرت موہانی ؒ جو اس کے ایک اہم رکن تھے اور جنہوں نے دستور سازی میں قابل قدر جدوجہد کی ہے اور بڑھ چڑھ کر مناسب ومفید دفعات کے لئے آخر وقت تک لگے رہے۔مولانا حسرت موہانی ؒ نے دستور ساز اسمبلی میں عائلی قوانین جو مسلمانوں کی نسبت تھے ،کے تحفظ کے لئے بھی موثر انداز میں اظہار کیا۔چناں چہ انہوں نے دستورسازی کے موقع پرتمام مذاہب کے پرسنل لا اور بالخصوص مسلمانوں کے پرسنل لامیں مداخلت کے سلسلہ میں کہاتھا کہ’’میں یہ بتادینا چاہاہوں گا کہ کوئی سیاسی پارٹی یافرقہ پرست پارٹی کو کسی بھی گروپ کے پرسنل لا میں کسی قسم کی مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔یہ خصوصا مسلمانوں کی نسبت کہتاہوں کہ ان کے پرسنل لا کے تین بنیاد ی اصول ہیں جو مذہب زبان اور کلچر ہیں ۔جن کو انسانوں نے نہیں بنایا ہے ۔ان کا پرسنل لاطلاق ،شادی ،اوروراثت کاقانون قرآن حکیم سے لیا گیا ہے اور اس کا ترجمہ اس میں درج ہے ،اگر کوئی یہ سمجھے کہ وہ مسلمانوں کے پرسنل لا میں مداخلت کرسکتے ہیں تو میں کہوں گا اس کا انجام بے حد نقصان دہ ہوگا۔میں اس ایوان میں آواز لگاکر کہہ رہاہوں کہ وہ مصیبت میں پھنس جائے گا،مسلمان کسی صورت میں اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور اگر کسی کو ایسا کہنے کی ہمت ہو تو اعلان کرے۔۔۔۔درمیان میں کچھ ارکان نے تقریرکے دوران مداخلت کرنے کی کوشش کی ،جس پرمولانا حسرت موہانی نے علی الاعلان اظہار کیاکہ:ان کو قائل رہنا چاہیے کہ میں اس ایوان کے فلور پر اعلان کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند کبھی بھی اپنے پرسنل لامیں مداخلت برداشت نہیں کریں گے ،اور ان کومسلمانوں کے عزائم کی آہنی دیوارکا روزانہ مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘( حسرت موہانی اور انقلابِ آزادی:521)
مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ جو قانون سازمجلس کے رکن تھے اور جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی تھے ،مجاہدِ ملت نے بھی دستور سازی میں بڑی قابلِ قدر کوششیں کی ہیں ۔چناں چہ قاضی محمد عدیل عباسی ایڈووکیٹ لکھتے ہیں کہ:’’سب سے بڑا احسان جو انہوں نے ملتِ اسلامیہ پر کیا وہ دستور ہند کا موجود ہ ڈھانچہ ہے۔اس وقت مولانا دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے اور کم لوگوں کویہ معلوم ہوگا کہ اقلیتوں کو جوحقوق دئیے گئے ہیں ،ان کی ترتیب وتدوین میں مولانا حفظ الرحمن کا بہت بڑاہاتھ ہے۔آج یہی دستور کی دفعات ہیں،جومسلمانوں کوہندوستان میں سربلندرکھتی ہیں اور اگر ان میں حقوق حاصل کرنے کی طاقت پیداہوجائے یعنی وہ احساس کمتری سے نکل آویں تو ان کا مستقبل تابناک ہوسکتا ہے۔‘‘( مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :91)
محمد سلیمان صابر صاحب لکھتے ہیں کہ :’’آئین ساز اسمبلی کی ممبری کو عام لوگ ایک بڑااعزاز کہہ سکتے ہیں۔لیکن حضرت مولانا نے کسی اعزاز کی خاطرنہیں بلکہ اس لئے آئین یا قانون ساز اسمبلی کی ممبری قبول کی کہ وہ شروع ہی سے ایک قومی رکن رہے تھے۔برطانوی دور میں ملک کو آزاد کرانے کا اہم مقصد سامنے تھا اور حصول آزادی کے بعد سب سے اہم کام یہ تھا کہ ملک کو ایسا جمہوری آئین دیا جائے جو بلاتخصیص مذہب کسی باشندے کو کسی دوسرے پر فوقیت یا برتری حاصل نہ ہو۔بلکہ قانون کی نظرمیں سب برابر ہوں۔یہ حضرت مولانا جیسے وسیع النظر ممبروں ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک کو ایک سیکولر آئین دیا گیا۔( مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ایک سیاسی مطالعہ :117)
یہ دو حضرات کی فکر وکوشش کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ،مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت اور ان کی خدمات تو روشن ہیں۔ان مشہور شخصیات کے علاوہ دیگر حضرات کے کارناموں کو اجاگر کرنے اور تاریخ کے صفحات سے ان کی خدمات کو کھنگال کر قوم وملت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس ملک کو جمہوری بنانے میں مسلمانوں کا اہم رول رہا ہے اور مسلمان صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ تمام بھارتیوں کے لئے یہ کوشش کرتے آئے ہیں۔آج یومِ جمہوریہ کے یاد گار موقع پر ان تمام محسنوں کے ناموں کو اور ان کے کردار کو فراموش کردیا گیا اور تما م اپنے اور پرائے لاعلمی اورناواقفیت کے ساتھ یہ تاریخی دن گزاردیتے ہیں۔ضرورت ہے کہ ملک کی سالمیت ،گنگا جمنی تہذیب کی بقا ،آپسی خلوص ومحبت،امن وامان کے تحفظ کے لئے جمہوری انداز میں تعمیر کرنے کے لئے فکر وصلاحیت لگانے والوں کو بھی یاد کیا جائے اور باضابطہ ان کے تذکرے کئے جائیں اور بتایا جائے کہ کس طرح کی پیہم کوششوں کے نتیجہ میں یہ ملک جمہوری قرارپایا ورنہ یہاں کی دیگر اقلیتوں کو غلامانہ زندگی بسرکرنا پڑتا۔کیوں کہ اگر آج ہم نے اس سلسلہ میں غفلت کی اور لاپرواہی کاثبوت دیا تو پھر آنے والے دور میں تو کوئی بھی اس سلسلہ میں دلچسپی لینے والا نہیں ہوگا۔
آج اس ملک کی جمہوریت اور سالمیت خطرہ میں ہے اور ملک کو ہندوراشٹر بنانے اور خاص رنگ میں رنگنے کی پھر کوششیں زوروں پر ہیں ایسے پُرخطر حالات میں تمام امن پسند ،جمہوریت کے پاسبانوں کو اس ملک کی جمہوری بقاکے لئے ایک نئی جدوجہد کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ہمارا یہ پیاراملک نفرت کی آگ میں جھلس جائے گااور فرقہ پرستی کی لہر تباہ وبرباد کردے گی ۔
ہمار ا خون بھی شامل ہے تزئین گلستاں میں
ہمیں بھی یاد کرلینا چمن میں جب بہار آئے
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)