امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز غزہ پٹی میں اسرائیلی جنگی مقاصد کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہا کہ حماس کو ”ختم ہونا چاہیے۔‘‘ اس اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار نے اس تائید کا اعادہ آج 16 فروری کو مشرق وسطیٰ کے اپنے علاقائی دورے کے آغاز پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کیا۔ روبیو کا بطور وزیر خارجہ اس خطے کا یہ پہلا دورہ ہے تاہم ان کے مذکورہ بالا بیان نے غزہ میں پہلے ہی سے متزلزل جنگ بندی کے مستقبل کو مزید شکوک میں ڈال دیا
امریکی وزیر خارجہ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینی آبادی کو غزہ کی پٹی سے باہر منتقل کرنے اور اسے امریکی ملکیت میں دوبارہ تعمیر کرنے کی تجویز پر عرب رہنماؤں کی جانب سےمخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نےامریکی صدر کے اس منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اور ٹرمپ کے پاس غزہ کے مستقبل کے لیے ”مشترکہ حکمت عملی‘‘ موجود ہےقیدیوں کی تعداد، ایک دیرپا جنگ بندی اور اسرائیلی افواج کے انخلا پر ابھی تک بات چیت باقی ہے۔ روبیو نے کہا کہ حماس ”فوجی یا حکومتی فورس کے طور پر قائم نہیں رہ سکتی۔‘‘
مارکو روبیو کے بقول، ”جب تک یہ (حماس) ایک ایسی طاقت کے طور پر کھڑی ہے، جو حکومت کر سکتی ہے یا ایک ایسی قوت کے طور پر جو انتظامیہ چلا سکتی ہے یا ایسی طاقت کے طور پر جو تشدد کے استعمال سے خطرہ بن سکتی ہے، امن ناممکن ہو جاتا ہے۔‘‘
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ”اس (حماس) کا خاتمہ ضروری ہے۔‘‘ تاہم مبصرین کے مطابق اس طرح کی زبان حماس کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے، جو جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود غزہ میں اب بھی ایک طاقت ہے۔
حماس نے لیکن اس طرح کے کسی بھی منظر نامے کو مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ابھی تک غزہ پٹی میں موبائل ہومز اور بھاری مشینری کے داخلے کی منظوری نہیں دی، جو کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت ضروری ہے۔