حسان سنبھلی
انسان کیسا زبردست فاتح ہے، وہ دلوں کو بھی فتح کرلیتا ہے، اور قلعوں کو بھی، ملکوں کو بھی فتح کرلیتا ہے اور شہروں کو بھی، وہ خلا میں پرواز کا شوق بھی رکھتا ہے، اور ستاروں پہ کمند ڈالنے کا ہنر بھی، وہ چاند پہ آشیانہ بنانے کا لطف بھی لیتا ہے، اور آسمان کی وسعتوں اور اس کی نیرنگیوں کا مزہ بھی، وہ دشت تو کیا دریا بھی نہیں چھوڑتا ، بلکہ اس سے آگے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑادیتا ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایسی شاندار فتوحات کی تاریخ رکھنے والے انسان کو موت فتح کر لے جاتی ہے، وہ اس کے ارمانوں کو بہا لے جاتی ہے، اس کے خوابوں کے محل اڑا لے جاتی ہے ،میں نے ایک کتاب ’ اللہ اکبر ‘ میں پڑھا تھا ،اس کے مصنف لکھتے ہیں ’ سکندر اعظم نے بڑی بڑی فتوحات کیں، مگر جب آخر وقت آیا تو اس نے کہا : میں دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا، مگر موت نے مجھ کو فتح کرلیا ‘ (ص216- اللہ اکبر)
کچھ اسی طرح ہمارے ناناجان رح ( قمر سنبھلی) جنہوں نے نصف صدی تک اپنی شعری اور نثری خدمات کے ذریعہ لوگوں میں اپنی عظمت کے قلعے تعمیر کیے، اور ان کے دلوں کو فتح کیا، لیکن اچانک 14؍ اگست ہفتہ کی شب تقریباً پونے گیارہ بجے نانا جان ؒ کو موت نے فتح کرلیا۔
کون جینے کے لئے مرتا ہے
لو سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے
ولادت!
ناناجان ؒ کا اصل نام سلطان الدین، اور ادبی نام قمر سنبھلی تھا ،ان کی پیدائش 2ستمبر 1942ء کو سنبھل کے علمی گھرانے میں ہوئی، آپ کے والد مولانا حکیم قاری حمید الدین مرحوم جو خود علمی وفکری مملکت کے بادشاہ تھے، اور دارالعلوم دیوبند کے فاضل بھی تھے، جہاں آپ نے اما م العصر علامہ انور شاہ کشمیری ؒ، مفسرقرآن حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جیسے اساطین علم وفن سے استفاده کیا اور مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں قرأت اور تجوید کی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی ، اور مزید سعادت کہ آپ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ اجل بھی تھے ۔
ناناجان ؒمولانا برہان الدین سنبھلی ( دادا مرحوم ) کے چھوٹے بھائی تھے جو دارالعلوم ندوة العلماء کے سابق شیخ التفسیر بھی رہے ہیں،جن کے علم وفکر کی روشنی آج پوری دنیا میں ان کے شاگرد پھیلارہے ہیں ،اور جن کی عظمت کے نقوش ان کے چاہنے والوں کے دلوں پر ثبت ہیں ۔
تعلیم وتربیت!
ناناجان رح کا مدرسہ ان کے والد گرامی رح کی شخصیت تھی، جن کا سایہ اور جن کی دعاؤں نے ان کو وہ بلندی نصیب کی کہ جہاں تک بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کی رسائی بھی مشکل سے ہوپاتی ہے، نانا مرحوم نے اپنے والد ؒ کے پاس ہی حفظ کیا، اور انہیں کے پاس رہ کر فن تجوید وقرأت سیکھا، ان کے والد ماجدکو عمر کے آخیر حصہ میں فالج کا مرض لاحق ہوگیا تھا جس کے سبب وہ ان کا سہارا بنے، ان کے والد خود کہا کرتے تھے، ’ میرا ایک بیٹا جسمانی خدمت کررہا ہے، اور دوسرا روحانی ، لہٰذا ناناجان ؒ نے اپنے والد ماجد کی خوب خدمت کی، اسی وجہ سے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے، لیکن اعلیٰ تربیت کے فیض نے ان کے اندر حسن ذوق کا بیج بویا، اور انہیں شہرت اور قابلیت کے آسمان میں اڑایا، اپنے والد ماجد کے انتقال کے بعد وہ1960ء میں دہلی منتقل ہوگئےتھے، اور وہیں مدرسہ عالیہ فتح پوری میں تعلیم حاصل کی ۔
ادبی تخلیقات!
آسمان شعر وسخن پہ بے شمار ستارے ابھرے ہیں، اور ابھر کے نکھرے ہیں، جنہوں نے اپنی ضیا پاش کرنوں سے جہان شعر وسخن کو روشنی بخشی، انہیں ستاروں کے بیج جنہیں قمر ’قمر سنبھلی‘ کی حیثیت حاصل رہی، وہ ہمارے ناناجان رح تھے، گویا ستارے جس کے گرد راہ تھے وہ قمر ’ قمر سنبھلی‘ آپ ہی تھے، دہلی آمد کے بعد نانا جان رح نے شعری ونثری ذوق کی آبیاری کے لئے ’ انجمن تعمیر اردو‘ سے وابستگی اختیار کی، وہیں اس فن کو چار چاند لگانے کے لئے حضرت زاہد حیدری ؒ کادامن تھاما ، نانا جان کی شاعری میں اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی فراوانی ملتی ہے، یقیں محکم ،عمل پیہم، محبت فاتح عالم ،کا درس ملتا ہے ۔
ناناجان ؒ نے غزل کو ایک نیا جہاں عطا کیا، اس کو نیا رنگ وآہنگ دیا ،اس کے نئے صنم تراشے ،اور اس کےچہرے پر لگے داغ ودھبوں کو صاف کیا، اور غزل کو نئے افکار اور تخیلات کے رنگوں سےسجادیا، جس کے بعد اب ان کی شاعری کے رخسار پر یہ غازہ خوشنما معلوم ہوتا ہے۔
ناناجان کے اشعار دیکھیے!
روش عام سے ہم ہٹ کے ذرا چاہتے ہیں
ایک لہجہ سبھی لہجوں سے جدا چاہتے ہیں
اسی پر بس نہیں کہ وہ صرف لہجہ جدا چاہتے ہیں،بلکہ اپنے انداز سے جینے کی ادا بھی وہ مختلف چاہتے ہیں ۔
کوئی انعام ،نہ ہم داد وفا چاہتے ہیں
اپنے انداز سے جینے کی ادا چاہتے ہیں
مزید اشعار دیکھیں!
پھر وہی دور سے آتی ہوئی آواز کا لمس
پھر وہی شہد سی کانوں میں صدا چاہتے ہیں
اس قدر خوف ہے چہرے کی خراشوں سے انہیں
آئینہ بھی نیا چہرہ بھی نیا چاہتے ہیں
( آواز کا لمس: ص23- )
ڈاکٹر گلزار دہلوی نے ناناجان مرحوم کے اسی نئے انداز اور لب ولہجہ پر داد دیتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’محاسن و معایب سے ان کی دلچسپی، علم عروضی وقوافی سے ان کا شغف، شعر کے فن سے انہماک اور روایتی شاعری میں نئے تجربات، نئے خیالات وتصورات، نئی تشبیہات ،نیا لہجہ وآہنگ، جدت وجدیدیت سے ہم آمیز خوشبوؤں کی رچی بسی زبان ان کے ذوق سلیم کی غمازی کرتی ہے، قمر کی شاعری اتنے پہلوؤں اور اتنے محاسن سے بھرپور ہے کہ ہر گوشہ کا ذکر مختصر تعارفی جائزے میں سما نہیں سکتا۔‘‘
اور خود ناناجان رح کو اپنی شاعری پر اس درجہ یقین تھا کہ وہ بول بیٹھے :
میں نے برتا ہے بہت سوچ سمجھ کر ہر لفظ
میرے اشعار سے فنکار سند لائیں گے (28)
ناناجان ؒ کے پاس دنیا کی چمک دمک اور اس کی دولت تو نہیں تھی، ہاں لیکن وہ احساس کی دولت سے سرشارضرور تھے ،ایک شاعر کے پاس اگر حساس دل ہے تو وہ دنیا میں سب سے بڑا مالدار ہے ’’ الغنى غنى النفس ‘‘ ناناجان ؒنے لوگوں کو اسی خوبصورت احساس کی شراب پلائی ،اور اسی کے جام بھر بھر کے انڈیلتے رہیے ،وہ لکھتے ہیں!
اور کچھ پاس نہیں دولت احساس تو ہے
کیوں نہ ہم خود کو قمر! صاحب ثروت جانیں ( 29)
ناناجان ؒ کے اس شعر پر سلام بھیجئے کہ انہوں نے سخن کے نقصان کو لبوں سے چوما، اور نفع کو اوروں میں تقسیم کردیا ۔
سخن کا نفع سب اوروں میں ہوگیا تقسیم
خسارے فن کے قمر سنبھلی نے چھین لیے (31)
نانا جانؒ نے اپنی زندگی کو اس شعر میں بیان کردیا، وہ اسی لئے دنیا کی بھیڑ میں گم نہیں ہوئے کہ کہیں اپنی ہی شناخت نہ کھو بیٹھیں ۔
ایسا نہ ہو شناخت ہی کھو بیٹھوں میں قمر
مہلت نکال کر کبھی خود سے ملا کروں (33)
ناناجان ؒ کو فکر وخیال کی آزادی سے بہت پیار تھا، وہ اس کے قفس میں رہ کر زندگی گزارنانہیں چاہتے تھے، وہ شاہین بن کر فضا میں اڑنا اور وہاں اپنے نغمے بکھیرنا چاہتے تھے ۔ وہ لکھتے ہیں!
مرے خیال کو زنجیر کر نہ پائے گا
مرا قلم ہی نہیں، وہ زبان بھی لےلے (40)
بلکہ آگے پوری قوت سے قلم کو صفحات پر رقص کروایا اور صاف لفظوں میں کہہ گئے ۔
نہ چھین پائے گا مجھ سے تو حوصلہ میرا
سپر بھی، ہاتھ سے تیر وکمان بھی لےلے
ہے چھت خیال کی، خوش فہمیوں کی دیواریں
پسند اگر ہے تجھے، یہ مکان بھی لے لے
ہمیں تو شوق ہے موجوں سے کھیلنے کاقمر
نہیں ہے خوف جو وہ باد بان بھی لے (40)
ناناجان ؒ کی زندگی دھوپ چھاؤں کے عالم میں گزری، ’کبھی راستوں میں تنہا اور کبھی ہوں ورود صحرا ‘ کے مصداق تھی ، وہ سرد وگرم کی پرواہ کیے بغیر گھر سے باہر رہے، اور اپنے آپ کو تجربوں کی دھوپ میں نکھارتے رہے ۔
دنیا کے سرد وگرم نے جینا سکھادیا
ہم تجربوں کی دھوپ میں تپ کر نکھر گئے
بلکہ انہوں نے یہ تمنا کی کہ زخم اور گہرا ہو تاکہ ان کی زندگی کا لطف دوبالا ہوجائے۔
اچھا ہے زخم دل کے نہ ہوں مندمل قمر
کیا لطف زندگی کا، اگر گھاؤ بھر گئے (26)
نانا جان ؒ حقیقت کے اسٹیج پہ قائم رہنے والے انسان تھے ،ان کو اداکاری نہیں آتی تھی،اور نا ہی وہ اس کی خواہش رکھتے تھے ۔
ہر سمت اداکاروں سے اسٹیج سجے ہیں
تم کو قمر اب تک کوئی کرتب نہیں آیا (90)
ناجان ؒ کلیم عاجز کی اس صفت کے امین نظر آئے جس میں انہوں نے نم آنکھوں سے یہ کہا تھا کہ ’’ہمارے بعد اردوئے معلی کون سمجھے گا‘‘ اسی انداز میں نانا نے بھی کہا ہے ۔
ہمارے بعد قلم کا امین کون بنے
کسے نصیب ہو اب تیشہ ہنر دیکھیں (91)
اب یہاں غزل کی زلف برہم سنوارنے کے بعد نانا جان نے حمد اور نعت میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں ،خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار ان کا دل جسے انہوں نے اپنے قلم کے راستے سے امت کے سامنے رکھ دیا ہے ۔
ذرا ایک نظر ادھر بھی ہوجائے!
نظر کا حسن بھی حسن خیال بھی اس کا
مرے ہنر میں ہے سارا کمال بھی اس کا
مرے قلم کی سیاہی بھی نور سے اس کے
ہر اک سخن میں ہے میرے جمال بھی اس کا
صدا اس کی سنوں دل کی دھڑکنوں میں بھی
لرزتے ہونٹوں پہ حرف سوال بھی اس کا (19)
آئینہ بھی ،آئینے میں منظر بھی اسی کا
ہے آنکھ کی پتلی میں سمندر بھی اسی کا (33)
اس کے علاوہ ناناجان ؒ کئی ادبی رسائل میں بحیثیت معاون مدیر شامل رہے ،جس کے ذریعہ وہ ادب کی خوشبو بکھیرتے رہے، جن میں ماہنامہ’’ رہنمائے تعلیم‘‘ دہلی۔ سہ ماہی ’’ایوان ادب‘‘ دہلی۔ماہنامہ ’’ گل کدہ‘‘ اور ماہنامہ ’’ رہنمائے تعلیم جدید‘‘ جیسے مجلے شامل ہیں ۔انہوں نے شعر وسخن کی کائنات کو وسعت دینے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارم پر بھی قدم رکھا، ٹی وی اور مختلف چینلز کے ذریعے اپنے کلام سے سامعین کے تار دل کو چھیڑا اور کل ہند مشاعروں میں شرکت کرکے دادا تحسین حاصل کی ۔
قطعہ تاریخ میں مہارت!
یہ فن اب تقریباً اپنی عمر مکمل کرچکا ہے ،اور نئی نسل کو تو معلوم بھی نہیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے، ناناجان ؒ نے اس میں بھی طبع آزمائی کی ہے، جس کی ایک مثال اپنے بڑے بھائی مولانا برہان الدین سنبھلی ؒکی وفات کے بعد لکھا گیا ان کا یہ قطعہ ہے
۔
{ مرد پاک باطن، شیخ التفسیر }2020ء
{ نیک مزاج حضرت مولانا برہان الدین}2020ء
سخت معذوری میں ہمت سے گزارے کئی سال
لب پہ آیا نہ کبھی حرف شکایت ایک بار
وہ بہرحال رہے صبر ورضا کا پیکر
بر محل جملہ تاریخ ملاشکر گزار 1441ھ
زہد و استغنا!
ناناجان ؒ زہد واستغنا کے ہفت اقلیم پر تھے، خدا تعالیٰ کا ہمہ وقت استحضار رکھتے تھے، ایک مرتبہ دہلی قیام کے دوران انہیں بالی ووڈ کی طرف سے آفر ملا کہ وہ فلم کے لئے گانا لکھ دیں ، لیکن انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کردیا، ’ گویا زبان حال سے کہہ رہے ہوں ’’ قال معاذ الله إنه ربي أحسن مثواي‘‘ اور پھر پوری زندگی ’’والباقيات الصالحات خير عند ربك ثوابا وخير أملا ‘‘ کی تفسیر بنے رہے ۔
تصنیفات!
’’پھول آنگن کے ‘‘ (بچوں کے لئے نظمیں)2003ء ’’جزیرے خواب کے‘‘ (شعری مجموعہ، )2004ء’’روشن روشن حرف ‘‘ (حمد ونعت )2008ء میری نظر میں ادبی شخصیات (نثر) 2011ءاس کے علاوہ غیر مطبوعہ کتابوں میں قافلہ رفتگاں، ادبی کہکشاں، برمحل ، مذاق نظر، تلخ وشیریں، بساط حرف وغیرہ شامل ہیں ۔
اعزازات !
آواز کا لمس کتاب پر’’ نیا سفر‘‘ دہلی کی جانب سے شال کا ایک گرانقدر ہدیہ عطا کیا گیا۔ 1999ء میں ادبی سنگم غازی آباد کی طرف سے چالیس سالہ ادبی خدمات پر ’’مہدی نظمی ایوارڈ دیا گیا۔ 2001ء میں کل ہند مقابلہ قرأت منعقدہ غالب اکیڈمی نئی دہلی سینئر گروپ میں اول انعام سے نوازاگیا۔ حمد ونعت اکیڈمی کی طرف سے 2008ء کو حضرت حسان ایوارڈ سے نوازاگیا، ایوارڈ برائے شاعری 2011ء اردو اکادمی دہلی کی جانب سے بدست وزیر اعلیٰ دہلی دیا گیا۔ ماہنامہ ’’ ہمارا دور ‘‘ دہلی کے ایک شعری مقابلے میں 1982ء کو ایک ایوارڈ دیا گیا، اس کے علاوہ راشٹرپتی بھون نئی دہلی اور لال قلعہ کے قومی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا ۔
آخری بات!
بہرحال 52 سال کی طویل مسافت کے بعد وہ دہلی سے لکھنؤ شفٹ ہوگئے تھے ، چاندنی چوک میں ان کا قیام تھا،1960ء سے 2012ء تک دہلی کی زلفوں میں آباد رہے، اس کے بعد پوری زندگی اپنی بڑی بیٹی کے یہاں بالاگنج میں گزاری، طبیعت نشاط اور شاداب تھی، وہ ذوق کے ’’قصر سلطانی‘‘ پر براجمان تھے، مزاج میں سادگی، لبوں پر مسکراہٹ رقصاں، محبت ومودت کے نشاں، علم وفکر کے آسماں، ادب وسخن کے کہکشاں، یہ ناناجان ؒ کی کتاب زندگی کے عناوین تھے، انتقال سے ایک دن پہلے زندگی اپنے معمول پر تھی ،البتہ جس دن وہ رخصت ہوئے اس دن کچھ طبیعت بے چین تھی، لیکن اندازہ نہ تھا کہ ناناجان ؒ اتنی جلدی ہم سے جدا ہوجائیں گے، بہرحال اللہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کرنا یہی ہمارا ایمان ہے ، وہ جاتے جاتے ہمیں شعر ونثر کے جزیروں میں بساگئے، ادب کے دریا میں نہلاگئے، اورسخن کی خوبصورت وادیوں کا اسیر بناگئے ۔
اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے، اوران کی ادبی خدمات کو قبول فرمائے ۔
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک