تحریر: قاسم سید
کیا ‘’’نیا بھارت‘‘ اتناوحشی،درندہ بےرحم،شقی القلب اور خونخوار ہوگا جس کا نمونہ آسام کے ضلع درنگ میں نظر آیا،اگرچہ اخلاق سے لے کر پہلو خاں اور تبریز سے لے کر دہلی فساد کے دوران زخموں سے چور لڑکوں سے مسلح پولیس اہلکاروں کے ذریعہ بھارت ماتا کی جے بولنے مجبور کرنے والے مناظراور،جنتر منتر پر لگائے جانے والے نعروں کا عملی اظہار اس شکل میں سامنے آئے گا، شاید اس کا تصور ان لوگوں نے بھی نہیں کیا ہوگا جنہوں نے نفرت کا کاروبار شروع کیا تھا۔
پہلےپولیس لاٹھیاں برساتی ہے،اس دوران وہاں موجود ایک ‘پترکار مہودے ‘تڑپتے نیم جا ں بدن پر وحشیانہ انداز میں کودتا ہے ،لاتیں گھونسے مارتاہے،یہ واقعہ اس لحاظ سے زیادہ نو ٹس لیے جانے کے قابل ہے کہ یہ کام کسی عام آدمی نے نہیں کیا بلکہ جمہوریت کے چوتھے ستون کے ایک ممبر نے کیا جس پر جمہوری و آئینی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ہے یہ الگ بات ہے کہ اس کا بڑا حصہ اب سماج کا کوڑھ بن چکا ہے۔
یہ دردناک واقعہ ایسے وقت ہوا جب ہمارے وزیر اعظم امریکہ کے پانچ روزہ دورے پر ہیں،ان کے سامنے عالمی برادری میں ہندوستان کی حصہ داری بڑھانے کا چیلنج ہے اور ایسے وقت میں جب ہندوستان پڑوسی افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت،انسانی حقوق ،خواتین اور اقلیتوں کے تحفظ کا نہ صرف مطالبہ کررہا ہے بلکہ عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے سفارتی مہم بھی چھیڑے ہوئے ہے ،تو درندگی وبربریت کی تمام حدوں کو پار کرنے والا یہ واقعہ جو ویڈیو کی شکل میں سوشل میڈیا پر گھوم رہا ہے ،ہمارے وزیر اعظم کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرے گا، کیونکہ دنیا بجا طور پر سوال کرے گی کہ یہ افغانستان کا ویڈیو تو نہیں لگتا ۔جنگوں کے دوران بھی اس طرح کا کوئی واقعہ حالیہ تاریخ میں سامنے نہیں آیا ،کیا ہمارے صاحبان اقتدار کو اپنی رسوائی ،بدنامی کا ڈر نہیں ہے اور کیا ہمیں ایسے واقعات کی موجودگی میں افلاس زدہ افغانستان سے انسانی و اقلیتی حقوق کے تحفظ کے مطالبہ کا اخلاقی حق ہے۔
آسام سرکار نے غیر قانونی تجاوزات کے نام پر بلڈوزر مہم شروع کر رکھی ہیں، کم وبیش سب مسلمان ہیں، درنگ میں 800مسلم خاندان بے گھر کردیے گئےوہ دریا کنارے کھلے آسمان کے نیچے پناہ لیے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ مہم جاری رہے گی یعنی اس طرح کے مزید واقعات،مزید وحشتوں کاسامنا کرنے کے لیے ذہنی طور سے تیار رہنا ہوگا۔
اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت رگوں میں اتر چکی ہے بقول روہنی سنگھ’’نوئیڈا میں بیٹھے ہمارے خون کے پیاسے اینکرز نے اقلیتوں کے خلاف اس قدر نفرت بھر دی ہے کہ نفرت پر مبنی جرائم کرنے والوں کی انسانیت کو ماردیا ہے۔آج ہم نے آسام میں جو مناظر دیکھے ہیں یہ اسی زہر کا نتیجہ ہے،یہ نفرت کسی کو نہیں بخشے گی‘‘ یہ فوٹو جرنلسٹ ایک سمبل ہے جو صرف آسام نہیں ہر گھر تک پہنچ گیا ہےیہ آپ کا ساتھی ہے یہ انفرادی شخص نہیں ذہنیت ہے ہم اس کو روزانہ ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں جو ٹی وی اسکرین سے نکل کر ہمارے جسم میں،گھر میں ،سماج میں ،داخل ہوگیا ہے اور ڈرائیونگ سیٹ پر قبضہ کرلیا ہے یہ نیا انڈیا پروڈکٹ ہے اس کی مارکیٹنگ ہورہی ہے،ہم کو خون کے پیاسے معاشرے میں بدل دیا ہے ،اکثریت ازم کے نشہ نے داڑھی اور ٹوپی کو گالی بنادیا ہے ،اقلیت ہونا جرم ہوگیا ۔
سرکاری اراضی پر قبضہ جرم ہے اگر یہ الزام صحیح ہے، ابھی دہلی میں ہزاروں افراد کی کالونی زمیں بوس کردی گئی ہے ،سوال اس کارروائی پر نہیں لاش کی بے حرمتی کا ہے جس کی اجازت دنیا کا کوئی قانون نہیں دیتا۔ مستزاد یہ کہ مسلح اہلکاروں کی موجودگی میں،یہ ناقابل معافی سنگین جرم ہے ،مولانا کلیم صدیقی سے آسام کے واقعہ تک بتارہا ہے کہ ملک کا بیانیہ پوری طرح بدل گیا ہے ہماری ان تھک کوششیں اس زہر کا تریاق نہ بن سکیں تو کیا ہم ملک کے بدلتے بیانیہ اور سیاسی منظر نامہ کو سمجھ نہیں سکے یا اپنے کرم فرماؤں اور سیاسی آقاؤں پر ضروت سے بھروسہ کر بیٹھے اور اب بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔کچھ تو غلطی کہیں ہوئی ہے کوئی ہے جو بتائے ۔