تحریر وسعت اللہ خان
صرف نو دن میں ہی پورا ملک اس ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چلا گیا اور ابھی آخری امریکی فوجی کے نکلنے میں سولہ دن باقی ہیں یا سولہ گھنٹے؟ کوئی آنکڑا کام نہیں آ رہا۔ ستاروں کی گردش اس قدر تیز ہے کہ یہ کالم بھی چھپتے ہی پرانا ہو جائے گا۔
جنگ نہ ہوئی ٹوئنٹی ٹوئنٹی ہو گیا۔ مگر اتنی تیزی سے تو افغان کرکٹ ٹیم کی وکٹیں بھی کبھی نہیں اڑیں جس رفتار سے 34 صوبے اڑ گئے۔ اب تو نیوز ڈیسک سے اٹھ کر واش روم تک جانے کا بھی حوصلہ نہیں پڑتا۔ مبادا ہلکے ہو کر واپس آئیں تو ایک اور حیران کن پیش قدمی کی رسید کٹ چکی ہو۔
ہم نے نادر شاہی سپاہ کی زد میں آئے ہنوز دلی دور است والے محمد شاہ کو نہیں دیکھا۔ البتہ ہنوز کابل دور است والے اشرف غنی کو ضرور دیکھ لیا۔
امریکی بھی بار بار اپنے سر پر ہاتھ پھیر کے چھوٹے بش کو یاد کر رہے ہیں جس نے نائن الیون کے بعد کہا تھا کہ اب ہم افغانستان کو دہشت گردی سے پاک کر کے خوشحالی، جمہوریت اور آزادی کا روشن مینار بنائیں گے۔ اس چکر میں 20 برس کے دوران دو ٹریلین ڈالر اور ڈھائی ہزار مغربی فوجیوں کا بلیدان ہو گیا مگر دم سیدھی نہ ہو پائی۔
جو نسل سقوطِ سائیگان کے بعد پیدا ہوئی اس کے لیے کابل کا نظارہ حاضر ہے۔ کاش زلمے خلیل زاد وہ قیمتی جنگی کھلونے بھی دوحہ معاہدے کے ساتھ ہی طالبان کے حوالے کر دیتے جنہیں اب طالبان بطور سواری انجوائے کر رہے ہیں۔
سوویت انخلا کے بعد نجیب اللہ کی سپاہ ساڑھے تین برس تک کھڑی رہی۔ سپاہی صرف دو سبب سے جان دینے پر آمادہ ہوتا ہے۔ نظریے کے لیے یا پھر وطن کے لیے۔ سپاہی تب تک کھڑا رہتا ہے جب تک اس کا کمانڈر بھی کھڑا رہے۔
جب یہ خبر راز نہ رہے کہ حکمران طبقہ اور ان کے کمانڈر سپاہی کو صرف اس لیے جھونکنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی اپنی کرپشن و اقربا پروری اور بندر بانٹ کا انتظام سلامت رہے تو پھر سپاہی کس خوشی میں اپنے مورچے پر ڈٹا رہے گا۔
افغان حکمران طبقے کو 20 برس کی کھڑکی ملی تھی اپنے ملک کو کھربوں ڈالر کی مدد سے سنوارنے کے لیے۔ ساڑھے 19 برس تک اس کھڑکی کو ڈالروں کے بنڈل باہر پھینکنے کے لئے استعمال کیا گیا اور اب یہ طبقہ خود اسی کھڑکی سے کود کر چمپت ہو رہا ہے۔ رہے چار کروڑ افغان تو وہ تو پچھلے چالیس برس سے آگے کنواں پیچھے کھائی کے درمیان پھنسے رہنے کے تجربہ کار ہو چکے ہیں۔
وہ لوگ جو افغانستان کے دوبارہ تاریک دور میں جانے کی دہائی دے رہے ہیں۔ یہ وہی تو ہیں جو اسی اور نوے کی دہائی میں مجاہدین کو بھی نئے افغانستان کا نقیب سمجھ کے دامے درمے سخنے ہر طرح سے پیٹھ تھپتھپا رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ جس پاک باز گروہ کا ہاتھ واشنگٹن، لندن، ریاض اور اسلام آباد نے تھاما ہے وہ یقیناً سوویت نواز خراب مسلمانوں کے مقابلے میں معقول گروہ ہی ہو گا۔
بعینِہ اب سے پندرہ دن پہلے تک ازقسمِ حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم اور اشرف غنی وغیرہ وغیرہ بھی معقول لوگ ہی تھے ورنہ ساہوکار امریکہ اپنے ٹیکس زدگان کی کمائی کسی ایرے غیرے پر یونہی تو نہیں لٹاتا۔
پر یہ کیا ہوا؟ یہ تو بے جگری سے لڑتے لڑتے قیدی بننے والے پورس کے ہاتھی تک ثابت نہیں ہوئے۔ آج امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان سے لے کر بائیڈن تک ہر شخص کچھ یوں اوور ایکٹنگ میں مبتلا ہے گویا سب کچھ آج ہی آشکار ہوا ہو۔
امریکی آڈیٹرز پچھلے دس برس سے چیخ رہے تھے کہ افغان قیادت کی جیبوں میں بلیک ہول جتنا سوراخ ہے۔ انھیں افغان سے نہیں افغانی سے غرض ہے۔ جتنی سرمایہ کاری انھوں نے خلیجی ریاستوں میں کی اس سے آدھی میں افغانستان دوبئی بن سکتا تھا۔ پر ہوا یوں کہ بے وقوف کا مال مسخرے پی گئے۔
افغانستان ایک سرنگ سے ایک اور سرنگ میں داخل ہو گیا ہے۔ پچھلے چالیس برس کے دوران ’رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو‘ کی عملی تصویر افغانوں کے دلوں سے خوف کا خوف بھی چلا گیا۔ اب کوئی لاکھ شور مچائے کہ بھینس بھینس ہوشیار، تجھے چور لے چلے۔ تو بھینس نے بھی پلٹ کر یہی کہا تھا کہ تو بھی محض چارے پر ٹرخا کے دودھ دوھتا رہا۔ دوسرا بھی یہی تو کرے گا۔
امید کی اگر کوئی کرن ہے تو بس اتنی کہ بہت جلد وہاں ایک عارضی سا سکوت ہو جائے گا۔ لوگ خود کو زیادہ تر گھروں تک محدود رکھیں گے مگر ان کے گھر تو ہوں گے۔ رہی مال پیٹ اشرافیہ، تو کابل اور مزارِ شریف نہ سہی دبئی، استنبول، ٹورنٹو اور میامی سہی۔
جو تین میں نہ تیرہ میں قسم کے عام لوگ پچھلے چار عشروں میں اپنی دھرتی سے کھدیڑے گئے ان کی سنہرے بالوں، نیلی آنکھوں والی تیسری گول مٹول نسل آج بھی پاکستان کے مختلف شہروں میں کچرا چن رہی ہے۔ یہ مخلوق نہ افغان ہے نہ پاکستانی۔ یہ تو منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا کابلی ایڈیشن ہے۔
اب ایک اور کام نکل آیا ہے۔ وار کالجز، سٹرٹیجک سٹڈیز سے منسلک ادارے اور تھنک ٹینکس بھاری بھاری فیلو شپس جاری کریں گے تاکہ تحقیق ہو سکے کہ طالبان نے ایسی برق رفتار عسکری منصوبہ بندی کیسے کر لی؟ خود بنائی کہ کہیں سے امپورٹ کی؟
نیز افغان فوج کس معیار کے ری سائیکلڈ گتے سے گوندھی گئی تھی اور اس کی جنگی حکمتِ عملی کس تھکیلے ڈرافٹسمین نے تیار کی تھی۔ میں اس لال بھجکڑ کا دیدار چاہتا ہوں۔ اب سے دس برس پہلے کسی جونیئر طالب کمانڈر نے کسی مغربی صحافی سے کہا تھا ’تمہارے پاس گھڑی اور ہمارے پاس وقت ہے۔‘
آج کہاں ہوگا وہ طالب؟ میں آٹوگراف لینا چاہتا ہوں۔
رہ گئے ہم۔۔۔ تو ہمیں بس اس سے غرض ہے کہ افغانستان ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش کا اڈہ نہ بنے اور بالخصوص مغرب کو دہشت گردی ایکسپورٹ نہ کرے۔
رہی بات افغانوں کی اگلی نسل کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مستقبل کی تو وہ جس ببول کے سائے میں بھی رہیں خوش رہیں۔ بس ہمیں اور تنگ نہ کریں۔
(بشکریہ:بی بی سی )