ایڈووکیٹ ابوبکرسباق سبحانی
حالیہ دنوں میں ہی سپریم کورٹ نے کہا کہ “جب عوام و سماج کے محافظ ہی حفاظت کرنے کے بجائے پولیس اسٹیشن آنے والے شخص کے ساتھ غیر انسانی و ظلم و بربریت کا سلوک کریں تو یہ عوام کے غور کرنے کا ایک سنجیدہ مسئلہ بن جاتا ہے”۔ اکیسویں صدی کے ہندوستان میں بھی ہم اکثر پولیس حراست یا جیلوں میں عدالتی تحویل کے دوران ملزمین کے ساتھ ہونے والے ٹارچر و زیادتی کی خبریں میڈیا و اخبارات میں دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ ٹارچر عموما رپورٹ نہیں کیا جاتا ہے تاہم ٹارچر کے نتیجے میں ہونے والی کچھ اموات ہی پولیس، حقوق انسانی کے اداروں یا عدالت تک پہنچتے ہیں جن کی خبریں میڈیا تک پہنچتی ہیں یا کبھی میڈیا میں حادثے کو ملنے والی سرخی کے بعد عدلیہ اس سانحہ پر نوٹس جاری کردیتی ہیں، قومی کمیشن برائے حقوق انسانی کے مطابق ٹارچر کے نتیجے میں ہونے والی کل اموات ریکارڈ میں نہیں آتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ میں ٹارچر کے خلاف ایک اہم ترین معاہدہ “ٹارچر نیز دیگر اذیت ناک، غیر انسانی و ذلت آمیز برتاو کے خلاف عالمی معاہدہ” (UNCAT) پاس کیا، جس کا واحد مقصد ٹارچر کو قانونی طریقے سےغیرقانونی و قابل سزا بنانا تھا۔ اس معاہدے کی دفعہ ایک میں ٹارچر کی تعریف و تفصیل بیان کی گئی، جب کہ دفعہ دوئم کے تحت دوران جنگ بھی ٹارچر کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ہمارے ملک ہندوستان نے ٹارچر کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدے پر اکتوبر ۱۹۹۷ میں دستخط تو کردئے، تاہم اپنے ملک میں اس کے نفاذ کا اقرار ابھی تک نہیں کیاگیا، بلکہ معاہدے کی دفعہ ۲۰ اور ۲۲ کے خلاف اپناموقف واضح کرکے اس کے نفاذ سے معذرت بھی کرلی۔
نیشنل کیمپین اگینسٹ ٹارچر کی تازہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۹ میں پولیس حراست کے دوران ۱۱۷ افراد کی موت واقع ہوئی جب کہ عدالتی تحویل یعنی جیل میں مقدمات کی سنوائی کے دوران ۱۶۰۶ افراد کی موت ہوئی۔ ایشین سینٹر فار ہیومن رائٹس (اےسی ایچ آر) کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۰ کے دوران پولیس حراست کے دوران کل ۱۵۰۴ اموات ہوئیں جب کہ عدالتی حراست کے دوران کل اس مدت میں ۱۲۷۲۷ اموات واقع ہوئیں، یہ اعداد و شمار قومی کمیشن برائے حقوق انسانی (این ایچ آر سی) کے ریکارڈ پر منحصر ہیں۔ جب کہ اپریل ۲۰۱۷ سے فروری ۲۰۱۸ کے دوران کل ۱۶۷۴ افراد کی موت دوران حراست ہوئی تھی، یعنی ہمارے ملک میں اس دوران روزانہ پانچ افراد کی موت حراست میں ٹارچر کا شکار ہونے کی وجہ سے ہوئی۔ دوران حراست اموات کے اعداد و شمار پر اگر روشنی ڈالیں تو اترپردیش میں جنوری تا اگست ۲۰۱۷ میں ۲۰۴ حراستی اموات کی تعداد فروری ۲۰۱۸ میں بڑھ کر ۳۷۴ ہوجاتی ہے۔
دستور ہند کا آرٹیکل ۲۱ تمام شہریوں کو زندگی کا حق دیتا ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دستور و قانون کا نظام قائم کرے جہاں کسی بھی شہری کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو نیز ہر شہری انسانی اقدار و احترام کا ساتھ زندگی گزارنے کا حق رکھتا ہو، یہ حق بنیادی حق یا حقوق انسانی کا سب سے اہم حق تسلیم کیا جاتا ہے، البتہ قوانین کی روشنی میں عدلیہ اگر کسی شہری کو قید یا موت کی سزا سناتی ہے تو وہاں بھی حکومت و عدلیہ کو یہ یقینی بنانا لازمی ہے کہ اس ملزم کو اپنا دفاع کرنے کا پورا پورا موقع ملا اور جو مقدمہ یا فیصلہ ہوا وہ برحق ہے مزید یہ کہ اس فیصلے کے خلاف ملزم اپیل کرنے کا بھی مکمل دستوری حق رکھتا ہے۔
سیپریم کورٹ آف انڈیا نے سنیل بترا بنام دہلی انتظامیہ کے کیس میں اور پھر راما مورتی بنام اسٹیٹ آف کرناٹک کے کیس میں اپنے تاریخی فیصلے تحریر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ قیدی بھی انسان ہیں اور حراست کے دوران ان کے بنیادی حقوق ختم نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ ان بنیادی حقوق کے تحفظ کو خاص اہمیت دیتے ہوئے دستور ہند کے باب سوم میں بنیادی حقوق کو ابتدائی اہمیت دیتے ہوئے سپریم کورٹ آف انڈیا کو دستوری و بنیادی حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری دیتے ہوئے نگران کی ذمہ داری دی ہے، نیز سپریم کورٹ و ہائی کورٹ کو آرٹیکل ۳۲ اور ۲۲۶ میں خصوصی اختیارات سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان صریح حقوق و تلخ حقائق کے باوجود ہمارے ملک کے دستور یا تعزیراتی قوانین میں کہیں بھی ٹارچر یا دوران حراست موت کی تعریف یا سزا و ممانعت کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے، بلکہ عمومی دفعات یعنی دوران حراست موت کے قتل ثابت ہونے کے ممکنہ تمام شواہد کے بعد ہی انڈین پینل کوڈ (مجموعہ تعزیرات ہند) کی دفعہ ۳۰۲ کے تحت بمشکل مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
دستور ہند کی دفعہ۲۰ کی ذیلی شق ۳ کے تحت کسی بھی شخص کو اس پر لگے الزام کے لئے گواہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ یہ دفعہ شہریوں کے دیے گئے دستوری حقوق اور ٹارچر سے تحفظ دینے کی غرض سے شامل کی گئی تھی، کیونکہ پولیس ٹارچر عموما حراست میں لینے کے فورا بعد گناہ قبول کروانے نیز اقبالیہ بیان حاصل کرنے کی غرض سے ہوتے ہیں۔ انڈین ایویڈنس ایکٹ کی دفعہ ۲۵ کے تحت بھی کسی بھی ملزم سے پولیس حراست کے دوران لیا گیا اقبالیہ بیان قابل قبول ثبوت تسلیم نہیں کیا جائے گا، تاہم پولیس حراست کے دوران ہونے والے ٹارچر میں نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق ۲۰۱۶ سے ۲۰۱۷ میں دوران حراست اموات کی شرح میں ۹ فیصدی اضافہ ہوا ہے۔
حکومت ہند نے ۲۰۰۸ میں “انسداد ٹارچر بل” پارلیمنٹ میں پیش کیا، اس بل کے مطابق اگر کوئی بھی سرکاری ملازم مع پولیس پرسنل اگر کسی بھی شخص کو چوٹ پہنچائے جو کہ اس کی زندگی کے لئے خطرہ پیدا کرسکتی ہو یا کسی عضو یا جسمانی صحت کو نقصان ، یا کسی بھی قسم کی جسمانی یا ذہنی تکلیف کا سبب بنے تو وہ سرکاری ملازم مع پولیس کے سزاوار ہوں گے، نیز کسی قسم کی معلومات یا اقبالیہ بیان کے لئے ٹارچر کا استعمال کیا تو یہ سزا پانے کا جرم ہوگا۔ یہ بل لوک سبھا میں تو پاس ہوگیا تاہم راجیہ سبھا میں بحث کے دوران کچھ اعتراضات ہوئے جس کے بعد اس بل کو ۲۰۱۰ میں دوبارہ پیش کیا گیا تاہم آج تک وہ بل پارلیمنٹ سے پاس ہوکر قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا اور نہ ہی شہریوں کو دوران حراست ہونے والے ٹارچر سے کوئی تحفظ فراہم ہوا۔
پولیس حراست کے دوران ٹارچر کی وجہ سے موت ہونے کی صورت میں ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں سدھار یا اصلاح کی ضرورت و پولیس نظام کو قانونی پشت پناہی کس درجہ تک حاصل ہے اس کو سمجھنے کے لئے آسام پولیس کا ایک کیس ہماری آنکھیں کھول سکتا ہے۔ آسام کے ضلع کوکراجھار کی ایک ضلعی عدالت نے ۱۹۹۹ کے پولیس حراست کے دوران ٹارچر سے ایک ۱۹ سالہ لڑکے کی موت کے ایک حادثہ میں اکتوبر ۲۰۱۸ کو تقریبا بیس سال کے بعد آئی جی پولیس انوراگ ٹنکھا کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا تھا، وارنٹ جاری ہونے کے بعد حکومت نے متعلقہ پولیس آفیسر کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کا اجازت نامہ (سینکشن آرڈر) دینے سے انکار کردیا جو کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۹۷ کے تحت ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے کہ پولیس نظام کی اصلاح و جوابدہی طے کرنے کے لئے آزادی سے لے کراب تک کسی بھی حکومت کے ذریعے کوئی بھی عملی اقدامات نہیں کئے گئے جب کہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۹۷ کے تحت انگریز حکومت کا دیا گیا تحفظ آج تک پولیس کے افراد و آفیسران کو حاصل ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اس سماجی مسئلہ پر سنجیدگی و ایمانداری سے لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ روزمرہ کے ان انفرادی حادثات کو حل کرنے کے لئے حکومت و عدلیہ بھی سنجیدہ ہو نیز دستور ہند و دیگر قوانین میں فراہم بنیادی حقوق و تحفظات ہر عام شہری کو حاصل ہوسکیں۔