تحریر:سوتک بسواس
30 جنوری 1948 کی شام کو، ناتھورام ونائک گوڈسے نے موہن داس کرم چند گاندھی کو اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب بھارت کے سب سے قابل احترام رہنما دارالحکومت دہلی میں ایک اجلاس سے لوٹ رہے تھے۔
38 سالہ گوڈسے متعصب دائیں بازو کی جماعت ہندو مہاسبھا کا رکن تھا۔ اس نے گاندھی پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے مسلم نواز اور پاکستان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے بہت سے ہندوؤں کو دھوکہ دیا۔ یہاں تک کہ اُس نے گاندھی پر اس خونریزی کی ذمہ داری بھی عائد کرنے کی کوشش کی جو 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کے وجود میں آنے کے وقت ہوئی۔
ایک عدالت نے گوڈسے کو قتل کے ایک سال بعد موت کی سزا سنائی تھی۔ ہائی کورٹ میں فیصلے کو برقرار رکھنے کے بعد نومبر 1949 میں اسے پھانسی دے دی گئی۔
اس مقدمے میں ایک ساتھی، نارائن آپٹے کو بھی موت کی سزا سنائی گئی تھی، اور چھ دیگر کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ہندو مہاسبھا میں شامل ہونے سے پہلے، گوڈسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (قومی رضاکار تنظیم) یا آر ایس ایس کا رکن تھا، جو بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نظریاتی اثاث ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی بذات خود اس 95 برس پرانی ہندو قوم پرست جماعت کے طویل عرصے سے اور اپنی کم عمری سے رکن ہیں۔ آر ایس ایس اور ان کی حکومت کے درمیان سرکار کے اندر اور باہر ایک گہرا تعلق ہے۔
گوڈسے اور آر ایس ایس کا رشتہ
کئی دہائیوں تک ’فادر آف نیشن‘ یا بابائے قوم کا درجہ رکھنے اور عالمی سطح پر قوم کی شناخت بننے والی شخصیت کے قاتل سے آر ایس ایس نے کوئی تعلق تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس کے باوجود، حالیہ برسوں میں ہندو دائیں بازو کے ایک گروپ نے گوڈسے کو سرہانا اور گاندھی کے قتل کی کھلے عام خوشیاں منانی شروع کر دیں۔
پچھلے سال بی جے پی کے ایک رکن پارلیمان نے گوڈسے کو ’محب وطن‘ قرار دے دیا۔ آر ایس ایس کے کچھ لوگوں کی یہ حرکت اکثریت کو ناگوار گزری، لیکن آر ایس ایس اپنے موقف پر قائم ہے کہ گوڈسے نے گاندھی کو قتل کرنے سے بہت پہلے تنظیم چھوڑ دی تھی۔ اب ایک نئی کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ موقف بالکل درست نہیں ہے۔
گوڈسے اپنے بچپن میں ایک شرمیلا نوجوان تھا جو ہائی اسکول مکمل نہیں کر سکا اور مہاسبھا میں شامل ہونے سے پہلے درزی اور پھل فروشی سے روزگار حاصل کرتا رہا۔ مہاسبھا میں شامل ہونے کے بعد وہ اس تنظیم کے اخبار میں مدیر کے طور پر کام کرتا رہا۔
گاندھی کے قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران، اس نے عدالت میں 150 پیراگراف کا بیان پڑھنے میں پانچ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لیا۔
اس بیان میں گوڈسے نے کہا کہ گاندھی کو قتل کے پیچھے کوئی سازش نہیں تھی۔ اس طرح اُس نے اپنے ساتھیوں کو قتل میں ملوث ہونے کے الزام سے بچانے کی کوشش کی۔
گوڈسے نے اس الزام سے انکار کر دیا کہ اُس نے اپنے رہنما ونائک دامودر ساورکر کی ایما پر یہ قتل کیا۔ ونائک دامودر ساورکر ہندو پرست متعصبانہ ہندوتوا سوچ کے موجد ماننے جاتے ہیں۔ (اگرچہ ساورکر کو تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا، لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ گاندھی سے نفرت کرنے والے بنیاد پرست دائیں بازو کے اس قتل میں پوری طرح ملوث تھے)۔
کیا گوڈسے نے آر ایس ایس سے رشتہ توڑ لیا تھا؟
گوڈسے نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ اس نے گاندھی کو قتل کرنے سے بہت پہلے آر ایس ایس سے رشتہ توڑ لیا تھا۔
گاندھی کے قاتل کے بارے میں کتاب کے مصنف دھیریندر جھا لکھتے ہیں کہ گوڈسے ڈاک کے محکمۂ میں کام کرنے والے باپ کا بیٹا تھا اور اُس کی ماں آر ایس ایس کی سرگرم کارکن تھی۔ اُس کے تنظیم سے نکالے جانے کا کوئی ’ثبوت‘ موجود نہیں ہے۔
گوڈسے کا ایک بیان جو مقدمے کی سماعت سے پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا اس کے مطابق ‘ہندو مہاسبھا کا رکن بننے کے بعد اُس نے آر ایس ایس چھوڑ دی تھی لیکن اُس کے عدالتی بیان میں آر ایس ایس سے علیحدگی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
تاہم، ان کے عدالتی بیان میں کہا گیا ہے کہ اُس نے آر ایس ایس چھوڑنے کے بعد ہندو مہاسبھا میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا کہ اُس نے ایسا کب کیا تھا۔‘
دھیریندرجھا کہتے ہیں ’یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جو گوڈسے کی زندگی کے سب سے زیادہ زیر بحث پہلوؤں میں سے ایک رہا ہے۔‘ اُن کا خیال ہے کہ ‘آر ایس ایس کے حامی مصنّفین نے اس کا استعمال ‘خاموشی سے اس تصور کو آگے بڑھانے کے لیے کیا ہے کہ گوڈسے نے گاندھی کو قتل کرنے سے تقریباً ایک دہائی پہلے ہی آر ایس ایس سے تعلق توڑ لیا تھا اور ہندو مہاسبھا میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
گوڈسے نے‘آر ایس ایس نہیں چھوڑی تھی‘
امریکی محقق جے اے کرن جونیئر نے دعویٰ کیا کہ گوڈسے نے 1930 میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی اور چار سال بعد چھوڑ دی، لیکن اپنے دعوے کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ دھیریندرجھا لکھتے ہیں کہ اپنے مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے پولیس کو دیے گئے ایک بیان میں گوڈسے نے اعتراف کیا کہ وہ بیک وقت دونوں تنظیموں کے لیے کام کر رہا تھا۔
ان کے خاندان کے افراد بھی ماضی میں اس بحث میں شامل رہے ہیں۔ گوپال گوڈسے، ناتھورام کے بھائی، جن کا 2005 میں انتقال ہو گیا تھا، نے کہا تھا کہ اُن کے بھائی نے‘آر ایس ایس نہیں چھوڑی تھی۔‘
اس کے علاوہ، گوڈسے کے ایک بھتیجے نے 2015 میں ایک صحافی کو بتایا کہ گوڈسے نے 1932 میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی، اور ‘نہ تو اسے نکالا گیا اور نہ ہی اس نے کبھی تنظیم چھوڑی۔‘
ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے درمیان تعلق
دھیریندرجھا جنہوں نے تاریخی دستاویزات کی ورق گردانی کی ہے انھوں نے دونوں ہندو تنظیموں کے درمیان روابط پر بھی تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندو مہاسبھا اور آر ایس ایس کے درمیان ایک اشتراک اور تعلق پایا جاتا تھا اور ان کا نظریہ اور سوچ بھی ملتی جلتی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ دونوں گروپوں کے درمیان گاندھی کو قتل کیے جانے تک ‘ہمیشہ قریبی روابط تھے اور ان کے بعض ارکان بھی مشترک تھے۔ (گاندھی کے قتل کے بعد آر ایس ایس پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک پابندی لگا دی گئی)۔
آر ایس ایس نے ہمیشہ گوڈسے کی عدالت میں کہی گئی بات کو دھرایا ہے کے اُس نے 1930 کی دہائی کے وسط میں تنظیم چھوڑ دی تھی، اور فیصلے نے ثابت کیا کہ آر ایس ایس کا قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر رام مادھو نے کہا ‘یہ کہنا کہ وہ آر ایس ایس کا رکن تھا صرف سیاسی مقاصد کے لیے جھوٹ بولنا ہے۔
آر ایس ایس کے سب سے زیادہ بااثر لیڈروں میں سے ایک ایم ایس گولوالکر نے گاندھی کے قتل کو ‘ایک ایسا قومی المیہ قرار دیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، کیونکہ مجرم شیطانی ذہن رکھنے والا شخص ہندو تھا۔
ابھی حال ہی میں، ایم جی ویدیا جیسے آر ایس ایس کے لیڈروں نے گوڈسے کو ’قاتل‘ قرار دیا جس نے انڈیا کی سب سے قابل احترام شخصیت کو قتل کرکے ہندوتوا کی’توہین‘ کی۔
وکرم سمپت جیسے مصنّفین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے درمیان رشتہ بڑا تلخ تھا۔ سمپت، جنہوں نے ساورکر کی دو جلدوں پر مشتمل ایک مکمل سوانح عمری لکھی ہے، لکھتے ہیں کہ ہندو مہاسبھا کے ‘ہندوؤں کے مفادات کے تحفظ کے لیے رضاکاروں کے ایک علیحدہ تنظیم قائم کرنے کے فیصلے سے آر ایس ایس کے ساتھ اس کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
اس کے علاوہ، مسٹر سمپت کے مطابق، آر ایس ایس نے لوگوں کو ‘شخصیت پرستی سے مہاسبھا لیڈر ساورکر کے برعکس جو ‘ہیرو پرستی اور ضرورت سے زیادہ مداح سرائی پر یقین رکھتے تھے، دور رکھا۔
ایک اور کتاب میں، آر ایس ایس: ‘اے ویو ٹو دی انسائیڈ، والٹر کے اینڈرسن اور شریدھر ڈی دملے، اس کے بارے میں بات کریں کہ کس طرح آر ایس ایس کو گاندھی کے قتل میں اس کے ایک سابق رکن (ناتھورام گوڈسے) کے ملوث ہونے کی وجہ سے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور سرکاری سطح پر فاشسٹ، آمرانہ اور جارحیت پسند قرار دینے کی کوشش کی گئی۔
اس کے باوجود یہ شکوک و شبہات کبھی کم نہیں ہوئے کہ گوڈسے آر ایس ایس کا حصہ تھے اور اُس آر ایس ایس سے کبھی علیحدگی اختیار نہیں کی۔
گوڈسے نے 15 نومبر 1949 کو پھانسی پر چڑھنے سے پہلے، آر ایس ایس کی دعا کے پہلے چار جملے پڑھے۔ مسٹر جھا کہتے ہیں، ‘یہ ایک بار پھر اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ تنظیم کا ایک فعال رکن تھا اورآر ایس ایس کو گاندھی کے قاتل سے الگ کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی :یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )