تحریر:شکیل رشید
ہمارے سامنے تین منظر ہیں…..
یہ رانچی ہے ، 10؍جون جمعہ کا دن ہے ۔ نماز جمعہ ہوچکی ہے ، مسلمانوں میں اپنے پیغمبر حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف زبردست غم وغصہ ہے ، جس کا اظہار انہوں نے احتجاج کی شکل میں کرنا شروع کیا ہے ۔ اور پھر پولیس کی لاٹھیاں چلتی ہیں ، گولیاں چلتی ہیں ، دونوجوان شہید او ربے شمار زخمی ہوجاتے ہیں ۔پولیس کا الزام ہے کہ احتجاجی تشدد پر اتر آئے تھے ، پتھراؤ کررہے تھے ۔ کیا آپ جانتے ہیں رانچی صوبۂ جھارکھنڈ کی راجدھانی ہے ، اور فی الحال وہاں کانگریس اور راشٹریہ جنتادل کی حمایت سے جھارکھنڈ مکتی مورچہ ( جے ایم ایم) کے قائد شیبوسورین وزیراعلیٰ ہیں ۔ آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ وہاں اِن دنوں یوپی اے کی سرکار ہے ۔ ایک سیکولر سرکار ۔ لیکن اس سیکولر سرکار کی راجدھانی رانچی میں پولیس نے وہ کیا جو کسی غیر سیکولر سرکارکی پولیش کرتی ہے۔
یہ اترپردیش ہے ، سہارنپور میں احتجاج کے بعد پولیس نے مسلم نوجوانوں کو حراست میں لیا ہے اور لاک اَپ میں انہیں لاٹھیوں سے بری طرح سے پیٹا ہے ۔ کئی احتجاجیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادیئے گیے ہیں ۔ الہ آباد میں کاکیٹوسٹ آفرین فاطمہ کے مکان پر بلڈوزر چڑھا دیا گیا ہے ۔ یوپی میں بی جے پی کی سرکار ہے ، یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ یوگی ’ مسلم دشمن‘ ہیں ، بھلے ہی وہ لاکھ اس سچ سے انکار کریں۔ بی جے پی غیر سیکولر سہی ، لیکن سماج وادی پارٹی توسیکولر سیاسی جماعت ہے ، اور اس بار یوپی کے مسلمانوں نے کھل کر سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا ہے۔ اسمبلی میں اکھلیش یادو سمیت سماج وادی پارٹی کے111 ممبران ہیں ، اور اس کی حلیف سیاسی جماعتوں راشٹریہ لوگ دل اور سُہل دیوبھارتیہ سماج پارٹی کے 14ممبران ، مجموعی طو رپر 125 ممبران ۔ یہ سب کے سب سیکولر ہیں ، مگر جب مسلمان گرفتار کیے جارہے تھے اور ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے تھے تب یہ سب کے سب خاموش تھے ،وہ ممبران اسمبلی بھی جو مسلمان ہیں ۔ یاد رہے کہ کانگریس کے بھی دوممبران اسمبلی ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ خود کو سیکولر ہی کہتے ہوں گے ۔ اور بہن جی یعنی مایاوتی کی پارٹی بی ایس پی نے بھی ایک سیٹ جیتی ہے ۔
یہ ممبئی ہے ، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ بھارت ہے تو زیادہ درست ہوگا ۔ کانگریس کے قائد راہل گاندھی کو ’ نیشنل ہیرالڈ کیس‘ میں انفورسمینٹ ڈائریکٹوریٹ(ای ڈی) کے ذریعے طلب کیا گیا ہے ، تاریخ 13جون ہے ، دن پیر ۔ جگہ جگہ کانگریسی دھرنا دے رہے ہیں ، احتجاج کررہے ہیں اور نعرے لگارہے ہیں ’’راہل گاندھی ہمارے لیڈر ہیں ‘‘۔ نعرے بازی کے ساتھ گرفتاریاں بھی دے رہے ہیں ۔ پیر سے جو احتجاج شروع ہوا تھا وہ ہنوز تھما نہیں ہے ، باوجود اس کے کہ پولیس کانگریس کے ہیڈکوارٹر واقع دہلی پر دھاوا بول چکی ہے۔ احتجاج ایک جمہوری ملک میں سب کا حق ہے ، کانگریس کا بھی ، وہ اپنے لیڈر کو ’ہراساں‘ کیے جانے کے خلاف احتجاج کرسکتی ہے ۔ اور گرفتاریاں بھی ۔ لیکن کیا کانگریس کا ، اس کے لیڈروں کا بالخصوص بےغیرت مسلم لیڈروں کا یہ فرض نہیں تھا کہ جب بی جے پی کی قومی ترجمان نوپور شرما نے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کی تھی اور بی جے پی کے ہی ایک لیڈر نوین جندل نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی، تو سڑکوں پر اتر کر مظاہرے کرتے اور حکومت کو جتلادیتے کہ ایک جمہوری سیکولر ملک میں وہ ’نفرت کی سیاست‘ نہیں چلنے دیں گے ؟
اوپر جو تین منظر پیش کیے گئے ہیں ان میں کانگریس کا اور کانگریسی لیڈروں کا کردار تو قابلِ مذمت ہے ہی ، مسلم کانگریسیوں کا کردار کہیں زیادہ قابل مذمت ہے ۔ ان کے لئے راہل گاندھی ’لیڈر‘ ہیں اس لیے اُنہیں ’ہراساں‘ کیے جانے کے خلاف یہ سڑکوں پر بھی اترسکتے ہیں اور گرفتاریاں بھی دے سکتے ہیں ، لیکن شاید یہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کو اپنا ’قائد‘ تسلیم نہیں کرتے کہ گستاخی کے خلاف سڑکوں پر اترنے کو تیار ہیں اور نہ ہی گرفتاریاں دینے کو ۔
یوپی میں کیا ہورہا ہے ؟ اس سوال کا جواب ساری دنیا کے پاس ہے سوائے کانگریس ، اور کانگریسی وسپائی مسلمانوں کے ۔ کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ جب مکانوں پر بلڈوزر چل رہے تھے تب سیکولر سیاسی جماعتوں کے لیڈران وہاں جاتے اور اسی طرح ، جیسے جہانگیر پوری میں کمیونسٹ لیڈر برندا کرات بلڈوزر کے سامنے کھڑی ہوگئی تھیں ، خود کھڑے ہوجاتے ؟ افسوس تو یہ ہے کہ صرف سیاسی قیادت ہی نہیں مذہبی قیادت بھی بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت نہیں کرسکی۔ وہ قاضی بھی ، جو سر پر کفن باندھنے کی باتیں کررہے تھے ، دور دور تک نظر نہیں آئے ۔
عام مسلمانوں کوآخر کس کے سہارے چھوڑ دیا گیا ہے ؟ یہ کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ انگلیاں عام مسلمانوں ہی کی طرف اٹھائی جارہی ہیں،سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ یہ کس کے کہنے پر احتجاج کرنے نکلے تھے ؟ کیوں بند کروا رہے تھے ؟ وغیرہ ۔ اس کا جواب تو بس یہی ہے ،کہ یہ عام مسلمان اس لیے احتجاج کررہے تھے کہ یہ سیاسی اور مذہبی قیادت پر سے اعتماد کھوچکے ہیں ۔ مجھ پر مذہبی قیادت پر اعتراض کرنے کا الزام بار بار لگتا ہے ، لیکن الزام لگانے والے یہ نہیں سوچتے کہ اعتراض اسی پر کیا جاتا ہے جس سے کوئی امید ہوتی ہے ۔ یہ مذہبی قیادت ہی تھی جس نے ماضی میں عام مسلمانوں کے حوصلے بڑھائے تھے اورمایوسی کے غار سے انہیں باہر نکالا تھا ، ان کی ہمت بڑھائی اور ان میں جرأت پیدا کی تھی ۔ آج عام مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے والے ، انہیں مایوسی کے غار سے نکالنے والے ، ان کی ہمت بڑھانے اور ان میں جرأت پیدا کرنے والے نہیں رہے ، اسی لیے مسلم قوم ’ مردہ‘ ہوتی جارہی ہے ۔ اور اب تو گولی باری ، بلڈوزر اور پولس کریک ڈاؤن کا ایسا خوف ، خود مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی قیادت نے ، طاری کرادیا ہے کہ شایدآئندہ مسلمان احتجاج اور مظاہرے کی سوچ بھی نہ سکیں ۔
اب قیادت یہ کہتی نظر آرہی ہے کہ ’ احتجاج‘ نہیں ہونا چاہئے ۔ ٹھیک ہے ، لیکن ایسے فیصلے کرنے کی کچھ بنیادیں ہوتی ہیں ، اور کچھ طریقے ہوتے ہیں ، جن میں سے ایک ہے قوم کو اعتماد میں لینا۔ مگر یہاں یہ دیکھا جارہا ہے کہ حکومتوں ، انتظامیہ اور پولیش کو تو اعتماد میں لیا جارہا ہے ، ان کی ہاں میں ہاں تو ملائی جارہی ہے ، مگر قوم کو اعتماد میں لیے بغیر فیصلہ ان پر تھوپا جارہا ہے ۔ یاد رکھیئے اس سے حوصلے مزید پست ہوں گے ۔ اور اِن دنوں یہ ،جو ’ہندوراشٹر‘ کا قیام چاہتے ہیں، مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے ہی کی مہم میں جٹے ہوئے ہیں ۔ اب دیکھ لیں کہ کیا نہیں ہوا…
(1)بابری مسجد شہید کی گئی۔ (2)پریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دے دی۔ (3) طلاقـ ثلاثہ کا حق چھین لیا گیا۔ (4) مسجدوں سے لاؤڈاسپیکروں پر اذانیں بند کرادی گئیں۔ (5) کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر نئے دعوے ٹھونک دیے گئے۔ (6) بڑے کے ذبیحہ کو تقریباً ناممکن بنادیا گیا۔ ( 7) بلڈوزوں کو گھروں کی مسماری کا ایک طرح سے لائسنس دے دیا گیا۔ (8) جیلیں مسلم نوجوانوں سے بھری جانے لگیں۔(9) ماب لنچنگ کی ایک طرح سے عام اجازت دے دی گئی۔ (10) پولیس کومسلمانوں کے خلاف ہر اقدام بشمول گولی باری کی چھوٹ فراہم کردی گئی۔…. مدارس اور دینی شعائر الگ سے نشانے پر ہیں ۔ شہریت چھین لیے جانےکا بھوت الگ منہ پھاڑے کھڑا ہے ۔… ماناکہ چند مسلم جماعتیں عدالت گئی ہیں ، ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائے ہیں ، لیکن اس کا کیا فائدہ ہوا ہے؟ سپریم کورٹ نے تو ایک غیر قانونی عمل بلڈوزر تک پر پابندی لگانے کی ضرورت نہیں محسوس کی ہے !
حالات ،لوگ کہتے ہیں بے حد تشویش ناک ہیں ، لیکن 1947 میں بھی حالات تشویش ناک تھے ، مسلمانوں نے سامنا کیا ۔ اس وقت سیاسی اور مذہبی قیادت مخلص تھی۔ مسلمانوں نے حوصلے نہیں ہارے تھے ،مسلمان مایوس نہیں تھا۔ آج پھر مخلص قیادت کی ضرورت ہے ، اور اس کے لیے کہیں دور نہیں جانا پڑے گا ، یہ جو قائد راہل گاندھی کے لیے گرفتاریاں دیتے ہیں یہی اپنی قوم کے لیے بھی گرفتاریاں دینے کا حوصلہ جٹائیں، دیکھیے قیادت کھڑی ہوجائے گی ۔ ہندوتوادیوں کو دیکھیں، ان کے لیڈر ہر حال میں نوپورشرما کو بچارہے ہیں، اس کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت کو بھی ہر حال میں ملک کے ساتھ ساتھ قوم وملت کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)