تحریر:شکیل رشید
ماضی کی تین بڑی غلطیوں نے شیوسینا کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے!
سب سے بھیانک غلطی بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) سے انتخابی مفاہمت تھی ۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی جس کے اثرات سے شیوسینا شاید ہی کبھی ابھر سکے ، حالانکہ شیوسینا پرمکھ ، وزیراعلیٰ مہاراشٹر ادھو ٹھاکرے نے ، بی جے پی سے رشتہ توڑ کر ، ماضی کی اس بھیانک غلطی کو سدھارنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن ماضی پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’ بی جے پی پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے ۔‘ شیوسینا کی دوسری غلطی اس کا اپنی ’ مراٹھی مانوس ‘ کی تحریک کے ساتھ ’ ہندوتو ‘ کو نتھی کرنا تھا۔ آج ایکناتھ شندے سمیت شیوسینا کے سارے ہی باغی ’ ہندوتو ‘ کے نام پر ہی ادھو ٹھاکرے کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں ، حالانکہ ساری دنیا یہ جانتی ہے کہ باغی جو ہیں انہیں ، ادھو سے بغاوت پر مجبور ’ہندوتو ‘ کی محبت نے نہیں کیا ہے ، یہ بغاوت انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ ( ای ڈی ) کے خوف کا نتیجہ ہے ۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ شیوسینا کی ’ ہندوتو ‘ کی پالیسی کے پسِ پشت بی جے پی ہی کا ہاتھ رہا ہے ، یعنی اس گرداب میں اسے بی جے پی ہی نے ڈالا ہے ۔
آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہونے کے سبب بی جے پی ’ ہندوتوا ‘ کو چھوڑ نہیں سکتی ، اسی لیے اس نے جب مہاراشٹر میں اپنے قدموں کو پھیلانے کی ضرورت محسوس کی ، اور اسے شیوسینا کا سہارا ملا ، تو اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ اپنے’ سیاسی مفادات ‘ کے حصول کے لیے اپنے سہارے کو بھی اپنے نظریہ میں رنگ دے ، اس نے یہی کیا ۔ اور آج پھر اپنے ’سیاسی مفادات ‘ کے لیے وہ باغیوں کو ’ ہندوتوا ‘ کے نام پر ہی آگے کر رہی ہے ۔
تیسری بڑی غلطی شیوسینا میں داغدار ، مشتبہ اور غنڈہ عناصر کی شمولیت تھی ۔ یہ تو درست ہے کہ ایسے عناصر نے شیوسینا کی دھاک بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، لیکن یہ عناصر دراصل شیوسینا میں، آسان دولت بٹورنے اور اپنی حیثیت بنانے کے لیے شامل ہوئے تھے ، ان کی نظر میں پیسہ ہی اہم تھا ۔ اور آج بھی پیسہ ہی اہم ہے ۔ ان عناصر نے پارٹی اور پارٹی کے سربراہ سے ’ وفاداری ‘ کرنے پر ، پیسے کے لیے یا اپنے کالے کارناموں کی پردہ پوشی یا کالے کارناموں کی وجہ سے جیل جانے سے بچنے کے لیے ، ’ غداری ‘ کرنے کو زیادہ بہتر سمجھا ہے ۔ اور ماضی کی اس غلطی نے آج شیوسینا کے وجود ہی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔
چلیں ماضیٔ قریب پر ایک نظر ڈال لیں تاکہ اس سوال کا جواب مل جائے کہ شیوسینا اور بی جے پی کی دشمنی کا بنیادی سبب کیا ہے ، اور کیوں شیوسینا نے بی جے پی سے رشتہ توڑا تھا ؟ کوئی تین مہینے قبل ، وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ، بی جے پی کو ایک چیلنج دیا تھا ،’ ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرلو !‘ یہ چیلنج در چیلنج یا شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان اٹھا پٹخ اُسی روز شروع ہو گئی تھی جب ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی کو چھوڑ کر این سی پی اور کانگریس سے ہاتھ ملاکر ’ مہا وکاس اگھاڑی ‘ کا راج قائم کیاتھا ، اور سابق وزیرِ اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے ، پھر سے مہاراشٹرا کا وزیرِ اعلیٰ بننے کے خواب کوچکنا چور کر دیا تھا ۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ بی جے پی کی ، ملک کی مزید ایک ریاست میں ، حکمرانی کرنے کی خواہش پر پانی پھیر دیا تھا ۔
شیوسینا اور بی جے پی کی لڑائی کی اصل بنیاد یہی ہے ۔ اب تک بی جے پی ریاست کی حکمرانی کو کھو دینے کے صدمے سے باہر نہیں نکل پائی ہے ۔ ادھو ٹھاکرے کی حکومت کے قیام کے فوراً بعد ہی سے ، اسے گرانے کی ، اس کے اراکینِ اسمبلی کو توڑنے اور مہا وکاس اگھاڑی میں پھوٹ ڈالنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں ، اسے ’ مشن کمل ‘ کا نام دیا گیا تھا ، آج جو بغاوت ہوئی ہے اسے اسی ’ مشن کمل ‘ کا نتیجہ کہا جا رہا ہے ۔ لوگ بھولے نہیں ہوں گے کہ کچھ روز پہلے ادھو ٹھاکرے نے کہا تھا کہ یہ شیوسینا ہی تھی جو مہاراشٹر بالخصوص ممبئی میں بی جے پی کے عروج کا سبب بنی تھی ۔ ممبئی میں شیوسینا – بی جے پی گٹھ بندھن کی تاریخ سے واقف لوگ خوب جانتے ہیں کہ اگر شیوسینا نے بی جے پی کا ہاتھ نہ تھاما ہوتا تو اس ریاست میں بی جے پی آج جس قدر مضبوط اور توانا ہے ، اتنی قطعی نہیں ہوتی ۔ جس طرح مرکز میں این ڈی اے میں شامل سیاسی پارٹیوں نے ، جن میں اکثر سیکولر تھیں ، بی جے پی کو سہارا دے کر اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بنوائی اور مرکزی سیاست میں بی جے پی کو ’مرکز نظر‘ بنوانے میں اہم کردار ادا کیا ، بالکل اسی طرح شیوسینا کا کردار ممبئی میں تھا ۔
حالانکہ یہ بھی ایک سچ ہے کہ مرکز اور ریاست مہاراشٹر میں ، بی جے پی کے ساتھ ’ گٹھ بندھن ‘ خود بالترتیب این ڈی اے کی سیکولر سیاسی پارٹیوں اور شیوسینا کے لیے ، اپنے اپنے ’سیاسی مفادات‘ کو پروان چڑھانے کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ دونوں ہی طرف اقتدار کی بھوک تھی ۔ مگر آج صورت حال یہ ہے کہ بی جے پی اس قدر مضبوط اور توانا ہوگئی ہے کہ اس نے اپنی حلیف سیاسی پارٹیوں کو ٹھینگا دکھانا شروع کردیا ہے ۔ مہاراشٹر میں جب فڈنویس کی سرکار تھی، تب اس نے شیوسینا کو ’عضو معطل‘ بنارکھا تھا ۔ اہم ترین محکموں اور وزارتوں سے اس کو محروم رکھاگیا تھا ۔ سرکاری منصوبوں میں شیوسینا کے کردار کو تقریباً صفر کردیا گیا تھا ۔ ادھو ٹھاکرے اور ان کے دست راست رکن راجیہ سبھا سنجے راوت نے اسی دور سے بی جے پی پرتنقید شروع کر دی تھی ، مہاراشٹر کی اس وقت کی فڈنویس سرکار پر حملے کیے تھے ۔ فڈنویس سرکار نے بھی گاہے گاہے شیوسینا پر حملے بولے تھے ۔
اشیش شیلار اور کرت سومیّا کا کھل کر شیوسینا پر حملوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ اور بی ایم سی الیکشن سے قبل یہ لگنے لگا تھا کہ شاید دونوں پارٹیاں علیحدہ ہوجائیں ۔ اور ایسا ہی ہوا ۔ شیوسینا بی ایم سی کے الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی ، بعد میں اسے بی جے پی نے مئیر کے انتخاب کے لیے سپورٹ کیا تھا ، لیکن دونوں کے درمیان ایک دراڑ پڑ گئی تھی ۔ شاید اسی وقت شیوسینا کو یہ احساس ہو اہو کہ ، بی جے پی سے دامن چھڑا کر ، مہاراشٹر کی سیاست میں ایک بااثر اور مضبوط سیاسی پارٹی کے طور پر ، خود کو منوانا اب ضروری ہے ۔ اور شاید اسی لیے ، اسمبلی الیکشن کے بعد ، اس نے بی جے پی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور ادھو ٹھاکرے وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئے ۔ یہ اچھا ہی ہوا ، ورنہ شاید اب تک شیوسینا بی جے پی میں ضم ہوچکی ہوتی ، یا اگر ضم نہیں بھی ہوئی ہوتی تو بھی اس کی حیثیت آج کے سیاسی منظرنامے میں ایک معمولی سپاہی کی ہوتی ، ایک ایسے سپاہی کی جو بادشاہ کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دینے کا کام کرتا ہے ۔
مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت کے قیام کے بعد ، شیوسینا کو خود کو منوانے کا او ر اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کا موقع ملا اور مہاراشٹر میں ایک ایسی سیاسی پارٹی کے طو ر پر ، جسے عوام کی فکر کی ہو ، شیوسینا خود کو منوانے میں قدرے کامیاب بھی رہی ۔ اس کے کاموں سے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ لگتا ہے کہ اسے مہاراشٹر اور مہاراشٹر میں رہنے والوں کی ترقی کی فکر ہے ۔ اس نے ’ ہندوتوا ‘ کو تو نہیں چھوڑا ہے لیکن بی جے پی کی ’ فرقہ پرستی‘ کی سیاست سےبڑی حد تک خود کو کنارہ کش کیا ، اور آر ایس ایس پر سخت نکتہ چینیاں کیں ۔ پہلے شیوسینا ریاست کے مسائل سے آنکھیں موند کر بی جے پی کی ’ ہندو توا ‘ کی راہ پر چل رہی تھی ، مگر اس میں ایک بڑی تبدیلی دیکھی گئی ۔ بی جے پی یہی نہیں چاہتی ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ شیوسینا ’ کٹر ہندوتوا ‘ کی پالیسی پر بھی عمل پیرا رہے اور اس کی امیج ایک نصف سیکولر پارٹی کی بھی بنے ، تاکہ ہندوؤں کے لیے بھی اور این سی پی و کانگریس اور سیکولر ذہن رکھنے والوں کے لیے بھی ، اُس پر بھروسہ کرنا یا اس کی حلیف بننا ، ممکن نہ رہے ۔ ایسا ہوا تو شیوسینا کو بی جے پی کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑ سکتا ہے ۔ جب ایسا نہیں ہوا تو ، بی جے پی نے ان ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کیا ، جو کسی کے بھی قدموں کو ڈگمگا سکتے ہیں ۔ ای ڈی اور انکم ٹیکس کا استعمال ، اور شیوسینا و حلیف سیاسی جماعتوں کے اراکینِ اسمبلی کو ڈرانے اور ان کے گھروں اور کاروباری ٹھکانوں پر چھاپے مروانے کا کام ۔ خود ادھو ٹھاکرے کوگھیرنے کا کام ۔ کبھی ان کے بیٹے ، ریاست کے ایک وزیر ادتیہ ٹھاکرے پر ، اپنے ایم پی نارائن رانے کے ذریعے گھناؤنے الزامات لگوانے کا کام ، اور کبھی ادھو ٹھاکرے کے رشتے دار کی املاک کی ضبطی کا کام ۔
لوگ جانتے ہی ہیں کہ ادھو کے سالے یعنی ان کی اہلیہ رشمی ٹھاکرے کے بھائی شری دھر مادھو پاٹنکر کی املاک کی، ای ڈی کے ذریعے ضبطی کی گئی ہے۔ ای ڈی نے منی لانڈرنگ کا الزام عائد کر کے چھ کروڑ روپیے سے زیادہ کی ان کی جائیداد ضبط کر لی ہے ۔ اس ضبطی سے قبل محکمۂ انکم ٹیکس نے ادتیہ ٹھاکرے اور شیوسینا کے ہی ایک لیڈر انل پرب کے کئی جاننے والوں کے یہاں چھاپےمارے تھے ، پرب ہنوز ای ڈی کی تفتیش کا سامنا کر رہے ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں۔ راہل کنال ، سدانند کدم اور بجرنگ کرماتے کے ٹھکانوں پر چھاپوں کے بعد ای ڈی نے پاٹنکر کی گیارہ جائیدادوں کی ضبطی کا اعلان کیا تھا۔ یہ معاملہ اس لیے بھی ایک دلچسپ رُخ اختیار کر گیا تھا کہ جن جائیداووں کو ضبط کیا گیا ہے ، ان کا کنٹرول ’ شری سائی بابا گرہ نرمتی پرائیوٹ لمیٹیڈ ‘ کے تحت ہے ، اور اسے ادھو ٹھاکرے کی اہلیہ رشمی ٹھاکرے کی ملکیت کہا جا رہا ہے ۔ گویا کہ یہ چھاپہ ایک طرح سے ادھو ٹھاکرے کی اپنی ذات پر اور مہاراشٹر کے اُس وزیر اعلیٰ پر تھے جس نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے ۔
اس پس منظر میں چھاپوں کی اس کارروائی کو ’ سیاسی انتقام ‘ سے تعبیر کیا گیا تھا اور آج بھی یہی کہا جا رہا ہے ۔ اور صرف یہ چھاپے نہیں ہیں ۔ شیوسینا کے ایم پی سنجے راؤت نے الزام لگایا تھا کہ کچھ لوگ ان تک یہ پیغام لے کر پہنچے تھے کہ وہ مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی سرکار کو گرانے میں مدد کریں ، اور جب انہوں نے انکار کیا تو انہیں یہ دھمکی دی گئی کہ 17سا ل قبل علی باغ میں انہوں نے جو زمین خریدی تھی اس کی ای ڈی سے انکوائری کروائی جائے گی ۔ اتنا ہی نہیں سنجے راؤت کی بیوی ورشا راؤت کو ای ڈی نے نوٹس بھی دیا تھا ، یہ معاملہ ابھی بند نہیں ہوا ہے ۔ اور پھر شیوسینا کے کئی ایم ایل اے اور کارپوریٹر ہیں جو ای ڈی اور انکم ٹیکس کے راڈار پر ہیں ۔ ان ہی میں سے ایک ہیں شیوسینا کے باغی رکن اسمبلی پرتاپ سُرنائک ۔ سرنائک کے گیارہ کروڑ سے زائد روپیے کی املاک ضبط کی گئی ہے۔ پرتاپ سُرنائک ای ڈی کے چھاپوں اور کارروائیوں سے سہمے ہوئے تھے ، انہوں نے ادھوٹھاکرے کو خط لکھ کر یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ بی جے پی سے مفاہمت کر لی جائے ۔ ایک اور کارپوریٹر یشونت جادھو ہیں ، ان کو اور ان کی رکن اسمبلی بیوی یامنی جادھو کو ای ڈی اور محکمۂ انکم ٹیکس کے ذریعے گھیرا گیا ، آج یامنی ، ایکناتھ شندے کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں۔
ایکناتھ شندے کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے ۔ ماضی میں یہ آٹو رکشہ چلاتے تھے ، اور آج کئی سو یا ہزار کروڑ کے مالک ہیں ! سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ دولت کہاں سے آئی؟ وہ بھی ای ڈی کی راڈار پر رہے ہیں ، اور مزید کئی نام ہیں ۔ اسی طرح ایک ایم پی ہیں بھاؤنا گاولی ، ان کے پاس بھی دولت کا ، غیرمحسوب دولت کا انبار ہے ، انہوں نے بھی ادھو کو مشورہ دیا تھا کہ مودی جی کے ’ چرن اسپرش ‘ کر لیے جائیں ساری مشکلیں دور ہو جائیں گی ۔
ای ڈی اور محکمۂ انکم ٹیکس کی کارروائیوں کے مقاصد خوب واضح رہےہیں ، شیوسینا کو مفاہمت کے لیے مجبور کرنا ، اراکین اسمبلی کو خوف زدہ کرنا اور شیوسینا میں بغاوت کی لہر کو ہوا دے کر آنکھیں دکھانے والی شیوسینا قیادت کو ، یعنی ٹھاکرے خاندان کو ٹھکانے لگانا ، اور پھر بی جے پی کی حکومت کا قیام کرنا ۔ بی جے پی کو خوب اندازہ ہے کہ اگر اس نےممبئی میونسپل اور آئندہ اسمبلی الیکشن بغیر شیوسینا کے سپورٹ کے لڑا تو اس کے لیے راستہ بڑا ہی کٹھن ہوگا ، اس کے سیاسی خواب پورے نہیں ہو سکیں گے ۔ ایک بڑا خواب ملک کو ’ ہندو راشٹرا ‘ میں تبدیل کرناہے ۔ اسے ایک بڑی کامیابی تو حاصل ہوگئی ہے کہ شیوسینا میں بغاوت ہوگئی ہے ۔ اور شیوسینا قیادت کو پارٹی بچانے کے لیے ہر جتن کرنے پڑ رہے ہیں۔
باغی شیوسینکوں کے لیڈر ایکناتھ شندے نے اپنے پیچھے ایک ’ مہا شکتی ‘ کے ہاتھ کا ذکر کیا ہے ، یہ ’ مہا شکتی ‘ لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی ہے ۔ لوگ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ شیوسینا کے باغیوں کو وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امی شاہ کا مکمل آشیرواد حاصل ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ ادھو جن کے پیچھے پوری کانگریس اور این سی پی ، بالخصوص شرد پوار کھڑے ہوئے ہیں ، گھبرا کر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور حکومت نہ سہی پارٹی بچانے کے لیے بی جے پی سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں یا آر پار کی لڑائی لڑتے ہوئے بی جے پی کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں ۔ ویسے شیوسینا کا وجود بھلے ہی خطرے میں نظر آئے ، نہ اسے مٹانا آسان ہوگا اور نہ ہی ٹھاکرے خاندان کو شیوسینا سے الگ کرنا ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)