گذشتہ ماہ انڈیا کے ہمالیائی شہر ہریدوار میں منعقدہ کمبھ میلے میں جب لاکھوں ہندو عقیدت مند جمع ہوئے تو انڈیا کے مختلف حصے کووڈ کی دوسری تباہ کُن لہر کا سامنا کر رہے تھے۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ یہ تہوار کہیں ’سپر سپریڈر‘ ثابت نہ ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ آج یہ خدشات سچ ثابت ہو رہے ہیں اور کمبھ میلے سے واپس آنے والے زائرین میں کورونا انفیکشن کے بڑھتے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں اور ممکنہ طور پر یہاں جانے والے زائرین کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی یہ پھیل رہا ہے۔
کمبھ میں شاہی اشنان کے دوران بڑی بھیڑ امڈ آئی تھی اور تمام تر احتیاطی تدابیر کے بعد بھی کئی اکھاڑوں کے بہت سے سنت سادھو کووڈ کی گرفت میں آ گئے لیکن مختلف اکھاڑوں کے سادھو اموات کے باوجود اب بھی اس کے منکر ہیں۔
بی بی سی کی نمائندہ گیتا پانڈے کے مطابق 80 سالہ مہنت شنکر داس کو ہریدوار پہنچنے کے چار دن بعد ہی کووڈ ہو گیا تھا۔ انھیں آئیسولیشن میں رہنے کے لیے کہا گیا لیکن وہ وہاں سے ایک ہزار کلومیٹر دور بنارس آ گئے جہاں ان کے بیٹے ناگیندر پاٹھک نے ان کا ریلوے سٹیشن پر استقبال کیا اور وہ ایک ٹیکسی سے 20 کلومیٹر دور مرزا پور ضلعے میں واقعے اپنے گاؤں پہنچے۔
مہنت داس نے فون پر بتایا کہ اب وہ صحت مند ہیں اور انھوں نے خود کو گھر پر قرنطینہ میں رکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سے کسی کو کورنا نہیں پھیلا لیکن چند دن بعد ہی ان بیٹے کے ساتھ گاؤں کے کئی دوسرے افراد میں کووڈ کی علامات نمایاں ہونے لگیں۔ پاٹھک اب صحت مند ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو ہفتے میں ان کے گاؤں میں کھانسی بخار سے 13 افراد کی موت ہوئی ہے۔‘
اگرچہ مہنت داس کی وجہ سے گاؤں میں کورنا نہ پہنچا ہو لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کا رویہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔
دوسری جانب صحافی سمیر آتماج بتات بتاتے ہیں کہ ہریدوار میں صورتحال اس قدر سنگین ہو گئی کہ کچھ اکھاڑوں نے آخری شاہی غسل سے دو ہفتے قبل ہی اپنی جانب سے کمبھ کے اختتام کا اعلان کر دیا اور وہ اپنے اپنے علاقوں کو واپس لوٹنے لگے۔
لیکن کووڈ کے پھیلاؤ کے اثرات بعد میں نمایاں ہوئے اور بہت سے سادھو کووڈ کی گرفت میں آئے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کی موت بھی ہو گئی۔
اس سب کے باوجود سنتوں اور سادھوں کو اس بات کا افسوس نہیں کہ کنبھ میلہ کووڈ انفیکشن میں اضافے کا سبب بنا یا پھر اگر کمبھ نہ ہوتا تو اس کی رفتار اس قدر تیز نہیں ہوتی۔
ہریدوار کے کمبھ سے واپس آنے والے جونا اکھاڑے کے سنت سوامی پرگیانند گیری کا دو روز قبل انتقال ہو گیا ہے۔
سوامی پرگیانند گیری ہریدوار سے آنے کے بعد ورنداون میں تھے اور کورونا انفیکشن کے بعد پریاگراج کے سوروپ رانی نہرو ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ اس سے قبل مختلف اکھاڑوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً ایک درجن سادھوؤں کی بھی کورونا انفیکشن کی وجہ سے موت ہو چکی ہے اور یہ تمام سادھو ہریدوار کے کمبھ میلے میں شریک تھے۔
کمبھ میلے کے اہم ترین شنان (غسل) کے دوران ہی 13 اپریل کو نروانی اکھاڑے کے مہامنڈلیشور کپل دیو کی کورونا انفیکشن سے موت ہو گئی تھی جس کے بعد مختلف اکھاڑوں میں کورونا کی جانچ کے بعد سادھوں کی بڑی تعداد میں انفیکشن پایا گیا۔
کچھ لوگوں کو اکھاڑے میں ہی آئیسولیٹ کرکے علاج کیا گیا جہاں کچھ افراد کی موت بھی ہو گئی۔
کمبھ میلے کے دوران ہی نرنجنی اکھاڑے کے مہنت اور آل انڈیا اکھاڑا پریشد کے صدر نریندر گیری بھی کورونا پازیٹو ہوئے اور حالت تشویشناک ہونے کے بعد انھیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔
مہنت نریندر گیری صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن اس وقت انفیکشن کی وجہ سے وہ شاہی غسل میں بھی شامل نہیں ہو سکے تھے۔
بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں سوامی نریندر گیری کا کہنا ہے ’اگر کورونا کی بیماری پھیلی ہے تو وہ سب کو ہو رہی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کنبھ میلہ چل رہا ہے یا الیکشن ہو رہا ہے۔ جہاں یہ دونوں چیزیں نہیں ہو رہی تھیں کیا وہاں یہ بیماری نہیں پھیلی؟ اور جب یہ سب کو ہو رہی ہے تو پھر سادھو بھی اس کی زد میں آ گئے۔ لیکن حکومت نے اچھے نتظامات کیے تھے اور سب کا علاج ہوا۔ اب ہمارے ہمارے یہاں اکھاڑے میں تو ڈاکٹر نہیں ہوتے ہیں۔‘
نریندر گیری کا کہنا ہے کہ اگر کمبھ میلہ ملتوی بھی کر دیا جاتا تو بھی انفیکشن کی رفتار میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی مدت کم نہیں کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا: ’مجھ سمیت مجموعی طور پر چھ افراد کو ہمارے اکھاڑے میں انفیکشن ہوا۔ پانچ سادھووں کی موت ہو گئی۔ دوسرے اکھاڑوں کے بھی بہت سے سادھوؤں کو انفیکشن ہوا جس میں تقریباً دس سادھو فوت ہو گئے، باقی سارے بحفاظت لوٹ آئے۔‘
مہانروانی اکھاڑے کے بہت سے سادھو بھی کورونا سے متاثر ہوئے تھے لیکن اس اکھاڑہ کے سربراہ رام سیوک گیری اسے ’خدا کی مرضی‘ کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ تو اس آفت سے بچا جا سکتا ہے اور نہ ہی کمبھ کے انعقاد کو ٹالا جا سکتا تھا۔
مہنت رام سیوک گیری نے کہا: ’غور کرنے کی بات ہے کہ سادھو بھی اسی سرزمین میں ہیں، وہ وہاں سے باہر تو نہیں ہیں۔ لہذا جو آفت آئی ہے وہ سادھوؤں کے لیے بھی آئی ہے۔ یہ سنتوں اور سادھوؤں کو نہیں چھوڑے گی۔ یہ خدا کی مرضی ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس پر سوچنا بیکار ہے۔‘
رام سیوک گیری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر لوگ گنگا کے اصل پانی میں نہاتے تو کسی کو بھی انفکشن نہ ہوتا۔
بہت ناراضگی سے انھون نے کہا: ’جہاں جذبہ ہے وہاں خدا ہے۔ گنگا تو ختم ہو چکی ہے۔ گنگا کہاں ہے؟ وہاں تو آپ نے ڈیم بنا کر دھارا کو ہی روک دیا اور آپ اس میں نجات پانا چاہتے ہیں؟ دریائے گنگا کے مقدس پانی میں نہاتے تو تمام بیماریاں اور گناہ دور ہو جاتے اور ہم نجات بھی حاصل کرتے۔ اب ہمیں صرف رسم نبھانی ہے، روایت کو برقرار رکھنا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سب سے بڑے اکھاڑے جونا ایرینا میں بھی بہت سے سادھو کووڈ 19 سے متاثر ہوئے جن مین تین سادھوؤں کی موت ہو گئی۔ اکھاڑے کے مہنت ہری گری جی مہاراج کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آفت آتی ہے تو اس کا اثر سب پر ہوتا ہے، لیکن کچھ لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اس پر زیادہ بات کریں گے تو مذاق اڑایا جائے گا لیکن لوگ اپنے اپنے انداز میں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومت کی تنقید ہو۔‘
’کورونا کی وجہ سے ہی امریکہ میں صدر چلے گئے۔ یہاں بھی اثر ہو گا، دیکھتے رہیں۔ تباہی تو بہرحال آنی ہی تھی لیکن کمبھ اور انتخابات کے نام پر حکومت کو گھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ان سب کا سیاسی اثر ہو گا۔ نہ صرف 2022 کے انتخابات میں بلکہ اس کے بعد بھی۔‘
مہنت ہری گری کہتے ہیں: ’اکھاڑے کے سنت عام لوگوں سے دور رہتے ہیں لیکن ہوا میں اڑنے والا وائرس کسی کے روکے رک نہیں سکتا۔ اسی وجہ سے اکھاڑوں کے کچھ لوگ اس میں پھنس گئے۔ لیکن ان کے معمول اور طرز زندگی سے انھیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔‘
اسی دوران بعض اکھاڑوں کے مہنتوں کا کہنا ہے کہ کمبھ کی وجہ سے کوئی انفیکشن نہیں پھیلا اور نہ ہی سادھو سنتوں پر اس کا کوئی خاص اثر ہوا۔ دگمبر اکھاڑے کے مہنت کشن داس کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک ہریدوار میں ہیں اور ان کے اکھاڑے میں ایک بھی انفیکشن نہیں ہوا۔انھوں نے کہا: ’کمبھ میں کوئی بیماری نہیں تھی۔ کورونا کا کوئی قہر نہیں تھا۔ باہر سے آنے والے کچھ لوگوں کو ہوا ہو گا۔ ان کے زیر اثر کچھ سنت سادھو بھی آئے ہوں گے۔ ہمارے اکھاڑے میں کوئی بیمار نہیں ہوا، کوئی انفیکشن نہیں ہوا۔ تمام سادھو اب بھی یہاں موجود ہیں۔‘
نرموہی اکھاڑہ کے سربراہ راجیندر داس نے بھی اس سے انکار کیا کہ کسی سادھو کو انفیکشن ہوا تھا۔ وہ انتہائی لاپروائی سے کہتے ہیں: ’سب خوش و خرم ہیں۔ اکھاڑے کے سارے سادھو ابھی بھی ہریدوار میں ہمارے ساتھ ہیں۔ میرے پاس ہیں۔ میرے اکھاڑے میں کسی کو کچھ نہیں ہوا۔‘تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہریدوار میں کورونا انفیکشن کے کل دو ہزار 642 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں بہت سے مذہبی رہنما اور سنت شامل ہیں۔یہاں سے واپس جانے کے بعد بہت سارے لوگ کورونا پازیٹو پائے گئے جن میں اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو، نیپال کے سابق بادشاہ گیانیندر شاہ اور ملکہ کومل شاہ بھی شامل ہیں۔
کمبھ سے واپسی کے بعد بالی ووڈ کے مشہور موسیقار شرون راٹھور کی ممبئی کے ایک اسپتال میں موت ہو گئی۔ شرون راٹھور موسیقار ‘ندیم شرون جوڑی کے شرون ہیں۔
ہریدوار میں کمبھ میلے کے دوران ریاستی حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار جو ڈیوٹی پر تھے انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اکھاڑوں کی بات تو چھوڑیے، عقیدت مندوں کی تو ٹھیک سے جانچ تک نہیں ہوئی اور جب لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے تو وہ اپنے ساتھ انفیکشن لے جائيں گے۔انھوں نے کہا: ’اکھاڑوں نے تو اپنے سادھووں کے کووڈ ٹیسٹ کی اجازت ہی بہت مشکل سے دی۔ سادھو جانچ کے لیے راضی نہیں تھے۔ جب مہامندلیشور کی موت ہو گئی تھی اور اکھاڑے کے سربراہ بھی متاثر ہو گئے تو کہیں تھوڑی بہت جانچ کی اجازت ملی۔‘میلے کے دوران واضح ہدایات تھی کہ باہر سے آنے والے عقیدت مند دو دن قبل کی کووڈ منفی رپورٹ لائیں لیکن اس سختی کے باوجود کمبھ میں انفیکشن کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد اتراکھنڈ میں بھی انفیکشن کی شرح تیزی سے بڑھنے لگی۔
(بشکریہ بی بی سی)