تحریر: صلاح الدین زین
بھارتی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست کے معروف شہر متھرا میں گوشت اور شراب کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لکھنؤ میں یہ اعلان کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جو لوگ ان پیشوں سے وابستہ ہیں، انہیں دودھ کا کاروبار کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا، ’’اس فیصلے سے متعلق افسران کو ہدایات دی جا چکی ہیں کہ وہ اس پابندی کے نفاذ کے حوالے سے منصوبہ تیار کریں اور جو شہری اس پیشے سے وابستہ ہیں، انہیں بعض دوسرے کاروبار شروع کرنے کی رغبت دلانے کے لیے بات چیت کی جائے۔‘‘
مذہبی حوالے سے متھرا ہندوؤں کے لیے ایک مقدس شہر ہے جہاں ہندو عقیدے کے مطابق بھگوان کرشن کا جنم ہوا تھا۔ گزشتہ روز جنم اشٹمی یعنی کرشن کا یوم پیدائش تھا اور ریاستی سربراہ حکومت نے یہ اعلان اسی مناسبت سے کیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھگوان کرشن کا تعلق یادو یعنی دودھ دہی کا کاروبار کرنے والے گوالوں کے خاندان سے تھا۔
یوگی آدتیہ ناتھ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ گوشت اور شراب کا کاروبار کرتے ہیں، انہیں اب دودھ دہی بیچنے کا پیشہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ اس شہر کی ماضی کی ہندو روایت بھی بحال ہو سکے۔
گوشت کی فروخت پر پابندی اور کہاں کہاں؟
اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اس سے قبل ایودھیا میں بھی گوشت اور شراب کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ ایودھیا لکھنؤ کے نوابوں کے پہلے دارالحکومت فیض آباد کے قریب ایک چھوٹا سا قصبہ تھا، مگر موجودہ حکومت نے پورے ضلع فیض آباد ہی کا نام بدل کر ایودھیا رکھ دیا تھا۔
پہاڑی ریاست اتر اکھنڈ کے ہری دوار میں بھی گوشت کی تجارت پر پابندی عائد ہے جبکہ بھارت ریاست گجرات کے بھی بعض ایسے علاقوں میں گوشت کا کاروبار ممنوع ہے، جہاں جین باشندوں اور ہندوؤں کے مندر واقع ہیں۔ حالانکہ متھرا اور ایودھیا جیسے تمام علاقوں میں مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی آبادی ہے، تاہم پابندی کی وجہ سے ان علاقوں کے مسلمان شہری اپنے گھروں میں بھی گوشت نہیں کھا سکتے اور اس کے لیے انہیں کسی ایسے مقام پر جانا ہوتا ہے، جہاں گوشت پر پابندی نہ ہو۔
پابندی کا مقصد کیا؟
لکھنؤ کے سینیئر صحافی الوک ترپاٹھی کہتے ہیں کہ ریاست اتر پردیش میں آئندہ چند ماہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اسی تناظر میں ایسے اقدامات کر رہی ہے، جن سے عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کر کے اسے سیاسی فائدہ حاصل ہو سکے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے الوک ترپاٹھی نے کہا، ’’اب انتخابات سے قبل ایسے اقدامات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت ہندوؤں کے مفادات کا خیال رکھتی ہے اور اس نے مسلمانوں کو قابو میں کر رکھا ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ اس طرح کے تاثر سے اسے سیاسی فائدہ ہو گا، ورنہ الیکشن سے قبل اس طرح کے اعلانات کا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے؟‘‘
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے احکامات پر عمل درآمد آسان بات نہیں، ’’اب گوشت صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر برادریوں کے لوگ بھی کھاتے ہیں۔ اسی لیے پابندی کے باوجود بھی یہ دستیاب ہوتا ہے اور اس پابندی پر عمل درآمد کوئی آسان بات نہیں۔‘‘
الوک ترپاٹھی کے مطابق ریاست میں بے روزگاری، مہنگائی اور کورونا کی وبا کے سبب ہونے والی اموات ایسے بڑے موضوعات ہی، جن کی وجہ سے یوگی حکومت کو سخت تنقید اور مخالفت کا سامنا ہے۔ ایسی صورت میں ’’اس کے پاس مذہبی کارڈ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ اسی لیے اس مرتبہ بی جے پی اتر پردیش کے انتخابات میں طالبان کا بھی خوب ذکر کرے گی۔‘‘
یوپی میں گوشت ایک بڑا مسئلہ
ریاست اتر پردیش میں سن 2016 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے فوری بعد یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے بڑے مویشیوں کو ذبح کرنے کے حوالے سے نئے اصول و ضوابط کا اعلان کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ہزاروں سلاٹر ہاؤسز کے لائسنس منسوخ ہو گئے تھے۔ شرائط اتنی سخت تھیں کہ ان میں سے آج بھی بیشتر بند پڑے ہیں۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ گزشتہ تقریباً پانچ برسوں سے بیشتر چھوٹے قصبوں اور شہروں میں بیف دستیاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں گوشت فروخت کرنے والے لاکھوں دکاندار متاثر ہوئے ہیں، وہیں بیف کھانے والا طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔
یو پی میں عام طور پر غریب مسلم طبقہ شادی یا دیگر تقاریب میں بھینس کا گوشت استعمال کرتا تھا تاہم اب اس کے پاس چکن اور مٹن کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ غریب طبقے کے لوگ مہنگائی کے سبب مٹن خرید نہیں سکتے اس لیے ایسے گوشت کے شوقین لوگوں کے لیے مرغی کا گوشت ہی پہلا اور آخری امکان ہوتا ہے۔
(بشکریہ : ڈی ڈبلیو)