مفتی امانت علی قاسمی
( استاذ و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند)
اسلام میں مساجد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، آپﷺ کی زندگی اور طرز عمل سے مساجد کا کردار،مساجد کی اہمیت اور اس کے آداب و تقاضے معلوم ہوجاتے ہیں۔آپﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو خود اپنا گھر تعمیر کرنے سے پہلے آپ نے مسجد کی تعمیر کی طرف توجہ دی۔مساجد کے بنیادی کاموں میں عبادات،تلاوت قرآن اور ذکرو اذکار شامل ہے۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیاتھا تو آپ نے فرمایا کہ مساجد اس طرح کی گندگی پھیلانے کی جگہ نہیں ہے ؛بلکہ مساجد نماز،اذکار اور قرآت قرآن کے لیے ہے۔ إن ہذہ المساجد لا تصلح لشیء من ہذا البول، ولا القذر إنما ہی لذکر اللہ عز وجل، والصلاۃ وقرائۃ القرآن او کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فأمر رجلا من القوم فجاء بدلو من ماء فشنہ علیہ(صحیح مسلم ،باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات إذا حصلت فی المسجد، وان الارض تطہر بالماء، من غیر حاجۃ إلی حفرہا حدیث نمبر: 285)
آپ ﷺ نے مساجد کے احترام کی بڑی تلقین فرمائی اور مساجدمیں شورو غل، کرنے، مساجد کی بے توقیری کرنے اور مساجد میں گندگی پھیلانے سے منع فرمایا؛ اسی وجہ سے بہت چھوٹے بچوں کو جو مساجد میں پیشاب کرکے مساجد کو ناپاک کرسکتے ہیںآپ نے ان کو مسجد میں لانے سے منع فرمایا:عن واثلۃ بن الاسقع، ان النبی – صلی اللہ علیہ وسلم – قال: ’’جنبوا مساجدکم صبیانکم، ومجانینکم، وشرارکم، وبیعکم، وخصوماتکم، ورفع اصواتکم وإقامۃ حدودکم، وسل سیوفکم، واتخذوا علی ابوابہا المطاہر، وجمروہا فی الجمع(سنن ابن ماجہ،باب مایکرہ فی المساجد،749)حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بچوں، مجنونوں اور شرارت پسندوں سے اپنی مساجد کو دور رکھو ، اسی طرح مساجد میں خرید و فروخت کرنے اور مقدمات کے فیصلہ کرنے ، آواز بلند کرنے ،حدود قائم کرنے اور تلوار سوتنے سے بچو! اور مسجد کے دروازے پر وضو خانہ بناؤ اور مسجد میں جمعہ کو دھونی دو ۔
اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ عہد نبوی میں اور عہد صحابہ میں نماز و اعتکاف کے علاوہ دیگر اجتماعی اعمال جن کا تعلق مفاد عامہ سے تھامساجد میں انجام دیا جاتا تھا۔آپ ﷺ کے زمانے میں قیدیوں کو مساجد میں قید کیا جاتا تھا، عہد صدیقی تک مساجد کو قید خانے کے طورپر استعمال کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں باضابطہ قید خانہ تعمیر کیا گیا اور اس نظام کو مساجد سے علیحدہ کیا گیا۔لم یکن فی عہدہ – صلی اللہ علیہ وسلم – وابی بکر سجن، إنما کان یحبس فی المسجد او الدہلیز حتی اشتری عمر – رضی اللہ تعالی عنہ – دارا بمکۃ باربعۃ آلاف درہم واتخذہ محبسا.(رد المحتار، فصل فی الحبس،5/377)
عہد نبوی میں مسجد میں مجاہدین اسلام شمشیر زنی او رنیزہ کی مشق کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مسجد میں حبشی مسلمان نیزہ کی مشق کررہے تھے میں نے یہ مشق آںحضرت ﷺ کے شانوں کے سہارے سے دیکھی ۔اسی طرح عہد نبوی میں مساجد میں کھانا پینا بھی ہوتا تھا؛ اس لیے کہ اس وقت بہت سے مسلمانوں کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا وہ لوگ مسجد میں سوتے او رمسجد میں کھانا کھاتے تھے۔ حدیث میں ہے عبد اللہ بن حارث بن جز کہتے ہیں: کنا ناکل علی عہد رسول اللہ ﷺ فی المسجد الخبز و اللحم (ہم لوگ حضور ﷺ کے زمانے میں مسجد میں گوشت روٹی کھاتے تھے)(ابن ماجہ، باب الاکل فی المسجد، 1/245،حدیث نمبر:3300)
حضرات فقہانے معتکف اور مسافر کے لیے مسجد میںسونے کو مطلقا جائز لکھاہے اور غیر معتکف کے لیے سونے کے جواز و عدم جواز میں اختلاف ہے ،بعض لوگوں نے بوقت ضرورت بلا کراہت جائز کہا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے جوانی میں مسجد میں سونا ثابت ہے ؛بلکہ امام بخاریؒ نے ایک باب’’باب نوم المراۃ فی المسجد‘‘کا قائم کیا جس میںانہوں نے عورتوں کے لیے مسجد میں سونے کو ثابت کیا ہے۔
اسی طرح مفاد عامہ سے متعلق چیزوں کو مسجد میں رکھنے کی اجازت ہے یعنی ایسی چیز جو کسی خاص کی ملکیت نہ ہو بلکہ اس کا تعلق عام مسلمانوں سے ہو مسجدمیں رکھی جاسکتی ہے اوروہاں بیٹھ کر مسلمانوں میں تقسیم بھی کی جاسکتی ہے،آپ ﷺ کے زمانے میں مال غنیمت اور صدقات کے اموال مسجد میںتقسیم ہوتے تھے۔ ابن حجرؒ نے لکھا ہے: کہ موسم گرما میں پینے کا پانی رکھاجاسکتا ہے(فتح الباری 1/349)۔
مساجد میں تعلیم کی تاریخ بھی مساجد کی طرح ہی قدیم ہے ۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں جہاں جہاں مسجدیں قائم ہوئیں ان میں نظام جمعہ و جماعت کے ساتھ تعلیم کا بھی نظم تھا۔ مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحیؒ نے’’اسلام کا نظام مساجد‘‘ نامی کتاب میں لکھا ہے کہ چوتھی صدی ہجری تک مساجد میں تعلیم کا نظام جاری رہا ہے کتب احادیث و تراجم میں متعدد مدرسوں کے نشانات ملتے ہیں جو مسجدوں میں قائم تھے جہاں مدرسین بلا معاوضہ درس و تدریس کا سلسلہ جاری کئے ہوئے تھے۔ہندوستان کی چندایسی قدیم مساجد ہیں جن سے مدرسہ کا کام لیا جاتا تھا ان میں جون پور میںاٹالہ کی مسجد، لاہور میں وزیر خان کی مسجد، نئی دلی میں ماہم بیگم کی مسجد ،پرانی دہلی میں مسجد فتحپوری اور سورت میں مرجان شامی کی مسجد خصوصیت سے قابل ذکر ہے (اسلام کا نظام مساجد ص: 198)
بہر حال اسلام میں مساجد کا جو تقدس ہے اس کی عظمت کا تقاضا یہی ہے کہ مساجد کو شوروغل اور عبادت کے علاوہ دیگر غیر ضروری مشاغل سے پاک رکھاجائے،اسی وجہ سے دھیرے دھیرے جیسے جیسے سہولیات ہوتی گئیں مساجد سے دیگر امور کا استثنی ہوتارہا یہی وجہ ہے اب حضرات فقہاء عام آدمی کے لیے بلا ضرورت مسجد میں کھانے پینے او رسونے کو مکروہ قرار دیتے ہیں،اسی طرح مسجد میں سیاسی پروگرام کرنے یا ورزش اور دیگر کھیل کود سے منع کرتے ہیں۔جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو حضرات علماء نے آج بھی غیر اقامتی دینی تعلیم کی اجازت دی ہے؛ چنانچہ آج بھی مسجد نبوی اور مسجد حرام میں تعلیم کے حلقے لگتے ہیں۔اس لیے کہ بلا اجرت کے اس طرح تعلیم دینا یہ عبادت ہے اور مساجد عبادت کا محل ہیں ۔
٭ مساجد میں جو کام آج بھی کئے جاسکتے ہیں اور کرنے چاہیے ان میں یہ ہے کہ ہر مسجد میں امام و مؤذن کو لازمی طورپر رکھاجائے اور اس مسجد کے مصلیان اس کے اخراجات برداشت کریں ، اسی کے ساتھ ہر مسجد میں مکتب کا نظام قائم کیا جائے ۔جب ہر مسجد میں امام و مؤذن ہوں گے تو اس طرح کم از کم دو مکاتب لازمی طورپر قائم ہوسکتے ہیں او رمساجد کے امام و مؤذن کی امامت کے علاوہ دوسرے دینی کام سے وابستگی بھی ہوگی اوران کے معاشی مسائل کا بھی کچھ مداوا ہوگا۔ نظام مکاتب کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بچوں کا تعلق مسجد سے مربوط ہوگا اس طرح مسلم بچے اور بچیاں مسجد کے ماحول سے مانوس ہوکر اسلامی نظام سے مربوط ہو ں گے موجودہ ماحول میں جب کہ مغرب کی آندھی ہر طرف چل رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ طوفان بلا خیز ہماری تہذیبوں کو بہا لے جائے گا ضروری ہے کہ مساجد کے ذریعہ ایسی مضبوط باندھ قائم کی جائے کہ کوئی بھی ناگہانی سیلاب کی ہم روک تھام کرسکیں۔
٭ہر مسجد میں تعلیم قرآن اور تعلیم بالغان کے حلقے قائم کئے جائیں ، آج بھی مسجد نبوی اور مسجد حرام میں بلکہ عرب کی اکثر مساجد میں یہ حلقے لگتے ہیں جس سے عام لوگوں میں تصحیح قرآن کی رغبت قائم ہوتی ہے ۔بے دینی کے اس ماحول میں ہمارے درمیان ایک بڑا طبقہ ہے جو قرآن کی تعلیم سے دور ہے آج قرآن سے جوڑنے کے لیے اس طرح کے حلقے قائم کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔
٭دینی مسائل کے حلقے لگائے جائیں علماء او رائمہ کی ذمہ داری ہے کہ فی سبیل للہ کچھ وقت مساجد کے لیے مختص کریں او ریہ اعلان کریں کہ دینی و سماجی مسائل کی رہنمائی کے لیے آپ فلاں وقت میں تشریف لائیں ۔صورت حال یہ ہے کہ آج طلاق کا مسئلہ بتانے والا کوئی نہیں ہوتا ہے اس لیے جذبات میں آکر ہمارے نوجوان طلاق دے دیتے ہیں پھر جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ اب تعلقات کی بحالی کی کوئی صورت نہیں ہے تو بہت پریشان ہوتے ہیں اس میں کسی حد تک ہمارا بھی قصور ہے کہ ہم نے اس طرح کا ماحول قائم نہیں کیاجس سے وہ عائلی اور سماجی مسائل میں رہنمائی حاصل کرسکیں۔ اگر اس طرح مساجد میں مسائل کے بتانے کا نظام قائم کیا گیا ہے تو مسجد کا مرکزی کردار بحال ہوگا اور مساجد سے امت کو وہ روشنی ملے گی جس کی اس وقت ضرورت ہے ۔
٭ مساجد میں ہر محلہ کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو سماج میں موجود برائی پر نظر رکھے اور منکرات کی روک تھام کے لیے لائحہ عمل طے کرے ،طلاق ونکاح کے جو واقعات ہوتے ہیں اس کی روک تھام اور اصلاح کی جدوجہد کی جائے میراث کی تقسیم میں جو خاندانی اختلافات بسااوقات پورے علاقے کے لیے مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں اس کو قابو میں لانے کی کوشش کی جائے ۔ اس میں علماء کرام کے ساتھ سماج کے ذمہ دار حضرات شریک ہوں اور سماج میں موجود خرابی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں اس لیے کہ اگر سماج کے باشعور طبقہ نے اس طرف توجہ نہیں دی اور صرف اپنے گھر تک اپنے اصلاحی مشن کو محدود رکھا تو معاشرے میں موجود منکرات کی چنگاری ایک دن پورے معاشرے کو خاکستر کردے گی ۔
یہ کمیٹی سماج میں موجود کمزور و خستہ حال لوگوں پر بھی نظر رکھے ، جو بچے غربت و مفلسی کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں ان کی تعلیم کی فکر کرے ، جو بیوہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے اور ان کے گزارے کا کوئی نظم نہیں ہے وہ کمیٹی چاہے تو اپنی زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کرے اگر اس جانب توجہ دی گئی تو مساجد بنیادی کردار ادا کریں گے اور ایک خوش حال دیندار ،خوش گواراور آئیڈیل معاشرہ وجود میں آئے گا۔