نقطہ نظر : ڈاکٹر محمد منظور عالم
اکیسویں صدی کے ہندوستان میں حالات ناگفتہ بہ ہیں ، اقلیتوں ، آدی واسیوں ، دلتوں اور کمزوروں پر لگاتار مظالم ڈھائے جارہے ہیں ، کسانوں سے بنیادی حقوق چھینے جارہے ہیں ، مساجد ، چرچ اور دیگر مذہبی عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہیں ، خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیاگیا ہے ، دستور ہند اور آئین کی پامالی کی جارہی ہے ، ملک کے خود مختار اداے آزادانہ طور پر کام کرنے سے گریز کررہے ہیں ، اہم عہدوں پر فائز افسران اور دوسرے عہدیدارن اپنے حلف نامہ کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ ایسے ماحول میں اقلیتوں ، آدی واسیوں ،دلتوں او رکمزور طبقات کے درمیان ناامیدی ، احساس کمتری اور دوسری شکایتیں پائے جانے لگی ہیں ،دن بدن حالات بدلتے جارہے ہیں ، فرقہ پرست طاقتوں ، شرپسندوں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے ان کی سرپرستی کی جارہی ہے ایسے حالات میں یہ سوچنا ضروری ہے کہ ہم کیا کریں ، ان حالات کا کس طرح مقابلہ کریں ، کس طرح موجودہ ماحول کو پرامن بنائیں ، ایسا کونسا طریقہ ہوسکتاہے جسے اپناکر ہم قوموں کے درمیان سے احساس کمتری اور نا امیدی کاخاتمہ کرسکیں۔زیر نظر تحریر میں کیسے ہی امور کا تذکرہ کررہے ہیں ۔
موجودہ حالات میں بنیادی کام تکریم انسانیت ہے جسے ترجیحی طور پر کرنے کی ضرورت ہے ، تکریم انسانیت کی بحالی کی کوشش کرنا ، طریقہ کار اختیار کرنا ، بالخصوص مسلمانوں کو اس کیلئے جدوجہد کرنا ، تکریم انسانی کیلئے علم کو پھیلانا ، علم کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ، علم کے ذریعہ پریشان حال لوگوں کی مدد کرناایسے کام ہیں جو اس وقت بنیادی طور پر ہمیں کرنے چاہیئے ، دستور ہندنے جو بنیادی پہلو دیاہے وہ آزادی ، مساوات ،انصاف اور بھائی چارہ ہے جسے دستوری نقطہ نظر سے آگے بڑھانے کی کوشش کرنا ہمارے مشن کا حصہ ہونا چاہیئے ۔
مختلف قوموں کو متحدکرنا ، ان کو ایک کرنا سبھی کی طرف سے مشترکہ کوششوں کے ذریعہ بھائی چارہ کو بر قراررکھنا ، دستور ہند کے مقدمات کو آگے بڑھانا ،اسے عوام کے درمیان عام کرنا ضروری ہے ۔
قرآن کریم میں تکریم انسانیت زور دیاگیاہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم نے بنی آدم کو مکرم بنایاہے ، بنی آدم میں دنیا کے تمام انسان شامل ہیں ، مذہب ، علاقہ ، نسل اورخطہ کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے ،اس کے علاوہ انصاف ، مساوات اور آزادی اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں۔
دوسر ی طرف آئین ہند میں بھی انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ کو تمہید بنایاگیاہے ، دستور ہند میں انسانوں کے درمیان رائج اونچ نیچ کے نظام کو ختم کرکے سبھی کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا حکم دیاگیاہے ۔ قرآن کریم میں ہم مسلمانوں کو جن احکامات کا پابندبنایاگیاہے ، آئین ہند میں بہت کچھ اس سے اخذ کیاگیاہے ۔ اس لئے ہم مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اور اسلامی تعلیمات کو مشعل راہ بناتے ہوئے اکرام انسانیت کو فرو غ دیں ، سبھی کے ساتھ یکساں سلوک کریں ، سماج میں رائج او نچ نیچ کے نظام کو ختم کرنے کیلئے تحریک چلائیں ،ا س مشن کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کیلئے عملی اقدامات کریں ، آئین ہندکو مضبوط بنانے اور اس پر عمل کرانے کی کوششوں پر زور دیں ، آئین میں اقلیتوں ، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزوروں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ، آئین کی مضبوطی سے اقلیتوں کے حقوق میں مضبوطی پیدا ہوگی ، جتنا آئین پر عمل ہوگا اتناہی اقلیتوں، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزورطبقات کو انصاف ملے گا ، جس قدر آئین کی پامالی کی جائے گی اسی قدر اقلیتوں، دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزور طبقات کے حقوق کی ر تلافی ہوگی ، لہذا تم انصاف پسند ، سیکولر عوام اور خاص طور پر مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی طور پر فروغ انسانیت ، اکرام انسانیت اور عوام کے درمیان انصاف ، مساوات ، آزادی اور بھائی چارہ کو فروغ دینے کیلئے کام کرے ، اس مہم کو بامقصد بنانے کیلئے سماج کے مختلف طبقات سے ملاقات کی جائے ، مختلف انداز سے ان کے ساتھ ملنے جلنے کا سلسلہ شروع کیا جائے ، انسانی حقوق ، انسانیت کی تعظیم اور اس جیسے امور پر ان کے ساتھ گفتگو کی جائے ، ان کے مسائل کا جائزہ لیاجائے ، سماج کے لوگوں سے ان کے مسائل معلوم کئے جائیں ، معاشرہ اور سماج میں کن پریشانیوں کا سامنا کرناپڑتاہے اس پر ان کے ساتھ گفتگو کی جائے ۔ ملاقات اور گفتگو کے دوران ہم آئین ہند کی بات کریں ، دستور ہند پر گفتگو کریں ، انسانوں کے بنیادی حقوق کا تذکرہ کریں ، ہندو مسلمان اور تمام شہریوں کے درمیان بغیر کسی مذہبی تفریق کے مشترکہ مسائل کی شناخت کرکے اس پر گفتگو کریں ، بات چیت کے درمیان کسی بھی مذہبی معاملہ کو نہ اٹھائیں ، سیاسی ، سماجی او رانسانی مسائل تک ہی گفتگو کو محدود رکھیں ، خاص طور پر آئین ہند کے نفاذ ، اس کی اہمیت اور اس کی تفصیلات کے بارے میں ہم بات چیت کا سلسلہ شروع کریں اور عوام کو یہ بتائیں کہ ہمارا آئین کتناجامع ، مستحکم اور لچکدار ہیں ، آئین میں تمام شہریوں کو یکساں حقو ق دیئے گئے ہیں ، اگر آئین پر عمل کیا جائے گا تو ملک میں کسی طرح کا کوئی فسا د نہیں ہوگا ، دو کمیونٹی کے درمیان کسی طرح کا کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوگا ، کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوں گے ، کسی کے عقید ے کوکوئی ٹھیس نہیں پہونچے گی ، ملک میں امن وسلامتی ہوگی ، شانتی اور ترقی ہوگی ، خوشحالی اور کامیابی نظر آئے گی ۔
سماج کے مختلف طبقوں سے گفتگو کے دوران ہم لاءاینڈ آڈر پر بات کریں ، غربت پر بات کریں ، ریپ کے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کریں ، چھوٹی چھوٹی ملاقات اور نشست کا علاوہ باضابطہ میٹنگ کرکے یا دوسرے پروگراموں میں بلاکر ان سے گفتگو کریں ، صورت حال سے انہیں واقف کرائیں ۔ملک کے مسائل پر گفتگو کریںہندوستان کی مثبت اور حقیقت پر مبنی تاریخ بیان کریں ، جنگ آزادی کی تاریخ کا تذکرہ کریں ، اسلاف واکابرین کی قربانیوں پر روشنی ڈالیں ، مذاکر ہ اور گفتگو کے دوران بلاجھجھک اور بغیر کسی تردد کے ہندوستان کی آزاد ی کیلئے مسلمانوں کو دی گئی جدوجہد او رقربانیوں کا تذکرہ کریں ، ملک کیلئے مسلمانوں کی خدمات سے انہیں آگاہ کرائیں ۔ملک میں بدلتے میں حالات اور موجودہ ماحول میں یہ ضروری ہوگیا کہ ہم برادران وطن اور اکثریتی سماج کے ساتھ کمیونیکشن کے فاصلہ کو ختم کریں ، تعلقات استوار کریں ، گفتگو کا سلسلہ شروع کریں ، بنیادی ایشوز ، انسانی مسائل اور حقیقت پر مبنی صورت حال پر گفتگو کریں ۔اس ملک کی آزادی او ر تعمیر کیلئے جن بزرگوں اور اسلاف نے جدوجہد کی تھی انہوں نے ہم پر یہ ذمہ داریاںعائد کررکھی ہیں کہ ہم پور ی دنیا کو ان کی خدمات اور قربانیوں کے بارے میں بتلائیں ۔
علاوہ ازیں قانون کے ماہرین، انتظامیہ کے اعلی افسران اور تحقیقیاتی ایجنسیوں کو بھی ہم صورت حال اور حقیقت سے آگاہ کریں ، اطلاعات بھیجنے کے سبھی طریقوں کو اپنائیں ، سوشل میڈیا ، میسیج ، ایمیل ، چیٹ اور دیگر تمام طریقوں کو اپناتے ہوئے اقلیتوں ، دلتوں ،آدی واسیوں اور کمزور پر ہونے والے ظلم کے بارے میں پوری دنیا کو بتائیں ، خاص طور پر ہومین راٹئس آرگنائزیشن ، ماہرین قانون ، ملی تنظیمیں ، انتظامیہ کے افسران اور شخصیات کو ہم باخبر کریں ، علاقائی سطح سے لیکر مرکزی سطح تک ہم انفارمیشن دیں اور ہر ظلم کو پوری ہمت ، جرات اور قوت کے ساتھ بے نقاب کریں ۔
یہ ملک بزرگوں کی امانت اور وراثت ہے ، اس کی حفاظت ، اس کی ترقی اور اس کی کامیابی تمام شہریوں کی بنیادی ذمہ داری ہے ، قانون کو سپریم بنانا ، لاءاینڈ آڈر کا قیام ، قانون کی حکمرانی ، سیکولرزم پر یقین ، جمہوریت کی پائداری اور عوام کے درمیان بیداری ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے جس پر کام کرنے کی ضرروت ہے ، اسے عملی جامہ پہنانا ہماری بنیادی ترجیحات میں شامل ہونا ضروری ہے ۔ ہماری ان کوششوںسے نفرت کی سیاست کا خاتمہ ہوگا ، ظلم کا سلسلہ تھمے گا ، اقلیتوں ،دلتوں ، آدی واسیوں اور کمزور طبقات کو انصاف ملنے کے آثار پیدا ہوں گے ۔ موجودہ حالات میں یہی بنیادی امور ہے جسے عام کرنے اور اس جانب لوگوں کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
(مضمون نگار آ ل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)