کابل :(ایجنسی)
افغانستان کے کارگذار وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،’ایک قوم کے طور پر ہم خود کو بین الاقوامی برادری کا حصہ سمجھتے ہیں اور امریکہ سمیت تمام ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔‘
جب سی این این کی نامہ نگار کرسٹیانا امانپورنے سراج الدین حقانی سے سوال کیا کہ کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں کی دیواروں پر اس طرح کے جملے درج ہیں کہ افغانوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دے دی تو کیا وہ اب بھی امریکہ کو دشمن سمجھتے ہیں؟ حقانی نے اس کے جواب میں کہا، طالبان دوحہ معاہدے پر عمل کرنے کے وعدے پر قائم ہیں اور جب ایک بار اس پر دستخط ہوگئے اور جنگ بندی نافذ ہوگئی تو پھر دشمنی، شکست، جنگ اور اس طرح کی دوسری چیزوں کا سوال ہی کہاں رہ جاتا ہے۔
افغان وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا،’’ہم امریکہ اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ان اصولوں اور قوانین کے مطابق اچھے تعلقات رکھنے کے خواہشمند ہیں جو بقیہ دنیا میں موجود ہیں۔ اور اسی بنیاد پر ہم نے معاہدہ کیا تھا اور فی الحال ہم انہیں اپنے دشمن کے طور پر نہیں دیکھتے۔ ہمارے پاس وقت ہے اور ہم سفارتکاری کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ہم دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔‘‘
طالبان رہنما سراج الدین حقانی کا تاہم کہنا تھا،’’ان (امریکہ) کے برتاو کی وجہ سے افغان شہریوں کو ان کے ارادوں کے بارے میں تحفظات ہیں۔ ہم ملک کی آزادی اور ملکی دفاع کے لیے جد و جہد کو ایک قانون حق سمجھتے ہیں۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ ایک جانب انہیں ایسا ’دہشت گرد‘ بھی کہتا ہے جس کے ہاتھ پر سینکڑوں امریکیوں کا خون ہے اور دوسری جانب سراج الدین حقانی کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتا ہے، حقانی نے کہا، ’میں یہ کہوں گا کہ یہ فیصلہ انہیں کرنا ہے، میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ شدید جنگ لڑی ہے اور اپنے اور اپنے ملک کے دفاع میں ہمارا جواب بھی وہی تھا، لیکن حکومت بنانے اور معاہدہ کرکے ہم نے دنیا اور اپنے لوگوں کو مثبت پیغام دیا ہے۔‘
خیال رہے کہ سراج الدین حقانی اب بھی ایف بی آئی کے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں موجود ہیں اور ان کی گرفتاری میں مدد کے لیے اطلاع دینے پر ایک کروڑ ڈالر کا انعام ہے۔
ایک دیگر سوال کے جواب میں افغان وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ انہیں اندرونی خطرات کا سامنا ہے اور ان میں سے چند کو جان بوجھ کرایسے ظاہر کیا جارہا ہے گویا وہ قوم اور بین الاقوامی برادری کے لیے بڑے خطر ے کی بات ہے۔’لیکن ہم دنیا کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہماری سرزمین کسی کے لیے خطرہ نہیں بنے گی۔‘
لڑکیوں کے لیے جلد ہی ‘اچھی خبر
افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے حوالے سے جب سی این این کی نامہ نگار نے سراج الدین حقانی سے سوال کیا تو انہوں نے کہا،’میں اس حوالے سے وضاحت کرنا چاہوں گاکہ کوئی بھی خواتین کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا پرائمری اسکولوں میں لڑکیاں پڑھنے جارہی ہیں۔ اس سے اوپر کے گریڈ میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ہم ایک میکانزم پر کام کررہے ہیں تاکہ لڑکیوں کو بھی سیکنڈری اسکولوں میں جانے کی اجازت مل سکے۔
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم افغان سوچ اور ثقافت کے مطابق ہونا چاہئے۔’افغانستان میں وسیع پیمانے پر حجاب کا مسئلہ ہے کیونکہ اگر کوئی اپنی بیٹی یا بہن کو بھیجتا ہے تو وہ یہ کام مکمل اعتماد کے ساتھ کرتا ہے۔ اور وہ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے کہ خواتین کے وقار اور تحفظ دونوں کی ضمانت دے سکیں اور وہ یہی کررہے ہیں۔‘
افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا کہنا تھا، ’اس سلسلے میں آپ کو جلد ہی ایک اچھی خبر سننے کو ملے گی۔‘