محبوب الرحمن فاروقی
(اس مضمون کو صاحبان دل فکایہ سمجھ کر پڑھیں اور صاحبان دماغ کو اگر کوئی بات لگ جائے تو اسے عبرت سمجھیں اور دوسروں کو بھی اسے حاصل کرنے کاموقع دیں۔)
جی ہاں! میں یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کا پروفیسر اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ ہوں۔ میرے نام اور عہدے سے فائدہ اٹھاکر سمیناروں کی اہمیت بڑھانے کے لئے میری فیس صرف 500 روپے ہے، باقی آپ کی اس تنظیم کے لئے۔
میرا نام اور میراعہدہ جس حد تک فائدہ مند ہو سکتا ہے، اسی حساب سے میری فیس بھی مختلف کاموں کے لئے مختلف ہو سکتی ہے۔ مثلاً آپ کے یہاں ہر ماہ ہونے والی دس پندرہ غیر ضروری میٹنگوں میں شرکت کے لئے TAنیز DA اور لنچ کے ساتھ جو فیس آپ دیتے ہیں، وہ قابل قبول ہوگی۔ کتابوں کے لئے مضامین لکھنا تو میرے لئے باعث شرم ہوگا، لیکن ابتدائیہ، پیش لفظ اور اس طرح کی دوسری چیزیں لکھ سکتا ہوں۔ میری مرتب کردہ کتابوں کی اشاعت کے لئے میرے عہدے کے مطابق اگر آپ جائز معاوضہ دیں گے اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے لئے اگر آپ مجھے برابر استعمال کرکے مالی فائدہ پہنچاتے رہیں گے تو اس میں آپ کا بھی مناسب کمیشن شامل ہوگا۔ یہ نہ بھولئے کہ میں نہ صرف اس بڑی یونیورسٹی کا پروفیسر بلکہ ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ بھی ہوں۔ ملک کی سبھی یونیورسٹیوں کے پروفیسروں، ریڈروں اور لیکچروںسے میری ذاتی دوستی ہے۔ میں ان سب کو وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے مختلف کاموں کے ذریعہ مالی فائدہ پہونچاتا رہتا ہوں۔ مثلاًکبھی امتحان کی کاپیاں جانچنے کے لئے، کبھی امتحانات کے پرچے بنوانے کے نام پر، کبھی ماڈریشن اور نصابی کتابوں کے جائزے کے لئے کمیٹی میں شامل کرکے، کبھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے VI-vaکے لئے، کبھی تھیسس کا ممتحن بنا کر، کبھی شعبہ کی طرف سے ہونے والے سمیناروں اور دیگر کمیٹیوں میں بلا کر میں ان کو مالی فائدہ پہونچاتاہوں اور بدلے میں وہ کبھی مجھے مالی فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ اس طرح میرے تعلقات وقیع ہیں۔ آپ کوئی کتاب،کوئی مضمون شائع کریں گے یا میٹنگوں کی روداد شائع کرائیں گے تو میرے یہ سارے دوست و احباب آپ کی تعریف میں ہزاروں خطوط لکھیں گے اور جو کتابیں آپ کے یہاں سے شائع ہوں گی، اس پر ایسے شاندار تبصرے شائع ہوں گے، جن سے نہ آپ صرف ایک عرصے تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے، بلکہ وزارت میں بھی آپ کو کافی شاباشی ملے گی۔ میں آپ کو فائدہ پہنچاؤں اورآپ مجھے اس ہاتھ سے دے اور اس ہاتھ سے لے، یہی دنیا کا دستور ہے۔ ہمارے شعبے میں بلکہ ہر جگہ شعبہ اردو میں لگا ہوا پروفیسر، ریڈر اور لیکچرر یہی کام کرتا ہے۔ ہمارے پاس ریسرچ اسکالروں کی ایسی فوج ہوتی ہے، جنہیں جب جہاں جس طریقے سے چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ رہی بات شعبوں میں پڑھانے کی تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ جہاں اتنے اہم کام درپیش ہوں وہاں پڑھنے میں اپنا وقت کون برباد کرے۔ جب کوئی طالب علم تنگ کرتا ہے تو ہم کلاسوں میں جاکر وہی اپنی طالب علمی کے زمانے میں نوٹس جنہیں ہمارے استاد نے لکھایا تھا، انہیں بھی لکھادیتے ہیں۔ باقی جو وقت بچتا ہے، وہ ہم شعبے میں ایک دوسرے کے خلاف سازش کرنے، ٹانگ کھینچنے اور مزید مالی فائدے کے لئے منصوبے بنانے میں خرچ کرتے ہیں۔
جی ہاں! کیونکہ یہ ساراکام اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ لے کے حساب سے چلتا ہے، اس لئے طالب علم امتحان کی کاپیوں میں جو لکھتے ہیں اور ایم فل یا پی ایچ ڈی کے لئے جس طرح کی وہ تھیسس ادھر ادھر کی کتابوں سے نقل کرکے جمع کرتے ہیں، انہیں پڑھنے اور جانچنے کے لئے ہم میں سے کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ہم میں اور طلبا کے درمیان ایک غیر تحریری سمجھوتہ ہوتا ہے کہ جو طالب علم مختلف طریقے سے فائدہ پہنچائیں گے، ہمارے گھروں پر کام کاج کریں گے، ان کے بارے میں ہم اپنے طے شدہ ممتحن کو خط لکھ دیتے ہیں، اسے اسی حساب سے نمبر ملتا ہے یا اس کی تھیسسApprove ہو جاتی ہے۔
جی ہاں! میں دہلی کی ایک قدیم ترین یونیورسٹی کا پروفیسر ہوں، اگرچہ میں اس وقت شعبہ کاہیڈ نہیں ہوں، لیکن بوقت ضرورت اگر سمیناروں کے لئے میرے نام کی ضرورت ہو تو آج بھی میرے نام کے آگے آپ ہیڈ لکھ سکتے ہیں۔ جی ہاں! میں بہت مذہبی آدمی ہوں، اس لئے اس طرح کی دروغ گوئی کو میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ میرے نام سے کسی شخص کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو میرا یہ عین مذہبی فرض بنتاہے کہ میں اس کی مدد کرں، (کیونکہ اس میں میرا بھی فائدہ ہوگا) رہ گیا سوال کہ موجودہ ہیڈ اس کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم لوگوں نے ان کے خلاف سازش کرکے ان کا جینا حرام کردیا ہے۔ اب اس بیچارے کی کیا ہمت ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ بتادوں کہ خود ہمارے شعبہ کے ایک ساتھ نے غیر تدریسی حلقے کی ایک خاتون کواسٹیج پر بلاکر ان سے پیپر پڑھانے کے خلاف کس قدر واویلا مچایا تھا، مگر آپ نے خود ہی دیکھا کہ جب میں نے آپ کو ایم فل کے Vivaکے لئے بلایا تو وہ شخص ہاتھ باندھ کر آپ کی حاشیہ برداری کر رہا تھا۔ کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اس بات کے خلاف احتجاج کرتا۔ آپ نے دیکھا شعبہ میں آج بھی میری کتنی چلتی ہے۔ لہٰذا آپ سال میں اگر میرا مختلف طریقوں سے پچاس ہزار کے قریب فائدہ کردیں تو میں آپ کے سامنے دو زانوں ہو کر سربسجدہ ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں۔
جی ہاں! میرا تعلق دہلی کے قریب مسلمانوں کی ایک بڑی مرکزی یونیورسٹی سے ہے۔ میں وہاں پروفیسر ہوں۔ پہلے میں اور پھر میرے ایک دوست ایک خودساختہ پروفیسر کے حاشیہ بردار رہے ہیں۔ اب آپ کا حاشیہ بردار ہونے کو بخوبی تیار ہوں، کیونکہ خود ساختہ پروفیسر سے ہمیں جوکچھ ملنا تھا، وہ حاصل کرچکے،اب آپ کی حاشیہ برداری کے ثبوت کے طور پر میں وہ خط پیش کرسکتا ہوںجسے آپ نے اپنے عالم اردو میں شائع کیا ہے۔ آپ نے خود ہی دیکھا ہوگا کہ آپ کے دوصفحے کے مضمون کی میں نے کس حدتک قصیدہ خوانی کی ہے۔ بس آپ مجھے میٹنگوں اور مختلف کاموں کے لئے بلاتے رہیں۔ میں آپ کے لئے کسی درباری صاحب سے کم نہیں ثابت ہوں گا۔
جی ہاں!میں دہلی کی ایک مشہور یونیورسٹی کا صرف پروفیسر ہی نہیں بلکہ صدر شعبہ بھی ہوں۔ میں نے گزشتہ سال دو بین الاقوامی سمینار کرائے ہیں۔ ان کی رپورٹ آپ کو مل چکی ہوگی۔ میرا کارنامہ یہی نہیں کہ میں نے ان سمیناروں کے لئے مختلف جگہوں سے لوگوں کو بلاکر جمع کیا، بلکہ میں نے تو کسی کو خرچ بھی نہیں دیا۔ نہ آمدو رفت کا نہ ہی پیپر پڑھنے کا، اس کے بعد بھی میری کتنی واہ واہی ہوئی۔ یہ بھی آپ کو معلوم ہے۔ اس طرح کے سمینار کرانے کا میرا جو تجربہ ہے، وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے، آپ کے لئے اس خرچ کے تمام کاموں میںبہت مددگار ہو سکتا ہوں۔دیکھئے، آپ ایسے پھٹیچر مضامین کی اشاعت پر نہ جائیے، جن میں شمالی ہند میں اردو زبان کی کسمپرسی کی داستان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔
ایسا ایک مضمون حال ہی میں ایک روزنامہ میں شائع ہوا ہے، جس میں مضمون نگار نے اردو پڑھنے پڑھانے پر طنز کیاہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اب داغ اور امیر مینائی کی شاعری کو پڑھ کر بچوں کو کیا حاصل ہوگا۔ آپ ہی بتائیے اگر اسی طرح کی سازش چلتی رہی تو اردو کے شعبوں میں داخلہ کون لے گا اور شعبہ کیسے چلے گا۔ جی ہاں! میں تواس معاملے میں اتنا سخت ہوں کہ ہمارے یہاں جرنلزم کا جو کورس چلتا ہے، اس میں داخلے کے لئے ایک ایسے ادارے سے ایک خاتون تشریف لائی تھیں جہاں میرے شاگرد جو میرے وفادار نہ ہو کر دوسروں کے وفادار ہیں، بھی کام کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس خاتون کے مضامین تمام بڑے چھوٹے اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوتے ہیں اور اس نے اردو میڈیم سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات بھی پاس کئے ہیں،لیکن چونکہ اس نے بی اے میں اردو ادب بطور ایک اختیاری مضمون نہیں لیا تھا،اس وجہ سے میں نے ان کا داخلہ نہیں لیا۔ اس طرح اپنے ان نالائق شاگردوں سے بھی انتقام لیا۔ دیکھاآپ نے میں کس طرح لوگوں سے انتقام لیتا ہوں۔ یہ اس کی ایک جھلک تھی۔ میرے رہتے ہوئے کس کی مجال ہے کہ آپ کے خلاف کوئی ادبی زبان سے بھی کچھ کہہ سکے۔ لہٰذا میری اس دفاداری کا معاوضہ آپ اسی حساب سے ادا کریں۔ رہ گئی بات ہم سب کو ماہانہ ملنے والی تنخواہ30-35 ہزار کی تو وہ ہمیں اس جوڑ توڑ اور سازش کی بدولت ملتی ہے جو ہم نے یونیورسٹی میں تقرری کے وقت کیا تھا۔ آپ اطمینان رکھیں ہم نے اسی لئے اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم نہیں دی، کیونکہ اردو سے فائدہ اٹھانے کے لئے بہت تیز طرار شاطر ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔
qqq