عبدالسلام عاصم
دنیا میں سب امن چاہتے ہیں لیکن اپنی شرطوں پر اور یہی بیشتر جنگوں کی بنیادی وجہ ہے۔ قومیں کسی نہ کسی رُخ پر سبھی مکار ہوتی ہیں! کچھ خوش تدبیر تو کچھ بد اندیش۔ جو قومیں مکر سے علمی استفادہ کرتی ہیں وہ پنچایتی راج قائم کر کے ایک سے زیادہ حلقوں پر راج کرتی ہیں اور جو نظریاتی سوچ اور غیر سائنسی عقیدے سے کام لیتی ہیں انہیں اپنی جسمانی طاقت اور دوسرے کی دماغی طاقت کی نت نئی اسلحہ جاتی پیداوار پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تاریخی دستاویزات ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جنہیں چھان پھٹک کر پڑھنے والے مرحلہ وار اپنی راہ بدل کر پنچایتی حلقوں میں شامل ہوتے رہتے ہیں لیکن جو حلقے یا قومیں اُسی تاریخ کے محض پسند آنے والے حصے کو پریوں کی کہانی کی طرح انجوائے کرتی ہیں وہ ماضی پر مستقبل کی تعمیر کی بے ہنگم کوشش میں اپنا حال تباہ کئے رہتی ہیں۔ زیر ترتیب ایسے ہی واقعات اور سانحات کا ایک سلسلہ ان دنوں ہمارے گھر سے چند گھر دور ہمسائے افغانستان میں جاری ہے جہاں زندگی کا تقدس بُری طرح پامال ہو رہا ہے۔
دشواری یہ ہے کہ اِس بات کی تفہیم کہ نفرت اور دشمنی کا جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے! صرف بذریعہ علم ممکن ہے۔ یہ دونوں جذبے اختلاف سے عدم اتفاق کی پیداوار ہیں اور جو لوگ کسی بھی معاملے میں بس جامد اتفاق پر یقین رکھتے ہیں وہ ہر اختلاف کو دشمنی کا نام دے دیتے ہیں۔ نفرت کا بیج بونے کا یہ غیر سائنسی خودکار طریقہ ہے کچھ ایسا ہے جسے صرف علمی دائرے میں ہی سمجھا اور سمجھایا تو جا سکتا ہے۔ حالات سے منفی طور پر متاثر ہونے والوں کو اِس رخ پر بھی کچھ سمجھانا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔
اس کے ایک زیادہ اسباب میں دو اسباب نمایاں ہیں جن کا تعلق ’’اطلاع‘‘ اور’’ افواہ‘‘ سے ہے۔ معتبر طور پر ریکارڈ ڈیڑھ دو سوبرس کی تاریخ میں یہ سلسلہ جوڈو فوبیا سے گزرتا ہوا اب اسلاموفوبیا سے گزر رہا ہے۔ اصل میںکشیدہ ماحول کی ’’ناخوشگوار‘‘ باتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک جو سُننے والے سے منسوب ہوتی ہیں، اُسے سُننے والے اکثر ’’افواہ‘‘ قرار دیتے ہیں، اور جو دوسروں کے خلاف ہوتی ہیں وہ باتیں سننے والوںکے لئے ’’اطلاع‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ اِس فرق کی بنیادی وجہ وہ بدگمانی ہے جو علم سے محروم حلقوں میں ایک دوسرے کے خلاف صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو یکسر غلط نہیں ہوگا کہ اِس بدگمانی کی اِن حلقوں میں باقاعدہ پرورش کی جاتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر اِس بد گمانی کے بری طرح شکار ہیں اور ہم میں ہی کچھ لوگوں کے ذہن اِس قدر کنڈیشنڈ ہو چکے ہیں کہ اُنہیں ایکدم سے نہیں بدلا جا سکتا۔
افغانستان میںحالات کے نئے موڑ پر آنے والی تبدیلی کی نوعیت کیا ہے! اِس بارے میں بھانت بھانت کی خبریں چلی آ رہی ہیں۔ سب کو اپنی پسند کے وسیلے یا ذرائع کی خبریں درست لگ رہی ہیں۔ اس میں کوئی اشتباہ نہیں کہ افغانستان میں طالبان کے پھر سے سیاہ و سفید کا مالک بن جانے سے جستجو رخی زندگی گزارنے والے خوش نہیں اور وہ لوگ بے حد خوش ہیں جو رضائے الٰہی کے نام پر کسی بھی ایک سے زیادہ مروج طور طریقے کے مطابق جیتے ہیں اور اُسی مناسبت سے سامنے والے نتائج کو حق سمجھتے ہیں۔دوسری جانب سچ کیا ہے اور غلط کیا ہے! یہ تجسس ”ماننے” پر ”جاننے” کو ترجیح دینے والے لوگوں کو حالات کا تقابلی اور معروضی جائزہ لینے کی تحریک دیتا ہے۔
ایسی ہی ایک تحریک مجھے پچھلے ہفتے کوویڈ 19 کی تیسری لہر کی آمد کی خبر گرم ہونے کے باوجود گھر سے باہر لے گئی۔ شہر کے ایک مخلوط تجارتی و رہائشی حلقے میں کچھ افغانیوں سے ملا۔ اُن سے بات چیت کی۔ ایسا کوئی سوال نہیں کیا جس کا دوٹوک جواب دینے سے وہ گھبرائیں۔ امکانات اور اندیشوں کے رُخ پر جو باتیں ہوئیں۔ اُن سے میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ افغانستان میں طالبان کی پہلی اور دوسری آمد اُس مقامی تہذیب (رواج) سے متصادم نہیں جس نے زندگی اور موت کے سوا کبھی کسی ’’تبدیلی‘‘ سے کوئی دوسرا مفہوم اخذ ہی نہیں کیا۔دوسری طرف سوویت قبضے والے ببرک کرمال کے عہد اور پھر امریکی مداخلت کے نتیجے قائم ہونے والی دو دہائیوں کے نظم نے افغان شہر اور گاوں میں زندگی گزارنے والوں کی قابل لحاظ آبادی کو ایک ایسی آزادی کا عادی بنا دیا جو بیشتر اقوامِ عالم میں جمہور کی دین ہے۔ اس بین معاشرت تبدیلی نے افغانستان کے جامد معاشرے کو تبدیلی کے رخ پر کچھ اس طرح متحرک کر رکھا ہے کہ انقلاب پسند اور رجعت پسند دونوں بالترتیب اس کی تاب و ضبط نہیں لا پا رہے ہیں۔
حالات کا یہ موڑ طالبان کے لئے ہی نہیں فارغین کیلئے بھی سخت آزمائشی ہے۔امریکہ، روس، چین اوربعض دیگرحقیقی معنوں میں خود انحصار ممالک زندگی کی کشاکش کی اُس دوڑ سے نکل چکے ہیں جہاںکبھی اُنہیں بھی یہ سبق پڑھایا گیا تھا کہ ظلم کی کہانیوں اور مظلومیں کے دکھ درد کی داستانوں کے درمیان ارتقاء کا سفر طے کرنے والی دنیا میں غور و فکر سے کام لینے والوں کو جو پہلا سبق ملتاہے وہ سبق استحکام کا ہے۔ استحکام ہی وہ کیفیت ہے جس میں مبتلا ہونے والے کیلئے امکانات کے در کھلتے ہیں۔ اُس در کے قابلِ گزر حد تک وا ہونے تک سانس لینے میں کامیاب رہنے والے ہی پھر سے جینا شروع کر پاتے ہیں۔ طبی معالجین اسپتالوں کے خصوصی شعبوں میں’’ استحکام‘‘ کی کیفیت سے گزرنے والے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں کبھی کبھی ایسی کامیابیاں بھی ملتی ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دراصل یہ جستجو اور جدوجہد اپنے آپ میں ایک جنون ہے اور اس جنون کیلئے ذہنی وسعت سے زیادہ ایک ایسی کشادہ دلی چاہئے جس میں گنجائش کی ہر حدپر امکان کا کوئی کسی نیا در وازہ کھلتا ہو۔
عصری دنیا کے ایک قابل لحاظ حلقے میں ایک سے زیادہ ممالک اس کشاکش سے گزر رہے ہیں۔جہاں کے نام نہاد اہل معاملہ قوموں کے عروج و زوال کو سلطنتوں کی قوت و شوکت سے ناپنے کے عادی ہو گئے ہیں۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی دنیا کو اگر صف بندیوں سے نجات نہیں مل سکی تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلی صدی کے وسط سے ہی مغرب سے غیر فطری طور پر متصادم یساریوں کی جگہ یمینیوں نے لے رکھی ہے۔اس کا ایک سے زیادہ حلقوں نے بساط بھر ادراک کیا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے جہاں اپنی تھیوری‘ تاریخ کی انتہا‘کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ روشن خیال مغربی جمہوریت ہی انسانی نظریات کے ارتقاء کی انتہا ہے وہیں سیموئیل ہنگٹنگٹن نے اپنی تھیوری ’تہذیبوں کے تصادم‘ کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اب تصادم بالخصوص مغربی تہذیب اور اسلامی تمدن کے درمیان ہے۔
دیکھا جائے توبظاہراِن دونوں کے اخذ کردہ نتائج سے ہی ایک نئے رُخ پر بٹی ذوقطبی دنیا استفادہ کر رہی ہے ۔ مغربی ایشیامیں ایک طرف جہاں آل ابراہیم نے ماننے اور منوانے کی ضد پر ایک بار پھر ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کو ترجیح دینا شروع کر دیا ہے وہیں بعض حلقوں میں اب بھی متصادم حلقے اسی خیال سے الجھے ہوئے ہیں کہ تہذیبوں کے تصادم میں کوئی ایک حلقہ ہی بالاخر کامیاب ہوگا۔یہ ہے وہ نظریاتی بحران جو ہمیں لے ڈوبنے پر تُلاہوا ہے۔ دیکھنا ہے کہ رفتارِ زمانہ سے غیر ہم آہنگ اقوام کی نئی نسل کا بڑا حلقہ کب تک روشن خیال جمہوریت کے علمی ماڈل کو اپناتا ہے اور جنگ کے راستے سے ہی امن کی منزل کی طرف بڑھنے کی ضد رکھنے والوں کو کوئی ایسا قابل عمل نسخہ پیش کر تا ہے جونسلی افتخار، مذہبی اور مسلکی تفرقات،تنازعات،جامد اتفاق اوربے ہنگم نفاق سے نجات کے رُخ پر واقعی اثر انگیز ہو۔بظاہرسرد جنگ کے بعد کی موجودہ دنیا ثقافتی بنیادوں پر منقسم ہے اور غالب امکان ہے کہ یہی تقسیم مستقبل کی جنگ اور امن کے سلسلے کو فیصلہ کن بنائے گی۔