عبدالرشیدطلحہ رحمانی
شعبان ہجری تقویم کا آٹھواں مہینہ ہے؛ جواپنی رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے اعتبارسےماہ رمضان کےلئےپیش خیمہ کی حیثیت رکھتاہے،اس مہینے میں رمضان المبارک کے استقبال ،اس کےسایہ فگن ہونےسے قبل ہی اس کی مکمل تیاری اور مختلف ضروری امور سے یکسوئی کا بھرپورموقع ملتاہے،یہ وہ قابل قدر مہینہ ہے جس کی نسبت حضور اکرمﷺ نےاپنی طرف فرمائی اوراس میں خیرو برکت کی دعاء فرمائی،نیز اس ماہ کواعمال کی پیشی کا مہینہ قرار دیا اور امت کی اس سے غفلت و بے توجہی کی پیشین گوئی دی ۔
غور کیاجائے تو مستندروایات اور تاریخی واقعات کے تناظر میں اس ماہ کی بڑی فضیلت اوراہمیت معلوم ہوتی ہے۔وجہ تسمیہ:‘‘شعبان’’ تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق(پھیلنے اور عام ہونے) کے ہیں،چونکہ اس ماہ میں خیر کثیر پھیل جاتا ہےاس لئے اس کو شعبان کہاجاتاہےیا اس مہینے میں اہل عرب حرمت والےآخری مہینے رجب المرجب کے بعدلوٹ مار کے لیے منتشرہو جاتے تھےاس مناسبت سے اس کو شعبان کہتے تھے۔بعض علماء نے شَعبان کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ شعبہ سے ماخوذ ہے ؛جس کے معنی حصہ کے ہیں،اس مہینے میں اللہ تعالی کی رحمت وفضل کے خاص شعبہ جات کام کرنا شروع کردیتے ہیں ؛اس لئے بھی اسے شعبان سے موسوم کیاجاتاہے۔
اہم تاریخی واقعات :اس مہینے میں آپ ﷺکی دیرینہ تمناپوری ہوئی اورتحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا،اسی مہینے میں تاریخ اسلام کا عظیم غزوہ ،غزوۂ بنو المصطلق پیش آیا،اسی مہینےمیں آپ ﷺنے حضرت حفصہ اور جویریہ رضی اللہ عنہما سے نکاح فرمایا،تیمم سے متعلق احکام کا نزول اسی مہینے میں ہوا ،اسی مہینے میں حضرت حسین بن علیؓ ،حضرت زین العابدین اور حضرت ابوالفضل عباس وغیرہم کی ولادت ہوئی اور صحابہ وتابعین میں حضرت مغیرہ ؓ،حضرت انسؓ ،حضرت عرباضؓ ،اور امام ابوحنیفہ ؒ کی وفات ہوئی۔
بہ کثرت روزوں کا اہتمام :رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں روحانیت اور ملکیت کو بڑھانے کے لیے جہاں فرض روزوں کی تعلیم فرمائی، وہیں نفل روزے رکھنےکی بھی ترغیب دی بالخصوص ماہ شعبان میں آپ کا بہ کثرت روزےرکھنا منقول ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتےتو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کورمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔(صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969، صحیح مسلم:رقم الحدیث 1156)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔( جامع الترمذی: رقم الحدیث736،سنن النسائی: رقم الحدیث2180)
نوٹ:یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر” کل“ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں (نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا؟ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ایک مہینہ ہے جس کی برکت سے لوگ غافل ہیں، اس ماہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرے اعمال اس حال میں پیش ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔ (نسائی، مسند احمد، ابو داوٴد 2076)
بعض دیگر احادیث میں شعبان کے آخری دنوں میں روزہ رکھنے سے منع بھی فرمایا گیا ہے، تاکہ اس کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رکھنے میں دشواری نہ ہو۔ (بخاری، کتاب الصوم۔ مسلم، کتاب الصیام)
شعبان کے مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کثرت سے روزہ رکھنے کی علماء نے کئی حکمتیں بیان کی ہیں:
۱- چوں کہ اس مہینہ میں اللہ رب العزت کے دربار میں بندوں کے اعمال کی پیشی ہوتی ہے؛ اس لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ: میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال کی پیشی ہوتو میں روزے کی حالت میں رہوں، یہ بات حضرت اسامہ بن زیدؓکی روایت میں موجود ہے۔ (نیل الاوطار:۴/۲۴۶)
۲- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: پورے سال میں مرنے والوں کی فہرست اسی مہینے میں ملک الموت کے حوالے کی جاتی ہے؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں ملک الموت کو احکام دیے جائیں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوں۔ (معارف الحدیث: ۴/۱۵۵)
۳- رمضان المبارک کے قریب ہونے اور اس کے خاص انوار وبرکات سے مناسبت پیدا کرنے کے شوق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینہ میں روزے کا اہتمام کثرت سے فرماتے تھے، جس طرح فرض نمازوں سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے، اسی طرح فرض روزے سے پہلے نفلی روزے رکھا کرتے تھے اور جس طرح فرض کے بعد سنتیں اور نفلیں پڑھتے تھے؛ اسی طرح رمضان کے بعد شوال میں چھ روزے رکھتے اوراس کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے۔
پندرہویں شب :یوں تومکمل ماہِ شعبان مختلف جہتوں سے برکتوں اورسعادتوں کا مجموعہ ہے، خصوصاً اس کی پندرہویں رات جس کو شبِ برأت اور لیلۂ مبارکہ کہتے ہیں، باقی شعبان کی راتوں بلکہ تمام سال کی اکثر راتوں سے افضل ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ[ ایک رات] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اے عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں؛ بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ (شعب الایمان للبیہقی:رقم الحدیث 3554)
ایک اور روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (اے عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس سال جتنے انسان پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ اس سال میں مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں۔ اس رات بنی آدم کےا عمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔ (مشکوۃ المصابیح: رقم الحدیث1305)
اللہ کے رسولﷺ شعبان کے مہینے میں صحابہ کرامؓ کو اکٹھاکرتے اورخطبہ دیتے جس میں انھیں رمضان کے فضائل ومسائل بیان کرتے،رمضان کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اس کی تیاری کے سلسلے میں توجہ دلاتے۔
ایسے ہی خطبہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! عنقریب تم پر ایک عظیم الشان ماہ مبارک سایہ فگن ہونے والا ہے۔اس ماہ مبارک میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزارراتوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس ماہ کے روزے فرض کیے،اس کے قیام کو اپنی خوشنودی کا ذریعہ قراردیا،توجس شخص نے اس ماہ میں ایک چھوٹا سا کارخیرانجام دیااس نے دیگرماہ کے فرائض کے برابرنیکی حاصل کرلی،یہ صبراورہمدردی کا مہینا ہے۔یہ وہ ماہ مبارک ہے،جس میں اللہ اپنے بندوں کے رزق میں اضافہ فرماتاہے۔اس ماہ مبارک میں جس نے کسی روزے دار کو افطار کرایا۔ روزے دار کے روزے میں کمی کے بغیراس نے روزے دارکے برابرثواب حاصل کیا۔ اورخود کو جہنم سے بچالیا۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ہم میں سے ہرشخص تو روزے دارکو افطارکرانے کی استطاعت نہیں رکھتاہے؟آپ ﷺنے فرمایا:جس نے روزے دار کو پانی کا گھونٹ پلایا،یا دودھ کا گھونٹ پلایا،یا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرایااس کا اجراسی کے برابر ہے اوراس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔ اس سے روزے دار کے اجرمیں کمی نہیں ہوگی۔جس نے اپنے ماتحتوںسے ہلکاکام لیا اس کے لیے بھی جہنم سے نجات ہے۔(مشکوۃ شریف)
اسی لئے ہم ماہ مبارک کی آمد سے پہلے پہلے اس کے مقام ،اس کی عظمت، اس کی فضیلت،اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں اوراس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کامقصداور ماحصل ہے۔
mm