نہیں دہلی:انگریزی اخبار sunday Guardian نے اپنی خاص رپورٹ میں بتایا کہ افغانستان طالبان حکومت کے نائب وزیر داخلہ ابراہیم صدر نے پاکستان اور بھارت کے ایک دوسرے پر حملوں اور کشیدگی کے عروج پر ’خفیہ طور پر‘ بھارت کا سفر کیا ،ایسی ہی رپورٹ republic india نے بھی دی ہے جبکہ بی بی سی پشتو نے بھی اس پر ایک رپورٹ شائع کی ہے ـ موجودگی وقت میں یہ خبر بڑے سیاسی دور رس اثرات کی حامل ہے خبر کے مطابق ابراہیم صدر نے اس دورے کے دوران بھارت کے حکام سے ملاقات بھی کی ہے۔دوسری طرف بھارت کے وزیر خارجہ جے ایس شنکر اپنے افغانی ہم منصب مولوی امیر متقی سے بات چیت کی جس میں دوطرفہ دلچسپی کے امور ہر گفتگو ہوئی اور آپسی تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا – واضح رہے کہ بھارت نے ابھی تک طالبان سرکارکو تسلیم نہیں کیا ہے – بہرحال یہ بہت غیر معمولی پیش رفت ہے-
قابل ذکر ہے کہ ابراہیم صدر کو طالبان رہنما ملا ہبت اللہ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور انھیں طالبان حکومت کے اہم اور سٹریٹیجک سکیورٹی کے امور سے متعلق فیصلہ سازی میں اہمیت دی جاتی ہے۔
میڈیا نے اس دورے کو اہم قرار دیا ہے ک ’سنڈے گارڈین‘ نے لکھا ہے کہ طالبان کے ایک ایسے سینئر عہدیدار کے ساتھ ’خفیہ مواصلاتی چینل‘ کھولنا جو پاکستان کے بارے میں تنقیدی نظریات رکھتے ہیں‘ ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا افغانستان میں نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنے نقطہ نظر پر نظرِثانی کر رہا ہے۔ایسے وقت میں انڈین حکام سے بات چیت کے لیے انڈیا کا دورہ کر رہے تھے جب 22 اپریل کو پہلگام پر حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی خیال رہے کہ ابراہیم صدر طالبان کے سرکردہ کمانڈروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے غیر ملکی افواج اور سابق افغان حکومت کے خلاف برسوں کی جنگ کے دوران نام نہاد ‘ہلمند کونسل’ کی قیادت کی تھی۔
وہ امریکی پابندیوں کا شکار طالبان رہنماؤں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
اگست 2021 میں جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو افغانستان میں انڈین سفارت خانے اور قونصل خانے کے سفارت کار اور عملہ عجلت میں افغانستان سے نکل گیا تھا۔انڈیا خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں بہت سست رہا ہے۔طالبان نے ابتدائی طور پر پہلگام حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک اور بیان میں انتہائی محتاط زبان میں کہا تھا کہ ’یہ بحران خطے کے مفاد میں نہیں۔
ادھر بی بی سی کا کہنا ہے کہ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ابراہیم صدر ایک سخت گیر فوجی کمانڈر ہیں جنھوں نے مئی 2021 میں جنوبی ہلمند صوبے میں طالبان کی جانب سے لڑائی کی قیادت کی۔ سنہ 90 کی دہائی میں وہ طالبان دور میں نائب وزیرِ دفاع رہے۔ اطلاعات کے مطابق ابراہیم صدر کی پیدائش سنہ 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی۔
بی بی سی نے بتایا کہ مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ان کی طالبان کے سابق رہبرِ اعلیٰ ملا اختر منصور کے ساتھ وابستگی بھی تھی اور یہ بات طالبان میں ان کی اہمیت اور اثرورسوخ کا پتا دیتی ہے۔ ابراہیم صدر کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ ان طالبان فوجی رہنماؤں میں سے ہیں جن کے ایران کے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس سے قریبی روابط ہیں