کابل :(ایجنسی)
آئندہ ماہ یعنی مارچ سے افغانستان میں لڑکیوں اور نوجوانوں کو دوبارہ اسکول جانے کی سہولت میسر ہوگی۔ یہ کہنا ہے طالبان حکومت کے ترجمان اور ثقافت اور اطلاعات کے امور کے نائب وزیر ذبیح اللہ مجاہد کا۔ انہوں نے خبر رساں ایجنسی ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی) کو ایک انٹرویو میں کہا تھا، ’’لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم دراصل صلاحیت یا ہماری استطاعت کا مسئلہ ہے۔ ہم اس مسئلے کو آئندہ برس تک حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسکول اور یونیورسٹیاں کھل سکیں۔‘‘
تعلیم کی فراہمی میں مشکلات
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اسکول کی لڑکیوں کے لیے ہاسٹلز کی شدید کمی ہے۔ طالبان کا نظریہ، بلکہ شرط یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس روم الگ الگ ہوں۔ یہی نہیں بلکہ گنجان آباد علاقوں میں لڑکے اور لڑکیوں کے کلاس رومز کو الگ الگ رکھنا بھی طالبان کے لیے کافی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے اسکول کی عمارتیں ہی الگ الگ ہوں۔
ایک جرمن تھنک ٹینک ‘کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن‘ کے کابل میں قائم دفتر کی سربراہ ایلینور زینو اس سال کے موسم گرما تک اس دفتر کی سربراہی کرتی رہیں گی تاہم طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے وہ تاشقند میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوبارہ ملک پر قابض ہونے کے بعد شروع سے ہی یہ کہا ہے کہ وہ بنیادی طور پر تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، بشمول لڑکیوں کی تعلیم کے۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے زینو کا کہنا تھا کہ طالبان اس پر عملدرآمد بھی کریں گے، کم از کم کسی حد تک۔ تاہم زینو کا اشارہ طالبان کی طرف سے رکھی گئی دو بنیادی شرائط کی طرف ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک طرف تو طالبان اسکولوں میں اور عمومی طور پر عوامی زندگی میں بھی صنفی علیحدگی کے قائل ہیں۔ دوسری جانب طالبان کی کڑی نظر تعلیمی نصاب پر ہے جسے ان کے مذہبی نظریات کے حساب سے ہونا چاہیے۔ اس بارے میں سامنے آنے والے بیانات بہت ہی مبہم ہیں۔ زینو کہتی ہیں، ’’یہ نقطہ میرے لیے بہت ہی اہم ہے۔ میرے خیال میں مستقبل میں افغانسان میں لڑکیاں اسکول تو جا سکیں گی تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ وہاں کیا سیکھیں گی۔ کیسا درس حاصل کریں گی؟‘‘
‘اسلامی سیاق و سباق کا حوالہ
’کونراڈ آڈیناؤر فاؤنڈیشن‘ کے کابل دفتر کی سربراہ ایلینور زینو افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے چند چھوٹے اور بنیادی اقدامات کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ افغانستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ قدامت پسند ہے۔ قدامت پسند صوبوں میں 12 سے 14 سال کی عمر میں لڑکیوں کو اسکول سے نکال لینے کا رواج عام ہے۔ ان علاقوں کے باشندے انہیں عوامی یا پبلک مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دینا چاہتے۔ ایک خاص سماجی دباؤ کے تحت۔‘‘