تحریر: ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
ملک سے غداری یا دیش دروہ کے قانون اور اس قانون کے استعمال کو لے کر ہونے والی بحث کسی نتیجے تک پہنچنے میں ناکام ہوتی محسوس ہورہی ہے، ملک سے غداری کے قانون کو سیڈیشن کا قانون بھی کہا جاتا ہے، سپریم کورٹ آف انڈیا اس قانون کی دستوری حیثیت پر ایک بار پھر غور کررہی ہے، لیکن اس قانون کے مشکوک و مشتبہ استعمال کے واقعات ہماری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں، حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات میں خاص کر طالبان کے موضوع پر سینئر ممبر آف پارلیمنٹ شفیق الرحمان برق کے خلاف ملک سے غداری کے الزام میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو اس کے کچھ ہی دنوں کے بعد اترپردیش کے وزیراعلی کے خلاف سخت الفاظ میں تبصرہ کرنے کی بنیاد پر سابق گورنر عزیز قریشی کے خلاف ملک سے غداری کے قانون کے تحت مقدمہ درج ہوجاتا ہے، بیان یا تنقید چاہے وہ کتنی ہی سخت کیوں نا ہو ملک سے غداری کے زمرے میں نہیں آسکتی ہے۔
اس قانون کے استعمال کو لےکر نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے تازہ اعداد و شمار پیش کئے ہیں جن کے مطابق 2016 سے 2019 کے درمیان اس قانون کے تحت مقدمات میں تقریبا163 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ صرف 3.3 فیصد مقدمات میں ہی جرم ثابت ہوسکا ہے۔ 2019 میں 96 افراد کے خلاف ملک سے بغاوت کے الزام میں مقدمات درج ہوئے جن میں صرف 2 ملزمین کے خلاف جرم ثابت ہوا، یہاں یہ حقائق بھی قابل غور ہیں کہ شہریت قانون میں ترمیم کے بعد ہونے والے احتجاجات کے دوران ملک کے غداری کے الزام میں تقریبا 25 مقدمات انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124A کے قائم کئے گئے، وہیں ہاتھرس گینگ ریپ حادثہ کے بعد سوشل میڈیا میں پوسٹ ڈالنے یا حکومت و انتظامیہ کے رویہ پر سوال اٹھانے والوں کے خلاف 22 مقدمات ملک سے غداری کے قانون کے تحت درج کئے گئے، اور پلوامہ حادثے کے بعد سوال کرنے والوں کے خلاف تقریبا 27 مقدمات اس قانون کے تحت درج ہوئے ۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے کیدار ناتھ سنگھ بنام اسٹیٹ آف بہار 1962 کے مقدمہ میں سیڈیشن کے قانون دفعہ 124 اے انڈین پینل کوڈ کی دستوری و قانونی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے اس قانون کے متعلق بنیادی اصول پیش کئے تھے جس میں سپریم کورٹ نے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرنا یا حکومت وقت کی مخالفت کرنا سیڈیشن نہیں ہوگا، ملک میں قانون کے ذریعے بنائی گئی حکومت اور وہ افراد جو وقتی طور پر انتظامی امور انجام دینے کے لئے متعین ہوں، دونوں میں فرق واضح کیا ہے، یعنی ہر شہری کو یہ حق ہے کہ وہ حکومت یا حکومت کے کام کرنے کے طریقوں کے متعلق اپنی رائے پیش کرے، یہ رائے تنقید یا مخالفت کرنے کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے، حکومت وقت یا حکومت کے ذریعے انتظامی امور کو انجام دینے والے ذمہ دار افراد کی کارگزاریوں یا ان کے کام کرنے کے اسلوب و اقدامات کی تنقید کرنا چاہے وہ تنقید سخت ہی کیوں نہ ہو، تنقید یا اختلاف کو ملک سے بغاوت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص تشدد کرنے کے لئے اکساتا ہے یا امن و امان کے لئے واقعی خطرہ پیدا کرتا ہے تو اس صورت میں ہی اس قانون کا استعمال ہوسکتا ہے، کسی شخص کا حکومت کی پالیسیوں کو لے کر تشویش یا بے چینی کا اظہار کرنا تو یقینا ایک جمہوری ملک کے ایک آزاد شہری کا دستوری حق ہے۔
تاریخ کی کتابوں کے مطابق انگریز حکومت سے آزادی حاصل کرنے کی طویل جدوجہد کے پیچھے سب سے اہم مقصد یہی تھا کہ انگریز حکومت ہمارے ملک میں اپنے مفادات کے پیش نظر پالیسیاں مرتب کرتی تھی اور ان پالیسیوں کے خلاف اٹھنے والی مخالف آوازوں کو سخت قوانین اور پولیس کے ذریعے دبانے کی کوشش کرتی تھی، ملک سے بغاوت کے قانون، انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124 اے کو شامل کرنے کا مقصد بھی یہی تھا، یہ قانون 1870 میں انڈین پینل کوڈ میں شامل کیا گیا تھا جب انگریز حکومت کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے لئے وہابی مومنٹ شروع ہوئی تھی، اس سے قبل انگلینڈ میں یہ قانون 1848 میں یوکے ٹریزن فیلونی ایکٹ کے نام سے بنایا گیا تھا۔ آزادی کی ایک طویل جدوجہد کے بعد1947 میں ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا لیکن آزاد ہونے کے بعد بھی ان کالے قوانین کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی البتہ انہیں قوانین کے ذریعے ہر اس آواز کو اس قانون کے ذریعے دبانے کی کوشش کی گئی جو آواز حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں کے خلاف اٹھی یا جس نے بھی حکومت کی عوام مخالف پالیسی کی مخالفت کری۔ آزادی کے بعد دستور ہند کا نفاذ ہوا اور دستور نے شہریوں کو متعدد بنیادی و شہری حقوق فراہم کئے جن میں آرٹیکل 19 بھی شامل ہے، جس کی روشنی میں ہرشہری کو اظہار رائے کی آزادی فراہم کی گئی، اظہار رائے کا حق ہی ہے جو ہمیں حکومت اور حکومت کی پالیسیوں پر اپنی رائے پیش کرنے کی آزادی دیتا ہے، ایک آزاد جمہوری ملک میں حکومت کا انتخاب عوام کرتی ہے، حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے قانون و اسکیمیں بنائے، اگر عوام کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی منتخب کردہ حکومت کچھ خاص صنعتی گھرانوں کے مفادات کے تحفظ کی غرض سے ایسی پالیسیاں بنارہے ہیں جن سے عام شہریوں کو نقصان ہوگا تو یقینا شہریوں کی یہ دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کے خلاف اپنی بے چینی کا اظہار کریں، البتہ یہ اظہار خیال جمہوری طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے ہو، تاہم آرٹیکل 19 کی دوسری ہی شق میں حکومت کو یہ اختیار بھی دےدیا گیا کہ وہ قوانین و ضوابط اور امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کی غرض سے معقول پابندیوں کا نفاذ بھی کرسکتی ہے نیز قوانین کی تدوین بھی کرسکتی ہے، انگلینڈ نے اس قانون کو 2009 میں ختم کردیا ہے، اکثر و بیشتر ممالک نے اپنے قوانین سے سیڈیشن کی شق کو حذف کردیا ہے۔
1951 میں تارا سنگھ گوپی چند کے مقدمے کہا گیا تھا کہ “ہندوستان اب ایک خودمختار جمہوری ملک ہے، ملک سے بغاوت کا قانون ایک غیرملکی حکومت کے تسلط کے لئے ضروری تھا جب کہ آزادی کے بعد کی تبدیلیوں کے ساتھ اس قانون کو بھی تبدیل ہونا چاہیےاور اس قانون سے چھٹکارا حاصل ہونا چاہیے”۔ 1958 میں رام نندن مقدمے کے فیصلے میں جسٹس گورتو نے کہا تھا کہ “ قانون ساز اسمبلی و انتظامیہ کچھ وزیروں کے قابو میں ہوتی ہے جن کی پالیسیوں پر پارلیمنٹ سے لے کر سڑک تک عام عوام بھی اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کریں گے، اس مخالفت یا اظہار رائے کا مقصد ضروری نہیں کہ امن و قانون میں رکاوٹ ڈالنا ہو یا حکومت کا تختہ پلٹ کرنا ہو، تاہم حکومت ان کی اظہار خیال کی آزادی کو پابند کرنے کے لئے تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے کا ناجائز استعمال کرسکتی ہے جو کہ دستور کے بنیادی حق اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہوگا۔”
آزادی کے بعد سے آج تک اس قانون کا استعمال ہرحکومت اپنے مخالفین اور تنقید کرنے والوں کے خلاف کرتی رہی ہے، ہر سیاسی پارٹی نے اپنے مفادات کے پیش نظر قوانین اور پولیس ایجنسیوں کا غلط استعمال کیاہے۔ ملک سے بغاوت کرنے کا واضح مطلب یہی ہوتا ہے کہ ملک کی خودمختاری یا آزادی کے لئے خطرہ پیدا کرنا، ملک میں ایسے جنگی حالات پیدا کردینا جس سے دستوری حکومت خطرے میں آجائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک عوام کی منتخب حکومتیں عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتی رہی ہیں، جمہوریت میں صحافت کو چوتھا ستون کہا گیا ہے، اگر ہماری عوامی جمہوریت میں عوامی رہنما، سیاسی شخصیات، سماجی کارکنان اور صحافی بھی حکومت کی پالیسیوں اور ان کے کام کرنے کے انداز پر اپنی رائے عوام کے سامنے رکھنے یا حکومت کی عوامی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کی پاداش میں ملک سے بغاوت کرنے کے ملزم قرار دیے جائیں گے تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سب سے بنیادی جمہوری حق کی اہمیت ختم ہوجائے گی، ہماری حکومتوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ سوالات جنم نا لے سکیں جب کہ سوالات ہی جمہوری نظام میں حکومت کو متوازن رکھتے ہیں۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)